حکومت پاکستان میں داعش کی موجودگی سے انکار کرتی ہے لیکن فروری میں حیدر آباد سے غائب ہونے والی لڑکی نورین جبار لغاری لاہور میں دہشت گردوں کے گروپ کے خلاف کارروائی کے دوران گرفتار ہوئی ہے۔ خیال ہے کہ نورین داعش کے پروپیگنڈا سے متاثر ہوکر شام چلی گئی تھی جہاں سے تربیت کے بعد وہ چند روز قبل ہی لاہور واپس آئی تھی۔ اب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایسٹر کے موقع پر عیسائیوں کے خلاف دہشت گردی کرنا چاہتی تھی۔ فوجی ذرائع نے بتایا ہے کہ اس کارروائی میں ایک شخص ہلاک ہوا ہے جبکہ چار افراد گرفتار ہوئے ہیں۔ فوج نے اس مکان سے بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد اور خود کش جیکٹس بھی برآمد کی ہیں۔ ایک پڑھے لکھے خاندان کی تعلیم یافتہ نوجوان لڑکی کا یوں داعش سے متاثر ہو کر اس گروہ میں شامل ہونا اور اس کے بعد دہشت گردی پر آمادہ ہو جانا، ملک کے ارباب بست کشاد کے لئے شدید تشویش کا سبب ہونا چاہئے۔
نورین لغاری سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر کی بیٹی ہے۔ وہ 10 فروری کو اچانک غائب ہو گئی تھی ۔ وہ گھر سے لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز پڑھنے کے لئے گئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق اس نے اس روز کی کلاسز میں شرکت کی لیکن اس کے بعد وہ پر اسرار طریقے سے غائب ہوگئی۔ پولیس کا خیال تھا کہ وہ انٹرنیٹ پر رابطوں کے ذریعے انتہا پسندی کی طرف مائل ہوئی تھی اور داعش میں شامل ہونے کے لئے گھر سے چلی گئی ہے۔ تاہم اس کے اہل خاندان کے لئے اس بات کو تسلیم کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن چند روز بعد ہی سوشل میڈیا کے ذریعے نورین نے اپنے خاندان کو پیغام بھیجا کہ ’وہ خیریت سے ہے اور خلافت کی مملکت میں پہنچ گئی ہے۔ اس لئے اس کے بارے میں پریشان نہ ہوں‘۔ اس پیغام کے بعد بھی یہ بے یقینی موجود تھی کہ شاید نورین کسی سانحہ کا شکار ہو گئی ہو اور یہ پیغام درست نہ ہو۔ تاہم اب لاہور میں دہشت گردوں کے ساتھ اس کی گرفتاری نے سارا معاملہ صاف کردیا ہے۔
لاہور میں کی جانے والی فوجی کارروائی میں مارا جانے والے شخص کا نام طارق علی بتایا گیا ہے اور خیال ہے کہ نورین سوشل میڈیا پر اسی کے ذریعے داعش سے متاثر ہوئی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نورین نے اس شخص سے شادی کرلی تھی اور وہ دونوں مل کر اب پاکستان میں دہشت گردی منظم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس واقعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نہ صرف داعش پاکستان میں متحرک ہے اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہاں تخریب کاری منظم کرنے کی کوششیں کررہی ہے بلکہ اس کا سوشل میڈیا کا پروپگنڈا نیٹ ورک بھی مستحکم ہے جو نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے مؤثر طریقے سے کام کررہا ہے۔ یہ صورت حال صرف داعش کی کامیابی کا پیغام نہیں دیتی بلکہ اس سے ملک کے تعلیمی نظام اور گھرں کے ماحول کی ناکامی کا پتہ بھی چلتا ہے۔
تین روز قبل مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں نوجوان طالب علم مشعل خان کا بے رحمی سے قتل بھی اس بات کی خبر دیتا ہے کہ ملک کے تعلیمی ادارے طالب علموں کو مہذب اور قانون کا رکھوالا بنانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ یہ دونوں واقعات ملک کے حکمرانوں کے لئے ایک سنگین وارننگ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑی جا رہی ہے ، اسے صرف لوگوں کو مار کر یا جیلوں میں ڈال کر نہیں جیتا جا سکتا۔ اس کے لئے تعلیمی نظام میں دوررس اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کو ایک مہذب معاشرے کی تعمیر میں کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔ حکومت اگر موجودہ نظام میں موجود اس کمزوری کو سمجھنے میں ناکام رہتی ہے اور اصلاح احوال کے لئے فوری مؤثر اقدامات نہیں کئے جاتے تو ایک کے بعد دوسرا فوجی آپریشن شروع کرنے سے نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔
عبدالولی خان یونیورسٹی میں جن نوجوانوں نے مشعل خان کو توہین مذہب کے شبہ میں بے دردی سے ہلاک کیا، وہ اسے بہت بڑی نیکی کا کام سمجھ رہے تھے۔ اسی مزاج کے نوجوان کل کو اس ملک میں ذمہ دار عہدوں پر فائز ہوں گے۔ اسی طرح نورین ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھنے اور خود اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے ، پروپیگنڈا سے گمراہ ہو کر یہ سمجھتے ہوئے داعش میں شامل ہوئی اور دہشت گردی پر تیار ہوگئی کہ یہ راستہ ہی دراصل دین کا راستہ ہے۔ اس صورت میں حکومت اور ملک کے دینی رہنما خواہ کہتے رہیں کہ یہ گمراہی کا راستہ ہے ، جب تک اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے عملی اقدامات نہیں کئے جاتے، اور جب تک دین کے نام پر قتل و غارتگری کو جائز قرار دینے کے پیغام کے بارے میں قومی مزاج تبدیل نہیں ہو گا، ملک کو دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی سے محفوظ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ