آج پھر دھواں اٹھا ہے، ایک آگ پھر سے بھڑکی ہے، ایک گھر پھر سے خاک ہوا ہے۔
ایک نوجوان کی کچلی، مسلی، کٹی پھٹی لاش، سر اینٹوں سے کچلا گیا ہے۔ ہڈیاں ریزہ ریزہ ہیں، جسم میں گولیوں کے کتنے ہی روزن ہیں۔ ایک لمحے کے لیے سوچو کہ یہ لاش تمہارے آنگن میں رکھ دی جائے تو کیا تم پھر بھی اپنے منہ کو دونوں ہاتھوں سے بند کرنے کی کوشش کرو گے۔ کیوں کیا ہوا؟ سہم کیوں گئے؟ اب بھی کہو، میں نہیں بولوں گا۔ سنو آج مشال کے بعد اس گھر کی داستان جس میں مشال رہتا تھا، اب نہیں۔ اس ہنستے کھیلتے گھرانے کی داستان جہاں اب چراغ نہیں جلیں گے۔ جس کی منڈیر پر اب سورج کی کرن نہیں اترے گی۔ جس کے باغ میں لگے پودوں پر اب نہ بار آئے گا، نہ پھول کھلیں گے۔ جس کی دیواروں کو اب کسی کی ہنسی سنائی نہیں دے گی۔ جس کے دروازوں پر اب کوئی پیار بھری دستک نہیں ہو گی۔
آج پھر ایک ماں کا کلیجہ پھٹ گیا ہو گا۔ باپ نے اپنا سر پیٹا ہو گا، جب اس کو یہ خبر ملی ہو گی کہ اس کے گبرو جوان بچے کو سینکڑوں لوگوں نے بے دردی سے مار دیا۔ وہ بھی سنی سنائی بات پر۔ اب نہ جانے وہ اپنے ہوش میں ہوں گے بھی کہ نہیں۔ نہیں نہیں باپ کو تو اپنے حواس بحال رکھنے پڑے ہوں گے۔ باپ دیوانہ وار لاش لینے مشال کی درس گاہ بھاگا ہو گا۔ وہاں پہنچتے ہی اس کو یہ بتایا گیا ہو گا کہ لاش تو پولیس والے اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ پھر اس کو تھانے میں جا کر ہاتھ جوڑ کر لاش حوالے کرنے کی درخواست کرنی پڑی ہو گی۔ تھانے والوں نے کاغذی کارروائی کے بعد اسے ہسپتال کی طرف روانہ کر دیا ہو گا۔ ویسے تو پوسٹ مارٹم اس کے اپنی ہی درسگاہ کے ساتھیوں نے کر ڈالا تھا۔ مگر ایک اور پوسٹ مارٹم کے بعد باپ کو بیٹے کی لاش سپرد کر دی گئی ہو گی ۔ تابوت میں بند لاش۔ اس کے چہرے کی جگہ لہو سے لپٹا ہوا کفن نظر آ رہا ہو گا۔ ادھر ماں اس کی راہ تکتی ہو گی۔ گھر میں مشال کو لاتے ہی کیسا کہرام بپا ہوا ہو گا۔
صدمے سے نڈھال ماں ہر آواز سے بے نیاز تابوت سے لپٹ کر اپنے لاڈلے کو لوری دینے لگ گئی ہو گی۔ بار بار سب سے التجا کر رہی ہو گی کہ چپ کر جاؤ، چپ کر جاؤ مجھے آخری بار اپنے بچے کو لوری سنانے دو۔ اس کی باتیں سن کر ماتمی صدائیں عرش تک جا رہی ہوں گی۔ اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھنے کی تڑپ اسے نڈھال کر رہی ہو گی۔ پر چہرہ تو بچا ہی نہیں۔ خون کے کچھ لوتھڑے ہیں، سر سے باہر نکلا مغز ہے، آنکھوں کی جگہ دو گڑھے اور بس۔ ہاں کچھ اینٹوں کا برادہ بھی چپکا ہوا ہے۔
مشال کو لے جانے کی آخری گھڑی وہ چیخی ہو گی کہ میرے مشال کو مت لے کر جاؤ۔ اچھا ایک منٹ صرف ایک منٹ کہتی ہوئی قرآن اٹھا کر لائی ہو گی۔ ایک بار پھر اپنے بھیگے دامن سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی ہو گی کہ آج بھی مشال کو قرآن کے سائے میں رخصت کروں گی۔ ہر بار کی طرح اس کو الوداع تو کہے گی پر اس بار مشال دروازے کی دہلیز پار کرنے کے بعد پلٹ کر دوبارہ اپنی ماں کا ماتھا نہیں چومے گا۔
باپ خون کے آنسوؤں سے مٹی کو نرم کرکے اس کو قبر کے حوالے کر آیا ہو گا۔ اپنے دل کو تھامے لڑکھڑاتے قدموں سے اپنے گھر کی طرف لوٹا ہو گا۔ ماں اس ہی جگہ بیٹھی ہو گی جہاں مشال کا تابوت رکھا تھا ۔ تابوت سے رسنے والے خون پر انگلیاں پھیر کر چیخ رہی ہو گی یہ میرے بچے کا خون ہے جس کو درندوں نے مارا ہے ۔ یا اللہ میرا بچہ کس کرب سے گزرا ہو گا جب ہجوم کا ہر شخص اپنے اپنے حصے کا ثواب کمانے کے لیے اسے مارنے کے لیے لپکا ہو گا۔ وہ چیخ رہی ہو گی کہ شاید گولیاں کھانے کے بعد بھی اس میں کچھ سانسیں باقی ہو مگر ان سانسوں کو اینٹوں کی کاری ضرب نے تھم جانے کا حکم دے دیا ہو گا۔ مشال مشال کہتے نہ جانے کتنی باری زمیں پر گر گئی ہوگی۔ ہوش آتے ہی کہا ہو گا کہ میرے بچے کی تو روح بھی کانپ اٹھی ہو گی جب اس کے مردہ جسم کو برہنہ کر کے ڈنڈے برسائے گئے ہوں گے۔
اب عمر بھر کا تنہا اندھیرا سفر ہے۔ اتنے ہاتھوں پر مشال کا لہو لگا ہے کہ گنتی میں نہیں آتے۔بوڑھے ہاتھ کس کس گریبان تک پہنچیں گے؟
مشال تو مر کر مرا ہے پر دو لوگ اب زندہ لاش ہیں۔ وہ جیتے ہیں پر مر گئے ہیں۔ جہاں وحشت میں ایک لاش گرائی ہے وہاں مردان یونیورسٹی کے بچے ایک عنایت اور کر دیں۔ ایک ایک گولی مشال کے باپ اور ماں کے سر میں بھی اتار دیں۔ اس سے کام نہ چلے تو سڑک پر پتھر بہت ہیں۔ انہیں بھی سنگسار کر دیں ۔ ایک دفعہ قصہ ختم کریں۔ مشال ابھی دو دلوں میں جیتا ہے ۔ اس کے بعد پکا مر جائے گا۔ کام پورا کرنا چاہیے۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ