مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعل خان کے قتل کے حوالے سے سامنے آنے والی معلومات حیران کن اور تکلیف دہ ہیں۔ مشعل پر حملہ کرکے ہلاک کرنے والے ہجوم میں شامل ایک طالب علم وجاہت نے اپنے بیان میں الزام لگایا ہے کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس سے کہا تھا کہ وہ مشعل خان کے خلاف بیان دے کہ وہ توہین مذہب کا مرتکب ہوا ہے۔ وجاہت اس سفاکانہ قتل کے مقدمہ میں گرفتار ہونے والے نوجوانوں میں شامل ہے ۔ اگرچہ یہ بیان ایک ملزم کی طرف سے عائد کیا گیا ہے اور اس کی تردید بھی سامنے آسکتی ہے۔ تاہم ایک طالب علم کی طرف سے یونیورسٹی کی انتظامیہ پر ایسا سنگین الزام اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ یونیورسٹی کے تمام ذمہ داران کو عہدوں سے معطل کرکے اس معاملہ کی مکمل تحقیقات کی جائے ۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مشعل خان پر حملہ صرف گمراہ شدہ طالب علموں کا ہی ردعمل نہیں تھا بلکہ مشعل خان کو راستے سے ہٹانے کی سازش میں یونیورسٹی کے حکام بھی شامل تھے۔
پاکستان میں توہین مذہب کے حوالے الزام سنگین ترین فعل سمجھا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں لوگ مشتعل ہوتے ہیں اور متعلقہ شخص کے خلاف تشدد پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اگر ایسا شخص ہجوم کے تشدد سے محفوظ بھی رہے تو بھی اس الزام کے بعد گرفتار شخص کی ضمانت نہیں ہو سکتی اور وہ غیر معینہ مدت کے لئے قید ہو سکتا ہے۔ اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کون سے عناصرتھے جو مشعل خان کو توہین مذہب جیسے سنگین الزام میں پھنسانا چاہتے تھے۔ انتظامیہ میں شامل کچھ لوگ طالب علموں کو گواہی دینے پر راضی کرنے کے علاوہ مشعل خان کو قتل کرنے کے لئے طالب عملوں کو مشتعل کرنے میں بھی ملوث تھے۔ ابھی ایک طالب علم کے بیان سے اس کی تائد ہوئی ہے تاہم غیر جانبدارانہ تحقیقات سے اس معمہ کے دیگر پہلو بھی سامنے آسکتے ہیں۔ اب یہ خیبر پختون خوا کے علاوہ مرکزی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملہ کی تہہ تک پہنچے اور تمام ملزموں کو ان کی حیثیت اور عہدہ سے قطع نظر سخت ترین سزا دلوانے کا اہتمام کرے۔ امام کعبہ شیخ صالح بن محمد ابراہیم نے ایک پاکستانی ٹیلی ویژن اسٹیشن سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ توہین مذہب کا غلط الزام لگانے والوں کو سخت سزا ملنی چاہئے کیوں کہ یہ رویہ اسلام کے امن اور بھائی چارے کے پیغام کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کا پیغام محبت اور شفقت سے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق الزامات کو ذاتی مقاصد اور مفادات کے حصول کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ ان الزامات کی وجہ سے کئی بے گناہ قتل کئے جا چکے ہیں اور کئی بے قصور غیر معینہ مدت کے لئے جیلوں میں بند ہیں اور انصاف ملنے کی امید سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ان حالات میں اگر ایک یونیورسٹی کے ذمہ داران اور طالب علم توہین مذہب کے الزامات عائد کرکے کسی مخالف رائے رکھنے والے سے انتقام لینا چاہتے تھے تو اس سے زیادہ گھناؤنے فعل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرز عمل اور سماجی بے راہ روی کی روک تھام کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کو تجویز دی گئی تھی کہ توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والوں پر بھی انہی دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کی سفارش کرے تاکہ کسی کو اس قسم کا الزام لگانے کا حوصلہ نہ ہو۔ لیکن ایک طرف ملک کے مذہبی لیڈر مذہب کی سربلندی کے لئے توہین مذہب کے قانون میں سابق آمر جنرل ضیا ء الحق کی شامل کردہ شقات کو مقدس قرار دیتے ہوئے ان میں ترمیم کی بات بھی سنننا گوارا نہیں کرتے تو دوسری طرف اسلامی نظریاتی کونسل کے فاضل اراکین کا خیال تھا کہ غلط الزام لگانے والوں کو سزا دینے کے لئے ملک کے عام قوانین ہی کافی ہیں۔ مردان میں رونما ہونے والے سانحہ سے واضح ہوتا ہے کہ اب اس حوالے سے ملک کے مذہبی لیڈروں اور سیاسی حکمرانوں کو توہین مذہب کے قوانین پر نظر ثانی کے لئے اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے۔ تاکہ توہین کرنے والے کے ساتھ جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی سخت ترین سزا دی جا سکے۔ اسی طرح مذہب کو ذاتی انتقام لینے یا مفاد حاصل کرنے کے لئے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کے رجحان کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
(بشکریہ:کاروان۔ناروے)
فیس بک کمینٹ