زندگی کے دامن میں ، زندگی سے ڈرتے ہیں
خواب خواب لمحوں میں ، بے بسی سے ڈرتے ہیں
جس کی اک ہنسی پر کل ، اپنے خواب بیچے تھے
آج اپنی اس جاں کی ، بے رخی سے ڈرتے ہیں
جن کے ساتھ مرنا ہے، ان سے تو نہیں ڈرتے
جن کے ساتھ جینا ہے ، کیوں انہی سے ڈرتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راہبر کے پیچھے ہیں ، جان کر اسے اپنا
آنکھ تھک بھی جائے گر
نیند آ بھی جائے گر
ہم تو سو نہیں سکتے
ساتھ چلنے والوں کے ، تند تیز بھالوں سے
اپنے ہی جیالوں سے ،خوف ہم کو آتاہے
پُرخطر سے رستے میں ،راہبر سے ڈرتے ہیں
زندگی میں رہ کر بھی ، زندگی سے ڈرتے ہیں
موت نے تو آناہے ، اک سکون لانا ہے
قبر اک ٹھکانہ ہے
دامنِ خدامیں بھی ، ناخدا سے ڈرتے ہیں
سب حیا کے مارے اب ، خود حیا سے ڈرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کے دامن میں ، اب نہیں کوئی شاداں
زندگی تو غم میں ہے ، زندگی تو ہم میں ہے
موت خود پریشاں ہے
اوڑھ کرجو آئے تھے ،اس رِدا پہ کیا رونا
ناخدا پہ کیا رونا، اب حیا پہ کیا رونا
موت پوچھتی ہے خود، اس جہان والے کیا
لے کے جانے والوں کی ، آخرت سے ڈرتے ہیں
ہاتھ تو اُٹھاتے ہیں ، یہ دعا کی خاطر اب
پر دعا میں اپنے بس ،لب ہی یہ ہلاتے ہیں
کوئی بھی دعا یہ اب دل سے تو نہیں کرتے
ظلم بھی روا ہیں سب ، جرم بھی یہ کرتے ہیں
اب تو ایسا لگتا ہے ، یہ جو سارے ظالم ہیں
یہ جو سارے مجرم ہیں ، مغفرت سے ڈرتے ہیں
*** منزہ اعجاز