ہمیں کیا معلوم تھا کہ جس ادیب، شاعر، صحافی، کالم نگار اور سراپا انکسار محمود شام کو پڑھ پڑھ کے ہم نے اپنے لکھنے کی صبح کی وہ زندگی کے ایک موڑ پر ایسی کتاب کا تحفہ ہمیں بھیجیں گے جو ہمارے لیے 2018ءکا سب سے اہم تحفہ بن جائے گی۔ ”رحمن کے مہمان“ محمود شام کی وہ کتاب ہے جو اُن کے سفرِ حج کی روداد ہے لیکن گزشتہ صدیوں کے حج اور حرمین کی توسیع کی تاریخ اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ محمود شام کا تعلق جھنگ سے ہے اور وہ جھنگ سے بی۔اے کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج سے جب فلسفے میں ایم۔اے کرتے ہیں تو انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک نامور صحافی کے طور پر جانے جائیں گے۔ ٹھہر ٹھہر کر اور سامنے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے محمود شام سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو جی چاہتا ہے وہ ملاقات اور طویل ہو جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مخاطب سے اس انداز سے بات کرتے ہیں کہ احمد فراز کا وہ شعر یاد آ جاتا ہے:
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
گزشتہ دنوں محمود شام ملتان تشریف لائے تو حسبِ سابق اُن سے سیاست، صحافت، شاعری اور ملتان پر مکالمہ رہا۔ اسی دوران وہ بات کرتے کرتے رک گئے اور کہنے لگے شاکر صاحب کتابیں تو بہت تصنیف کیں، سفر بھی بہت کیے، منزلیں اور بہت کچھ سَر کیا مگر گزشتہ دنوں جو کتاب مکمل کی وہ سب سے الگ اور سب سے جدا ہے۔ ایک ایک قدم تسکین ایک ایک گام بشارت اور یہ کتاب کچھ اس انداز سے لکھی کہ اس کے پیچھے ہماری بیگم کی وہ دُعائیں ہیں جو سال بھر سے خدا سے مانگ رہی تھیں کہ ایک مرتبہ پھر اذنِ حاضری ہو جائے۔ اور پھر جب یہ خوبصورت سفر تمام ہوا تو میرے ذہن میں وہ سب کچھ موجود تھا جو مَیں نے حج کے دوران دیکھا لیکن مَیں اس کتاب میں ماضی کے اُن کی ایام کا تذکرہ بھی کرنا چاہتا تھا جو مَیں نے کتابوں میں پڑھا، اپنے بزرگوں سے سنا۔ بس کاغذ قلم سامنے رکھا مجھے نہیں معلوم کہ میرے رحمن نے مجھ پر کس طرح کا کرم کیا کہ مَیں صدیوں کے سفر کو لے کر آپ کے سامنے آ گیا۔ بے شمار کتابوں کی ورق گردانی، اقتباسات، درجنوں احباب کے مشورے، حقائق، اعداد و شمار اور پھر عقیدتوں کا سفر۔ یہ سب کچھ ”رحمن کے مہمان“ کو مکمل کرنے کے لیے میرا زادِ راہ تھا۔ مَیں جب یہ کتاب لکھ رہا تھا میرے ذہن اور دل کو جو لطف و تسکین ملی وہ اس سے پہلے کسی سفرنامے کو لکھتے ہوئے نہ ملی۔
محمود شام کے اس سفرنامے میں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں مقاماتِ مقدسہ کا احوال بھی ملتا ہے۔ اور نواب مصطفی علی شیفتہ کے اس سفرنامے کا تذکرہ بھی ملتا ہے جس کا ذکر ہم نے کبھی نہیں پڑھا۔ محمود شام نے پیدل حج، موٹرکار کا حج، ریل کے ذریعے اور پانی والے جہازوں کے اسفار کی الگ الگ کہانیاں لکھی ہیں۔ خلافتِ راشدہ سے لے کر موجودہ دور تک اس سفر کے لیے جو سہولیات فراہم کی گئیں اُن کا تذکرہ بھی اس کتاب میں ملتا ہے۔ پھر غلافِ کعبہ محمل کی پوری تاریخ، خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی پر لگے طغروں کی تحقیق نے اس کتاب کو منفرد بنا دیا ہے۔ محمود شام نے جہاں ایک طرف مسلم محققین کے حوالے دیئے ہیں تو دوسری جانب انہوں نے غیرمسلم محققین کے بھی حقائق اور اعداد و شمار کو جمع کر کے یہ بتایا کہ اس کتاب کو لکھتے ہوئے انہیں تائیدِ رحمن و رحیم حاصل تھی۔
حج کے سفرنامے ہمیں پڑھتے ہوئے زمانہ گزر گیا۔ ممتاز مفتی نے جب ’لبیک‘ کو تحریر کیا تو خیال تھا کہ یہ کتاب ضبط ہو جائے گی۔ لیکن وہ کتاب ممتاز مفتی کو اس اعتبار سے ممتاز کر گئی کہ انہوں نے یہ کتاب لکھتے ہی کہہ دیا تھا کہ اس کتاب کو ہر کوئی شائع کر سکتا ہے۔ ان کے اس اعلان کے بعد لبیک آج بھی حج کے سفرناموں میں سب سے اہم کتاب سمجھی جاتی ہے جس میں ایک گناہگار شخص جب خانہ کعبہ میں روتے ہوئے لبیک کہتا ہے تو اس کو جواب میں بھی کہا جاتا ہے کہ مَیں آپ کی حاضری قبول کرتا ہوں۔ حجازِ مقدس سے لے کر کراچی تک کا یہ سفر بہت سی تاریخی کہانیوں کو لیے ہوئے ہے۔ جب کتابی صورت میں سامنے آتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ ہم محمود شام سے گزارش کریں کہ اس کتاب کا ایک پیپر بیک ایڈیشن بھی شائع کرائیں تاکہ یہ کتاب ان لوگوں کے گھروں میں بھی پہنچ جائے جو ابھی تک ”رحمن کے مہمان“ نہیں بنے۔ وہ اس کتاب کو پڑھ کے رحمن کے مہمان بن جائیں۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ