بلوچوں کے مزاحمتی مزاج کو سمجھنے کی یہ ایک زبردست مثال ہے کہ انہوں نے باہر سے آیا مذہب تو قبول کر لیا مگر اس میں بھی ایک اختراع ڈھونڈ نکالی۔ ایک خدا، ایک رسول، ایک قرآن پر تو ایمان لے آئے مگر عبادت کا طریقہ اپنا الگ مقرر کیا اور یوں “ذکری“کمیونٹی کی بنیاد رکھی گئی۔
رمضان کے آخری عشرے سے شروع ہو کر ستائیس رمضان کو تربت کیچ کے کوہ مراد پر اختتام پذیر ہونے والی یہ عبادت بلوچ کلچرل ڈائیورسٹی اور مذہبی رواداری کا زبردست نمونہ ہے۔ مرد و خواتین مل کر دو چاپی کی طرز پر ”چوگان“ کرتے ہیں اور خدا کی حمد و ثنا بلوچی زبان میں ادا کرتے ہیں۔ یہ عبادت ہر لحاظ سے کلچرل اور سیکولر ہوتی ہے۔
ذکری کیچ، مکران کی اکثریتی کمیونٹی رہی ہے، اب مکران میں ان کی اکثریت متاثر ہوئی ہے مگر اس کے باوجود نوری نصیر خان کے عہد کے سوا، بلوچ تاریخ میں کبھی مذہبی عدم رواداری کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
میں پندرہ سال پہلے تربت گیا تو کوہِ مراد کی زیارت کی تھی مگر ایک بار ستائیس رمضان والی چوگان میں جانے کی خواہش ہے۔ کہتے ہیں چوگان، بلوچوں کا حج اکبر ہے۔
فیس بک کمینٹ