وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار پہلی مرتبہ وسیب کے تین روزہ دورے پر تشریف لائے ۔ڈی جی خان میں انہوں نے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں سے ملاقاتوں کے علاوہ متعدد ترقیاتی منصوبوں کا بھی اعلان کیا۔وزیراعلیٰ اپنے آبائی علاقے بارتھی ،تونسہ بھی گئے وہاں بھی انہوں نے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا۔وزیراعلیٰ ملتان آئے ،ملتان میں انہوں نے ڈی جی خان بس حادثہ کے متاثرین میں امدادی چیک تقسیم کیے اور ملتان میں ترقیاتی منصوبوں کی وجہ صرف وعدے پر اکتفاء کیا گیا ۔وزیراعلیٰ کی آمد پر ان کے آبائی علاقے میں بلوچ ثقافت کی جھومر پیش کی گئی اور وہاں انہوں نے بلوچی میں خطاب بھی کیا۔وزیراعلیٰ کے دورے کے حوالے سے جو گزارشات پیش کرنی ہیں وہ یہ ہیں کہ وزیراعلیٰ نے سرائیکی صوبے کے قیام کے سلسلے میں کسی پیش رفت کا اعلان نہ کرنے سے وسیب کے کروڑوں افراد کی دل آزاری ہوئی ہے۔عثمان خان بزدار صوبہ محاذ کے مینڈیٹ پر کامیاب ہوکر وزیراعلیٰ بنے ہیں،100دن ختم ہونے میں ابھی چند دن باقی ہیں مگر اس بارے میں ہر طرح کی خاموشی بہت سے وسوسوں کو جنم دے رہی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں اپنا آئیڈیل ریاست مدینہ کو قرار دیا۔ریاست مدینہ میں وعدے کی پاسداری کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے اور آئین پاکستان میں دفعہ 62-63اس بات کی غماز ہے کہ وعدوں کو پورا کیا جائے مگر اب وعدہ خلافی یعنی یوٹرن کو بہت بڑا کریڈٹ قرار دیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں مثالیں ہٹلر اور نپولین کی دی جارہی ہیں،سوال یہ ہے کہ ریاست مدینہ والوں کا آئیڈیل تو حضور ؐ کی ذات ہے یہ ہٹلر کہاں سے آگیا؟ یوٹرن کی وجہ سے سرائیکی وسیب میں سخت تشویش پیدا ہوچکی ہے کہ آیا حکمران صوبے کے وعدے سے بھی انحراف تو نہیں کررہے ؟ میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کے ہم اس بات پر مخالف رہے کہ وہ پورے صوبے کے وسائل بے دردی سے لاہور پر خرچ کررہے تھے ،میاں شہبازشریف کی دور میں اسی مخالفت کی بنیاد پر حکومت پنجاب نے میرے خلاف جھوٹا پرچہ بھی درج کرایا مگر ہم اپنی بات پر قائم رہے ،یوسف رضا گیلانی برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے ملتان شہر کو سب سے زیادہ منصوبے دئیے اس پر بھی میں پہلا آدمی تھا جس نے اعتراض کیا کہ سرائیکی وسیب صرف ملتان شہر کا نام نہیں ہے۔وسائل کی تقسیم ملک کے تمام پسماندہ علاقوں کیلئے مساوی ہونی چاہئے ۔سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں میرے اکلوتے سرائیکی اخبار کے اشتہار بند رہے اور پی آئی او رائو تحسین نے میرے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں مگر میں نے جو صحیح سمجھا وہی کچھ لکھا آج سردار عثمان بزدار کی خدمت میں بھی یہی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ڈی جی خان کو ترقیاتی منصوبے ضرور دیں مگر پورے صوبے میں جہاں جہاں محرومی اور پسماندگی ہے سب کو اس کا حق دیں ،سرائیکی وسیب کے محروم اضلاع کے علاوہ پوٹھوہار اور خود پنجاب میں جو جو علاقے نظر انداز ہوئے ہیں سب کو برابر حق دیں،جہاں تک بلوچی ثقافت اور بلوچی زبان میں خطاب کی بات ہے تو عثمان خان بزدار کو ملتان اور ڈی جی خان میں سرائیکی میں بھی خطاب کرنا چاہئے تھا ان کا مینڈیٹ وسیب کے سرائیکی ووٹوں کا مینڈیٹ ہے اور سرائیکی پورے خطے کی قدیم زبان ہے ،ہمیں اس بات پر افسوس ہے کہ عثمان خان بزدار نے سرائیکی زبان کی ترقی کیلئے کسی بھی طرح کا کوئی اقدام نہیں کیا ،ان کو سرائیکی وسیب کے کروڑوں لوگوں کے احساسات اور جذبات کا ادراک ہونا چاہئے۔ سرائیکی زبان کے تاریخی حوالے کا ذکر آیا ہے تو میں بتاتا چلوں کہ سرائیکی زبان کے بارے میں تاریخ ڈیرہ غازیخان میں لکھا گیا ہے کہ یہ خطہ جو کہ آج سرائیکی وسیب کہلاتا ہے ایک وقت سمندر میں ڈوبا ہوا تھا، کوہِ سلیمان اور کشمیر تک کے پہاڑوں کو سمندر چھو رہا تھا تب طوفانِ نوح کے نام سے دنیا میں بڑی تبدیلی آئی، کشمیر و کوہ سلیمان کے پہاڑوں سے لیکر کراچی تک سمندر پیچھے ہٹ گیا۔ ایک بہت بڑا زمین کا حصہ خشک ہوا اور پھر یہ سرزمین دریائوں اور پہاڑوں کی سرزمین کہلائی اور جو لوگ یہاں آباد ہوئے وہ مقامی لوگ تھے اور ان کا رہن سہن زبان اور ثقافت مقامی تھی پھر حملہ آور بھی یہاں آتے رہے اور وہ مقامی زبان و ثقافت کو ملیا میٹ کرنے کا باعث بنتے رہے لیکن مقامی زبان کی جڑیں دھرتی سے پیوست ہوتی ہیں اس لئے کسی نہ کسی شکل میں مقامی زبان و ثقافت ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ ثبات صرف تغیر کو ہے۔ دنیا میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ، زبان اور ثقافت کے اجزاء میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور زبانوں کے نام بھی بدلتے رہتے ہیں مگر کسی نہ کسی شکل میں اصلیت برقرار رہتی ہے۔ سرائیکی کو اس کی قدآمت کے اعتبار سے اُم السان کا درجہ حاصل ہے۔ حملہ آور ہمیشہ جبری طور پر اپنا نصاب اپنی زبان اور اپنی ثقافت نافذ کرتے ہیں۔ صدیوں سے سرائیکی خطہ حملہ آوروں کی زد میں ہے۔ انگریزی، فارسی، اردو وغیرہ کے نفاذ کی مثالیں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ تعلیمی اداروں ، دفاتر ، حکومتی ایوانوں میں غیر سرائیکی زبانوں کو جبری طور پر مسلط کیا ہے۔ اس کے باوجود سرائیکی اپنی طاقت کے بل بوتے پر زندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قریباً 2100 سال پہلے ڈی جی خان کے سرائیکی وسیب میں بکرما جی کی حکومت تھی ۔ اس کی ریاست دلورائے اندر پرستھ راجل، جام پور، ہڑند آسنی اور کن کے علاقے تک تھی اور اس کا دارالحکومت اندرون کا شہر نزد کوٹ مٹھن تھا اور اس سے سرائیکی سن سورج پر باندھی اور مہینوں کے نام رکھے۔ دنوں کے نام ترتیب دیئے۔ موسم بالحاظ اور دنوں کی مکمل گنتری شامل کی اور جس میں کبھی بھی فرق نہ ہوا اور سال کو دنیا میں پہلی دفعہ 365 دنوں پر محیط اور پابند کر دیا گیا اور سرائیکی سال بکرم شروع کیا ۔ اس وسیب کا شہر سیت پور بہت قدیم ہے ۔ موضع واہوا چک شمالی میں جو آثار قدیمہ ظاہر ہوئے ان میں ڈھیر اور کہہ مکڑی ہا کے قصبے قابلِ ذکر ہیں جن کی تاریخ 2000 سال سے زائد بتائی جاتی ہے۔ قلعہ ہڑند کی تاریخ 4000 سال بتائی جاتی ہے ۔ میرے وسیب کا ٹرائبل ایریا بھی بہت قدیم ہے اور معدنی دولت سے مالا مال ہے۔ اس علاقے سے تمنداریاں ختم ہونی چاہئیں تاکہ اس خطے کے لوگ بھی 21 ویں صدی میں سانس لے سکیں ۔ سرائیکی وسیب معدنی دولت سے بھی مالا مال ہے ۔ تیل اور گیس کے علاوہ یورینیم کو بہت ہی زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ وسیب کے جغرافیے کے ساتھ ساتھ وسیب کی سرائیکی زبان بھی بہت میٹھی اور بہت قدیم ہے ۔
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ