کچھ گیت ایسے ہوتے ہیں،جن کی دُھن میں ساز و آواز نہیں بلکہ احساسات پروئے جاتے ہیں۔ ان گیتوں میں ہونے والی شاعری زندگی کا منظرنامہ بیان کرتی ہے۔ کلیم عثمانی کا گیت ’’رات پھیلی ہے ترے سرمئی آنچل کی طرح‘‘ بھی ایسا ہی ایک رومانوی احساس ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اداسی کا جنگل ہے، جس میں محبت دیوانوں کی مانند بھٹکی ہوئی ہے۔ یہ گیت نہیں، کسی مصورکی ادھوری پینٹنگ ہے۔ آپ اس کو سنتے جائیے، ذہن میں بے اختیار تصویریں ابھرنے لگیں گی، نین ونقش متصور ہونے کا سلسلہ بحال ہوجائے گا۔ جانے والوں کی یاد یورش کرنے لگے گی۔ یہ گیت نہیں، اداسی کے رنگوں سے بننے والا، تنہائی کا تاج محل ہے۔
رات پھیلی ہے ترے سرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح
رات کے استعارے کو محبوب کے آنچل سے تشبیہ دے کر شاعرنے ہجر کی اذیت کو محبوب کی موجودگی میں تقسیم کر دیا۔ سرمئی آنچل کے بعد رات پھررات نہ رہی، بلکہ محبوب کے قرب سے اٹھنے والی خوشبو میں تبدیل ہوگئی۔ شاعر نے محبوب سے کائنات کی ہر شے کو جوڑ دیا۔ چاند بھی اس کے محبوب کے انتظار میں شامل ہوگیا، بلکہ اس کی دیوانگی کا سانجھے دار ہوگیا۔ وہ پاگل پن، جس کے سامنے ہرشے ہیچ ہوئی، اسی دیوانگی کو اوڑھ کر چاند بھی اس کے محبوب کی تلاش میں نکل پڑا۔ اسی لیے یہ مصرعے پڑھتے ہوئے اس کے کامل ہونے پریقین آنے لگتا ہے۔
خشک پتوں کی طرح لوگ اُڑے جاتے ہیں
شہر بھی اب تونظر آتاہے جنگل کی طرح
یہ گیت صرف ذاتی محبت کاقصہ نہیں بیان کرتا، بلکہ سماج کے گہرے رویوں کا عکاس بھی ہے۔ خزاں صرف جغرافیائی تبدیلی سے ہی نہیں آتی، بلکہ انسان کا سرد رویہ بھی ہمیشہ کے لیے خزاں کے موسم کو کسی کے دل میں اتار سکتا ہے۔ ایک ایسی خزاں جس میں لوگ، رشتے ،وعدے اور جذبات، خشک پتوں کی طرح اڑجاتے ہیں، شہر کے شہر ویران ہو جاتے ہیں، دل اندھیر نگری کا باسی ہوکے رہ جاتا ہے۔ ہجوم میں بھی تنہائی گلے ملتی ہے، شہر بھی جنگل کی روش پر چل نکلتا ہے۔ اس خاموشی کے شور میں تصویریں بنتی اور بگڑتی ہیں، مگر کوئی نہیں ہوتا، جس تک یہ صدا پہنچ سکے۔ گیت کا یہ حصہ اسی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ یادیں ٹوٹے ہوئے پتوں کی مانند، زمانے کی بے حسی کے پیروں میں رندھ جاتی ہیں۔
پھرخیالوں میں ترے قرب کی خوشبو جاگی
پھربرسنے لگی آنکھیں مری بادل کی طرح
یاد اپنی معراج پر ہوتو وہ واپس لوٹتی ہے، کبھی خوشبو بن کر توکبھی خیال کے ذریعے، ہمیں اپنی موجودگی کااحساس دلاتی ہے، یہ وہ احساس ہے، جس میں انسان کی کیفیت بہاؤ کی طرح ہوجاتی ہے، جس میں آنسوؤں کا ذائقہ مزید نمکین ہو جاتا ہے، لیکن وہ اپنے مکمل خیال کے ساتھ ہمارے سامنے موجود رہتا ہے۔ یہی محبوب کا قرب ہے، جس کو پانے کی تمنا ہرکوئی کرتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے، اگرمحبت اس کیفیت سے ہوکرنہیں گزری، توپھر زندگی کارِ زیاں ہے بس۔ تین شخصیات اس گیت کی وجہ سے تخلیق کی دنیا میں زندہ رہیں گی، کلیم عثمانی جنہوں نے یہ گیت لکھا، میڈم نورجہاں، جنہوں نے یہ گیت گایا اور استاد نذر حسین، جنہوں نے اس گیت کو کمپوز کیا۔
(بشکریہ:دانش)