تجزیےذیشان ہاشملکھاری

آخر ملالہ ہی کیوں، میں کیوں نہیں ؟ ۔۔ ذیشان ہاشم

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملاله کو نوبل انعام دیا گیا تھا ایک پاکستانی دانشور نے جو پاکستانی ترقی پسندوں میں مقبول و معروف ہیں ایک تحریر لکھی جس کا عنوان تھا صرف ملالہ ہی کیوں؟ پوری تحریر پڑھی تو سوچا اصلی عنوان یہ ہونا چاہئے تھا : آخر ملالہ ہی کیوں، میں کیوں نہیں؟ …. وہ صاحب آج کل امریکا میں بیٹھ کر یہ لکھ رہے ہیں کہ طالبان اور لبرلز ڈونلڈ ٹرمپ کے اس لئے مخالف ہیں کیونکہ وہ اسلامی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں پرعزم ہے۔ شام پر ٹرمپ کے حملے اور شمالی کوریا کی طرف امریکی افواج کی نقل و حرکت کے بعد سے میں منتظر ہوں کہ وہ صاحب کوئی نیا انکشاف کریں تاکہ معلوم ہو اب کی بار لبرلز نے کیا سازش کر ڈالی۔ ملالہ کی سربلندی اور اس کے دنیا بھر میں ممتاز مقام پر معترضین کے نفسیاتی پاگل پن کے خاکسار کے نزدیک دو بڑے اسباب ہیں۔
اول یہ کہ ہم احساس کمتری کے مارے لوگ ہیں۔ ایک تو وہ لڑکی ہے، دوسری یہ کہ وہ کم سن تھی جب اسے عالمی شہرت ملی، سوم وہ پختون ہے، چہارم وہ ان عناصر کے مدمقابل ہے جنہیں ہمارے نام نہاد بڑے عرصہ دراز سے گلیمرلائز کرتے آئے تھے یعنی بطور ہیرو پیش کرتے آئے تھے- یوں ہماری روایتی انا ہمارے فہم میں رکاوٹ ہے کہ آخر کوئی کم سن پختون لڑکی بھی اس عظمت پر پہنچ سکتی ہے جس پر ہم سرتوڑ کوشش کر کے بھی نہیں پہنچ سکے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ہم دور حاضر کی اس متمدن دنیا میں انسانی حقوق کا مطلب و مفہوم سمجھنے سے ہنوز قاصر ہیں۔ عرصہ دراز سے اس ملک میں جبری گمشدگیوں کا بازار گرم ہے ہم میں اتنا تو حوصلہ نہیں کہ ان کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔ سوشل میڈیا سنسر ہو رہا ہے ہم خاموش ہیں۔ بلاگرز اٹھائے گئے ان پر توہین مذہب کے جھوٹے الزامات لگائے گئے ہم نے اپنی سانسیں تک روک لیں تاکہ کسی آہٹ پر کوئی ہماری طرف نہ متوجہ ہو۔ اور تو اور جب ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور طالبانائزیشن کا بازار گرم تھا اس وقت ہمارے دلیر سیاست دانوں کو طالبان کا نام لے کر مذمت کرنے کا حوصلہ نہیں تھا اور یہاں ان کے دفاتر کھولنے کی بات ہو رہی تھی۔ ایسی فضا میں ایک کم سن لڑکی اٹھتی ہے، اپنے “حق حصول تعلیم” کا نعرہ بلند کرتی ہے اور جبر و وحشت کے طالبانی نظام کو چیلنج کرتی ہے۔ اسے طالبان نشانہ بناتے ہیں۔ دلچسپ یہ کہ طالبان کو معلوم ہے کہ وہ اسے کیوں نشانہ بنا رہے ہیں مگر یہ لوگ نہ سمجھ سکے کہ جبر و تسلط کے ایسے بدترین دور میں انسانی حقوق کا نعرہ بلند کرنا اور عملی طور پر اپنے مؤقف کے نتائج کا سامنا کرنا کتنا بڑا کام ہے۔
ہمارا معاشرہ فکری طور پر اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہے۔
– طالبان کے ساتھی، مددگار، غم گسار اور فکری ہمنوا۔
– ملالہ کو چاہنے والے، اسے پسند کرنے والے، انسانی حقوق اور لڑکیوں کی تعلیم میں اس کے کردار کے معترف اور انسانی حقوق کی اس جدوجہد میں اس کے شانہ بشانہ چلنے والے۔
یہ تقسیم اس وقت خاص طور پر واضح ہو جاتی ہے جب ملالہ کو دنیا کے کسی خطے میں عالمی پہچان اور قدر و منزلت ملتی ہے۔ ملالہ کے حالیہ دورہ کینیڈا کے دوران اسے جو مقام ملا ہے، وہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے لئے فخر و خوشی کا سبب ہے جبکہ انسانی حقوق کے دشمن اس وقت اپنی نفرت کی آگ میں جل رہے ہیں، ذہنی افلاس کے کیچڑ میں دھنسے ہوئے ہیں اور تقریر و تحریر کے نام پر غلاظتوں کی ابکائی کر رہے ہیں۔
ملالہ لڑکیوں کی تعلیم اور حقوق کے لئے عالمی طور پر جو کام کر رہی ہے اس کا مقام دنیا میں روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اس کے حاسدین اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ملالہ یوسف زئی پاکستان کی پہچان ہے۔ ہمیں ملالہ سے اور اس کے علم، امن اور رواداری کے پیغام سے محبت ہے۔
(بشکریہ:ہم سب)A

فیس بک کمینٹ

متعلقہ تحریریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker