بہت سارے مسائل ہیں اور ایک فہرست ہے موضوعات کی۔ جیسے پانامہ ، جیسے کلبوشن یادیو، جیسے عزیر بلوچ،مگر سرگودھا کی ایک درگاہ پر ڈندوں سے کچلے مسلے ہوئے بیس بے گناہ ہیں کہ آنکھوں سے اوجھل ہو کے نہیں دے رہے۔ساری دنیا کا عام آدمی بالخصوص ہمارے ہاں کا عام بندہ طرح طرح کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ سیاسی بوجھ ، معاشی بوجھ،طرح طرح کی ذمہ داریوں کے بوجھ ہیں کہ عام انسان کو کمر سیدھی کرنے کی فراغت کم ہی نصیب ہو پاتی ہے۔ ہمدانی سادات کے چشم و چراغ اور سلام کے مایہ ناز شاعر سید مقصود علی شعلہ یاد آگئے۔ زندگی دوش پہ اک بارِ گراں تھا اپنے
اب جو اُترا ہے تو چین سے نیند آئی ہے
بے شک ہماری بے رحم حکومتوں کے سائے تلے ایک عام آدمی کی زندگی اس کے کاندھے پر رکھی ہوئی صلیب کی طرح ہے، جسے وہ اپنے ناتواں قدموں سے قدم بہ قدم گھسیٹتا رہتا ہے، اپنی اس منزل کی طرف ،جسے ہمارے ہاں قبر کہا جاتا ہے۔ اقتصادی و سیاسی بوجھ سے سبک دوش ہونے کے لیے ایک طویل جدوجہد درکار ہوتی ہے، جو ہمارے ہاں ابھی شاید شروع ہی نہیں ہوئی۔ اور یہ جدوجہد انفرادی نہیں ہمیشہ اجتماعی ہوتی ہے۔ ایک نہیں کئی نسلیں قربانی دیتی ہیں پھر جاکر کہیں سویرا طلوع ہوتا ہے۔مگر ایک بوجھ ایسا ہے جو اس وقت ہمارا موضوع ہے۔عقیدت اور نام نہاد تقدس کا بوجھ۔ جس کے لیے انفرادی کوشش بھی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے، اس کے لیے کسی طویل اور صبر آزما جدوجہد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس تھوڑا سا مشاہدہ، تھوڑا سا تجربہ، اور تھوڑا سا خیالات میں تبدیلی کا عنصر اس بوجھ سے گلو خلاصی کروا سکتا ہے۔ ایک دفعہ آپ کی گردن اس پھندے سے آزاد ہو گئی تو یقین مانیں سکھ کے سانس کا مزا کیا ہوتا ہے؟ آپ یقیناً جان جائیں گے۔ میں اب آپ کو جگ بیتی نہیں ہڈ بیتی سناتا ہوں۔ میرا تعلق بھی ایک ایسے ہی پس منظر سے تھا جہاں عقیدوں اور رسموں پر بے پناہ خرچ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سالانہ ایک مذہبی مجلس کا اہتمام ہوتا تھا، جس کے لیے مہنگے مہنگے بھاری فیسوں والے ذاکر و خطیب بلائے جاتے تھے۔ سارا سال بچوں کے منہ سے نوالے چھین چھین کر جو جمع پونجی بچا پاتے صرف ایک دن میں ثواب کے نام پر دوسرے لے اُڑتے۔خوش قسمتی سے اپنے ارد گرد کا ماحول ایسا تھا جہاں کتابوں سے محبت کی جاتی ہے۔ بس ایک دن ایک دوست نے دو تین چھوٹے چھوٹے کتابچے لا کر دیے۔خدا کروٹ کروٹ جنت کی خوش گوار ہواﺅں سے اُن کی روح کو پُر سکون رکھے، ڈاکٹر علی شریعتی شہید کے لیکچروں پر مشتمل تھے یہ کتابچے۔اُن کے ایک لیکچر کا موضوع واعظین تھے اور دیگر وہ سارے طبقات جو مذہب کی آڑ میں دوسروں کی کمائی پر عیش کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس طبقے سے بڑھ کر مذہب کی روح کو کچلنے والا اور منافق کوئی دوسرا طبقہ نہیں۔ اِن کی منافقت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ واعظ و نصیحت کے نام پر اپنا معاوضہ نقد سکہ رائج الوقت کی صورت وصول فرماتے ہیں اور دوسروں کو اُدھار پر ٹرخاتے ہیں، یعنی تمہیں اس کا ثواب مرنے کے بعد قبر میں ملے گا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ میرے نزدیک کوئی مذہب سچا مذہب ہو ہی نہیں سکتا جو تمہاری آخرت سنوارنے کا وعدہ تو کرے مگر اس کے پاس اس دنیا کے سنوارنے کا کوئی پروگرام نہ ہو۔ یقین جانیں یہ پڑھ کر مجھے پسینہ آ گیا۔مگر اس پسینے کے ساتھ ہی ایک بہت بڑی غلط فہمی بھی بہہ گئی۔ اور سارے وجود پر سے ایک بوجھ سرکتا ہوا محسوس ہوا۔ آپ یقیناً حیران نہیں ہوں گے، میں بھی نہیں ہوا تھا جب مجھے معلوم ہوا کہ علی شریعتی کی کتابوں پر اُن کے اپنے ملک میں پابندی تھی۔یہ نئی بات نہیں ہر اس بات پر پابندی عائد کی گئی جسے سُن یا پڑھ کر عوام کا کوئی فائدہ ممکن ہو ۔ پورے کا پورا برصغیر اس دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ ہندو یا مسلمان کی کوئی تفریق نہیں، پنڈت، پیر، سادھو، ملا، ذاکر سب ایک ہی سکے کے مختلف روپ ہیں۔ اسلام نے تو اس روش کے خلاف واضح تعلیم دی ہے، تمہارا رب تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ قرآن جس پیغمبر اعظم ﷺ پر نازل ہوا انہوں نے اسے روزی روٹی کا ذریعہ نہیں بنایا۔ اُن کے صحابہ کرام آل بیت عظام میں سے کوئی ایک ایسا دکھا دیں جس نے مذہب کے نام پر واعظ و نصیحت اور جھاڑ پھونک کو روزگار بنایا ہو؟ رہا بیعت کا سلسلہ تو مسلمان کے لیے بس ایک بیعت ہی روا ہے۔ اُس کے ہاتھ پر جس کا وہ کلمہ پڑھتا ہے۔ اس کے علاوہ خدا نے کسی دوسرے ہاتھ کا ذکر کیا ہو تو بتایا جائے؟
۔جب میں نے اللہ کی توحید اُس کے کلام اورنبیﷺکی رسالت کا اقرار کر لیا۔ اس کے بعد کسی کا کیا حق بنتا ہے جو مجھے نجات کا راستہ دکھانے کا کہہ کر میرے اور میرے بچوں کے منہ سے نوالے چھین کر لے جائے۔ کیا اسے یہ حق قرآن نے دیا ہے؟۔ یا قرآن اور صاحب قرآنﷺ کی تعلیمات کے علاوہ بھی کوئی دوسرا نجات کا راستہ موجود ہے؟۔میرے سادہ دل لوگو یہ بنیادی طور پر استحصالی گروہ ہے جو عقیدوں اور ثواب و نجات کی تجارت کرتا ہے۔ جو خود کوئی کام نہیں کرتا مگر دوسروں کی کمائی پر عیش کرتاہے۔بارش کے بعد پیدا ہو جانے والے طرح طرح کے حشرات الارض کی طرح ہمارے شہروں قصبوں اور اُن کے گلی محلوں کو اِنہوں نے غلاظت سے بھر دیا ہے۔ سرگودھا کے مقام پر ڈنڈوں سے کُچل کر بے گناہوں کو قتل کر دینے والے بھیڑیے کا اصل روپ یہی ہے جو ہمیں اب دکھ رہا ہے۔ قاتل میری بہنوں اور بھائیو دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو چاقو چھری ڈنڈے بم اورگولی سے کسی کی جان لیتا ہے دوسرا وہ جو عقیدے ثواب عمل یا کسی اور طرح کا جھانسا دے کر تمہارے منہ سے تمہارے حصے کی روٹی چھین کر لے جاتا ہے۔
فیس بک کمینٹ