سرائیکستان قومی موومنٹ کے بانی چیئرمین بابائے سرائیکستان سئیں حمید اصغر شاہین طویل علالت کے بعد وفات پا گئے۔سئیں حمید اصغر شاہین 1937ء میں سردار فضل احمد خان سیہڑ کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے واڑہ سیہڑاں کروڑ لعل عیسن میں حاصل کی۔ کالج میں سٹوڈنٹ لیڈر بنے اور گریجویشن کرنے کے بعد ترقی پسند مزدور ، کسان تحریک سے وابستہ ہو گئے اور مزدوروں ، کسانوں کے حق میں مزاحمتی کردار شروع کر دیا۔ حمید اصغر شاہین کے والد زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ حمید اصغر شاہین کا اپنے بھائیوں میں دوسرا نمبر تھا۔ شاہین صاحب کا خاندان تھل کا بہت بڑا جاگیردار ہے۔ ہمیشہ ایم این اے ، ایم پی اے شپ اس گھرانے میں رہی۔ حمید اصغر شاہین اپنی غیر جاگیردارنہ ترقی پسند سوچ کی وجہ سے اپنے خاندان سے بیزار نظر آئے اور جب انہوں نے مزدور ، کسان تحریک میں حصہ لیا تو اپنی تقریروں اور اپنی تحریروں میں کسی کو نہ بخشااور وہ اپنے خاندان سے دور رہنے لگے اور ایک وقت یہ بھی آیا کہ انہوں نے خاندان سے قطع تعلقی اختیار کر لی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو وہ پیپلز پارٹی سے وابستہ ہو گئے اور پارٹی کیلئے بہت کام کیا۔ وہاں بھی حمید اصغر شاہین کا کردار مزاحمتی رہا ، پھر پیپلز پارٹی بر سر اقتدار آئی اور پیپلز پارٹی میں جاگیردار شامل ہوئے تو حمید اصغر شاہین وہاں بھی بیزار آنے لگے اور پی پی کے جلسوں میں جاگیرداروں کے خلاف دھواں دھار تقریریں کرتے۔ آخر جاگیرداروں نے ان سے انتقام لیا ، سردار فاروق خان لغاری اور غلام مصطفی کھر کے دور میں ان کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر جسمانی تشدد ہوا ، ذہنی طور پر ٹارچر کیا گیا ، کہا جاتا ہے کہ ان کی ٹانگوں پر رولر پھیرے گئے ‘ مگر حمید اصغر شاہین نے سب کچھ برداشت کیا اور جاگیرداروں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے اور پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی اور پھر سے مزدور کسان تحریک میں کام شروع کر دیا۔ ضیا ءالحق دور میں سرائیکی وسیب پر برا وقت آیا تو انہوں نے سرائیکی تحریک کیلئے کام شروع کر دیا۔ پہلے انہوں نے سرائیکی قومی موومنٹ (ایس کیو ایم) کے پلیٹ فارم سے کام کیا۔ پھر میرے مشورے پر انہوں نے سرائیکی قومی موومنٹ کا نام سرائیکستان قومی موومنٹ رکھا اور شکریہ ادا کیا کہ سرائیکی نام لسانی تھا ، آپ نے میری جماعت کا نام جغرافیائی حوالے سے دیکر مجھ پر احسان کیا کہ ہم لسانیت پرست نہیں بلکہ وسیب اور خطے کی بات کرتے ہیں۔ سیاسی تحریکوں کی وجہ سے حمید اصغر شاہین نے شادی بہت دیر سے کی اور ان کی شادی پنجابی گھرانے میں ہوئی۔ کچھ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو حمید اصغر شاہین نے کہا کہ جب تک ہم اپنی سوچ کو ترقی پسند نہیں بنائیں گے ، آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرائیکی خطے میں جو بھی رہتا ہے‘ وہ ماں دھرتی کا بیٹا ہے۔ حمید اصغر شاہین کے ہاں 1987ءمیں پہلی بیٹی پیدا ہوئی ، اس کا نام انہوں نے اپنی ماں دھرتی کی نسبت سے روہی خان رکھا۔ 1990ءمیں پہلا بیٹا پیدا ہوا تو انہوں نے اس کا نام سرائیکستان خان رکھا۔ اس پر کچھ غیر سرائیکی دوستوں کو اعتراض ہوا اور شاہین صاحب کی برادری کے لوگوں نے بھی اعتراض کیا مگر انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی اور کہا کہ بیٹے کا نام تبدیل نہیں ہو سکتا۔ پھر ان کا دوسرا بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام پاکستان خان رکھا۔ گویا انہوں نے اعتراض کرنے والوں کو اپنے عمل سے جواب دیدیا کہ ہم پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور سرائیکستان ہمارے خطے کی اسی طرح پہچان ہے جس طرح بلوچستان یا دوسرے علاقے۔ اپنے بیٹے کے نام کی وجہ سے حمید اصغر شاہین کو بابائے سرائیکستان بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا بیٹا بڑا ہوا ، وہ کالج تک پہنچا تو شاید بیٹے کو احساس ہوا کہ کم از کم کاغذات کی حد تک میرا نام تبدیل ہونا چاہئے۔ پھر انہوں نے اپنے والدکی اجازت سے اپنا نام محمد خان رکھا۔ جس پر سب سے پہلے میں نے اعتراض کیا ، لمبی بحث شروع ہوئی اور کچھ عرصہ کیلئے ہمارے تعلقات بھی کشیدہ ہوئے۔ بے رحم حد تک سخت مزاج ہونے کے باوجود حمید اصغرشاہین نے میرے موقف کو تسلیم کیا اور کہا کہ سرائیکستان خان کا نام تو جو تھا وہی ہے ‘ اگر بیٹے نے سرکاری ریکارڈ کیلئے کاغذات کی حد تک تبدیلی کر لی ہے تو آپ درگزر کریں۔ حمید اصغر شاہین کا کارنامہ یہ ہے کہ انہو ںنے ہمیشہ مزاحمتی سیاست کی ، وہ ہمیشہ سڑکوں پر رہے۔ اس سلسلے میں کئی مرتبہ گرفتار بھی ہوئے ، مگر انہوں نے اپنا مزاحمتی عمل جاری رکھا۔ شاہین صاحب ہمیشہ یہ بات کرتے رہے کہ کسی اقتدار پرست نے صوبہ نہیں دینا ، پھر ان سے پوچھا جاتا تو صوبہ کہاں سے ملے گا تو وہ کہتے کہ صوبہ سڑکوں پر ملے گا۔ انہوں نے ایک کتاب سرائیکستان کے نام سے لکھی ، جس میں انہوں نے دلائل سے ثابت کیا کہ سرائیکی صوبہ پاکستان کی ضرورت ہے۔ وہ سرائیکی اخبار جھوک میں باقاعدہ کالم ”چ±لھ دی خیر ک±ل دی خیر “ کے نام سے لکھتے رہے۔ آخری عمر میں ان کی سیاست کا بیشتر وقت جھوک اخبار خانپور اور جھوک اخبار ملتان میں گزرا۔ وہ سرائیکی تحریک میں ہمارے قائد اور ساتھی رہے اور انہوں نے دھریجہ نگر کو سرائیکی تحریک کا قومی مرکز اور جھوک کو شعور کا ترجمان قرار دیا۔ حمید اصغر شاہین تین سال سے دمہ کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ میں ان سے ملنے جاتا تو وہ علالت کے باوجود یہی بات کرتے کہ ترقی پسندانہ سوچ اور مزاحمتی عمل جاری رہنا چاہئے۔ حمید اصغر شاہین کے ساتھ ملکر ہم نے ڈیرہ اسماعیل خان میں اس وقت سیاسی کام کیا جب وہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی عروج پر تھی۔ وہ کہتے تھے کہ میری تو خواہش ہے کہ مجھے ڈی آئی خان میں دفن کیا جائے کہ یہ خطہ سرائیکی وسیب کا مرکز ہے اور یہ کہ میری موت پر تعزیتی ریفرنس منعقد کیا جائے بلکہ ترقی پسند مزاحمتی کانفرنسوں کا انعقاد ہونا چاہئے ، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تعزیت کا دن وہ ہوگا جب وسیب کے لوگ اپنے وسیب سے محبت اور اپنا ترقی پسند مزاحمتی کردار چھوڑ دیں گے۔ سئیں حمید اصغر شاہین کا سرائیکی تحریک میں جرا?ت مندانہ کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے سرائیکستان کیلئے ہتھکڑیوں کو زیور بنایا۔ جیل میں ظالم حکمرانوں کے بد ترین تشدد برداشت کئے۔ آخر وقت تک جرات مندانہ مزاحمتی کردار برقرار رکھا۔ ایسے قائد قوموں کی زندگی میں روز روز نہیں صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ہم اپنے عظیم قائد کی خدمات کو سلام پیش کرتے ہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ92نیوز)
فیس بک کمینٹ