یہ 1979 کی بات ہے فوجی آمر نے ملک کے سابق جمہوری حکمران کو پھانسی کی سزا دے دی ۔ اس کے بعد کچھ چاپلوسوں نے اسے شہر کے اندر سفر کرنے کے لئے سائیکل استعمال کرنے کا مشورہ دیا ان کا خیال تھا اس سے وہ "عوامی جنرل” کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کرسکے گا۔ کیونکہ سابق جمہوری حکمران بھی عوامی وزیر اعظم کہلاتا تھا۔
ابتدا میں وہ اپنی رہائش گاہ سے ایک سائیکل پر سوار ہوکر اپنے دفتر جانے لگا ، جو گھر سے صرف 500 گز کے فاصلے پر تھا ۔ بعد میں انہوں نے سائیکل پر راولپنڈی جانے کا ارادہ کیا اور وہ بھی راجہ بازار تک ۔ جنرل کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے فوجیوں اور پولیس کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ سیدھے سادھے لباس میں سائیکلوں کو پیڈل کرنا پڑا ، جبکہ سرکاری میڈیا کے ذریعہ اس پروگرام کی بھرپور تشہیر کی گئی۔
جب ، 20 نومبر 1979 کو علی الصبح سائیکل چلانے کا یہ شو چل رہا تھا اسی دوران پاکستانی عوام نے بین القوامی میڈیا کے ذریعے کچھ سعودی عسکریت پسندوں کے خانہ کعبہ پر قبضہ سے متعلق خبروں کو سنا
یہ خبریں سن کر اسلام آباد میں ایک بڑے ہجوم نے سفارتی انکلیو کی طرف بڑھنا شروع کر دیا ۔ مظاہرین کے اس ہجوم کے راستے میں فوارہ چوک بھی پڑتا تھا ، جہاں سے سائیکل پر سوار جنرل ضیاءالحق کے جلوس کو بھی گزرنا تھا اس لیے انتظامیہ نے مظاہرین کے جلوس کو تیزی سے فوارہ چوک سے گزارا موقع پر پہنچ کر مظاہرین امریکی سفارت خانہ کی عمارت کے اندر گھس گئے اور اس کو آگ لگا دی۔
شہر کی حفاظت کے لئے موجود فوجی اور پولیس کے دستے چونکہ "عوامی جنرل” کی سائیکل سواری کے عظیم الشان مظاہرہ کے جلوس کی حفاظت پر معمور تھے اس لئے بر وقت امریکی سفارت خانہ نہیں پہنچ سکے
جب شام کے چار بجے فوج اور پولیس کے دستے سفارت خانے پہنچے تو گذشتہ سات گھنٹوں سے آگ بھڑک رہی تھی۔ اس عمارت میں مقامی عملے سمیت 90 کے قریب افراد موجود تھے۔ ایک امریکن میرین دم گھٹنے کی وجہ سے فوت ہوگیا تھا ، جبکہ باقی افراد ، جو راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے ، کو فوجیوں نے بچا لیا۔
یہ تصویر اسی یادگار جلوس کی ہے
فیس بک کمینٹ