پیرس : ذکیہ خدادادی نے تائیکوانڈو میں خواتین کی 47 کلوگرام کیٹیگری میں ترکیہ کی نورجہاں کو شکست دے کر کانسی کا تمغہ جیت کر تاریخ رقم کر دی ہے۔ وہ ایک بازو کے بغیر پیدا ہوئی تھیں، 11 سال کی عمر میں ہرات کے ایک خفیہ جم میں چھپےچوری تائیکوانڈو کی مشق شروع کی تھی۔انہیں پیرس 2024 کے پیرالمپکس میں پناہ گزینوں کی ٹیم کے ساتھ مقابلے میں شرکت کا موقع فراہم کیا گیا۔ذکیہ خدادادی نے جمعرات کو پیرس پیرالمپکس میں ریفیوجی پیرا اولمپک ٹیم کی جانب سے تمغہ جیتنے والی پہلی ایتھلیٹ بن کر تاریخ رقم کی ہے۔
"یہ ایک حقیقی لمحہ تھا، میرا دل دھڑکنے لگا جب مجھے احساس ہوا کہ میں نے کانسی کا تمغہ جیت لیا ہے،” خوشی سے بےحال خدادادی نے کہا، ان کی آواز جذبات سے لرز رہی تھی”میں نے یہاں پہنچنے کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ یہ تمغہ افغانستان کی تمام خواتین اور دنیا کے تمام مہاجرین کے لیے ہے۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن میرے ملک میں امن ہو گا۔”خدادادی نے، جو ایک بازو کے بغیر پیدا ہوئی تھیں، 11 سال کی عمر میں مغربی افغانستان میں اپنے آبائی شہر ہرات کے ایک خفیہ جم میں چھپ کر تائیکوانڈو کی مشق شروع کی تھی۔
2021 میں طالبان کے عروج کے بعد انہیں مقابلوں میں شرکت کرنے سے روک دیا گیا تھا، جس کے بعد وہ افغانستان سے فرار ہوگئیں اور بین الاقوامی برادری کی اپیل کے بعد انہیں اپنے ملک کے لیے ٹوکیو اولمپکس میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔
خدادادی پیرس میں آباد ہوگئیں اور بعد میں انہیں پیرس 2024 کے پیرالمپکس میں پناہ گزینوں کی ٹیم کے ساتھ مقابلے میں شرکت کا موقع فراہم کیا گیا۔خدادادی نے کہا، "یہ تمغہ میرے لیے سب کچھ ہے، میں یہ دن کبھی نہیں بھولوں گی۔” "میں کھیل دیکھنے والے مجمع کی زبردست حمایت کی وجہ سے جیتی ہوں،”
گرینڈ پیلس میں فرانسیسی ہجوم نے ان کے لیے اس طرح جوش و خروش اور خوشی کا اظہار کیا جیسے وہ ان میں سے ہی ہوں۔افغانستان سے فرار ہونے کے بعد سے، خدادادی اپنے فرانسیسی کوچ ہیبی نیارے کے ساتھ پیرس میں فرانس کے کھیلوں کے قومی ادارے INSEP میں تربیت لے رہی ہیں، جو تائیکوانڈو کی سابق عالمی چیمپئن ہیں۔
"ذکیہ نے گویا جادو کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اسے اور کس طرح کہوں ۔” نیارے نے فخر سے کہا۔ "تربیت کا دور چیلنجنگ رہا ہے۔ انہیں بہت سی چوٹیں بھی آئیں اور ان ایک دو سال میں بہت کچھ سیکھنا پڑا لیکن وہ اپنےگول سے کبھی نہیں ہٹی۔”
فیس بک کمینٹ