چند ماہ پہلے کی بات ہے مَیں الحمرا لاہور میں ایک تقریب کے سلسلے میں موجود تھا۔ ایک تیکھے نین نقش والا نوجوان میری طرف بڑھا، شکل جانی پہچانی، اس سے پہلے کہ مَیں کوئی بات کرتا اس نے دونوں بازو آگے بڑھا کر گلے سے لگایا اور کہا مجھے علی رضا کہتے ہیں۔ مَیں اُس سے ملتے ہوئے محسوس کر رہا تھا کہ ایک ایسا شاعر، براڈکاسٹر، نعت خواں اور دانشور مجھ سے ہمکلام ہو رہا ہے جس سے بظاہر میری پہلی ملاقات ہو رہی تھی لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ ملاقات صدیوں پرانی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علی رضا کی پہلی پہچان نعت گوئی ہے۔ وہ بچپن سے مدینے والے سے محبت کا اظہار کر رہا ہے اور یہی اظہار اس کو ہر لمحہ پہچان اور شناخت کے راستوں کی طرف لے کے جا رہا ہے۔
درِ نبی جو مجھے دور سے دکھائی دیا
پھر اس کے بعد کچھ بھی نہیں سجھائی دیا
اذانِ مسجدِ نبوی کا سوز کیا کہیے
یہ سوز مجھ کو بڑی دُور تک سنائی دیا
خدائے ارض و سما کا کرم ہے جس نے رضا
نبی کے دَر پہ مجھے منصبِ گدائی دیا
مَیں علی رضا کو اس لیے خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ وہ شاعر ہونے کے باوجود اپنی پہچان کے لیے نعت کا انتخاب کرتا ہے حالانکہ وہ نظم اور غزل کے میدان کا بھی شاہسوار ہے۔ لیکن وہ حضور پاک کی محبت میں اس طور سے گرفتار ہے کہ بڑے یقین سے کہتا ہے
خیالوں میں ہے روشن سبز گنبد
مَیں گھر بیٹھے زیارت کر رہا ہوں
مَیں جب اس طرح کے نعتیہ اشعار علی رضا کے دامن میں دیکھتا ہوں تو بے ساختہ اُس کے لیے دُعاگو ہو جاتا ہوں کہ ہمارے نعتیہ ادب کے منظرنامے میں اس وقت سینکڑوں شعراءکرام نعت کہنے میں دکھائی دیتے ہیں لیکن مختلف نعت کہنے کا ہنر بہت کم عاشقانِ نبی کے حصے میں آ رہا ہے۔ وہ ہر وقت نعت کہتا ہے، پڑھتا ہے اور سوچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ محافلِ نعت میں اپنی نعت پڑھ رہا ہوتا ہے تو بقول ڈاکٹر محمد طاہر مصطفی کے ”کمزور لوگ تو علی رضا کو شاید سن نہیں سکتے، دل پھڑکتا ہوا باہر آ جاتا ہے کہ وہ عشقِ رسالت مآب میں نتھرا ہوا آبگینہ ہے۔ اس کا مقدر واقعی قربتِ مدینہ ہے کیونکہ اسے شہرِ مدینہ میں بسنے کا قرینہ ہے۔ اور وہاں اس کے لیے محبتِ رسول کا خزینہ ہے۔“
یہ ساری گفتگو ہم علی رضا کے نعتیہ مجموعے ”ثنائے سرور“ کو پڑھنے کے بعد کر رہے ہیں جس کو صدرِ مملکت ممنون حسین نے بہترین نعتیہ مجموعے کا صدارتی ایوارڈ بھی دیا اور اسی مجموعے پر حکومتِ پنجاب نے بھی ایوارڈ سے نوازا لیکن مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ علی رضا کا اصل اعزاز تو ان کے اپنے اس شعر کی مانند ہے جس میں وہ کہتے ہیں:
اُن کی چوکھٹ پہ پڑا سوچتا ہوں
کس بلندی پہ ستارہ ہے مرا
ثنائے سرور ایک ایسا نعتیہ شعری اثاثہ ہے جس کو اگر آپ مستقل بھی پڑھتے رہےں تو آنکھوں میں محبت کا چراغاں رہتا ہے۔ اور یہ اُن لوگوں کے لیے کتنا بڑا اعزاز ہے جو نعت کے حوالے سے معتبر ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اُن کی پہچان اور عزت بھی اسی صنف کی وجہ سے ہے۔ اور مَیں جیسے جیسے علی رضا کی نعتوں کو اپنی نظروں کے سامنے لاتا گیا مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا گیا۔ یہ شعری مجموعہ 2013ءمیں شائع ہوا لیکن میری آنکھوں نے اُن کی نعتوں کو پڑھ کر 2017ءمیں وضو کیا۔
جس دن سے مدینہ میری آنکھوں میں بسا ہے
اس دن سے یہ دل عشق کی تصویر بنا ہے
توقیر بڑی ہے میری توصیفِ نبی سے
ذرہ ہے کہ خورشید کے سانچے میں ڈھلا ہے
اتنی خوبصورت اور تابندہ نعتیں کہنے کے باوجود علی رضا کہتے ہیں کہ ”مَیں اﷲ رب العزت کے حضور تشکر ادا کرتا ہوں جس نے اپنے محبوب کی شانِ اقدس میں مجھ جیسے بے وقعت انسان کے لرزتے ہوئے قلم کو طاقت اور حوصلہ عطا کیا۔ مجھے اپنی کم مائیگی کا مکمل احساس ہے۔ میرے ان لفظوں میں اتنی سکت کہاں کہ حقِ مدحت عطا کر سکیں۔ پھر بھی ایک آس ہے، ایک حسرت ہے اور ایک آرزو ہے کہ اے کاش میرے ان لفظوں کو شرفِ قبولیت مل جائے۔“
علی رضا نے اپنی نعتوں کے بارے میں ایک خواہش کی اور وہ خواہش روشنی بن کے اُن کی شاعری میں آ گئی۔ اور اب وہ شاعری ہر طرف خوشبو کی طرح پھیل رہی ہے۔ مَیں جب بھی کبھی اچھی نعت پڑھنا یا سننا چاہتا ہوں یا اپنے گھر میں اُجالا کرنا چاہتا ہوں تو بے ساختہ علی رضا کی آواز اور ان کی نعتیہ شاعری کا انتخاب کرتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود کہتے ہیں
نبی کی مدح سے نسبت مرا حوالہ ہے
اسی لیے میرے اشعار میں اُجالا ہے
میرے نبی نے سرِ حشر اپنا کہہ کے مجھے
میری نجات کا کیا راستہ نکالا ہے
علی رضا کی اس سے بڑی اور کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ اس کی پہچان نعت بنی۔ جس کے لیے لوگ صدیوں کا سفر کرتے ہیں۔ جبکہ علی رضا نے محبت و مودت کا یہ سفر ”ثنائے سرور “ کے ذریعے چند سالوں میں طے کیا اور اس کے لیے وہ اپنے آقا سے ایک ہی صلہ چاہتے ہیں
مجھ کو بھی نعت سرائی کا صلہ دیں آقا
ایک دن مجھ کو بھی دیدار کرا دیں آقا
ہو کے بے چین جب حشر میں ڈھونڈوں اُن کو
دیکھ کر کاش رضا مجھ کو صدا دیں آقا
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
فیس بک کمینٹ