کئی برس پہلے برادرم احمد سلیم نے ایلس فیض کی کتاب ”Over my Shoulder“ تحفے میں دی تو اسے پڑھ کر یہ خواہش اُبھری کہ اس کتاب کا ترجمہ تو اُردو میں ہونا چاہیے۔ پھر جناب احمد سلیم ایک طویل بیماری کا شکار ہوئے تو اس کا کتاب کا خوبصورت ایڈیشن برادرِ من افضال احمد نے اپنے ادارے سنگِ میل پبلی کیشنز سے شائع کیا۔ اس مرتبہ بھی کتاب کا نیا ایڈیشن دیکھ کر پھر خیال آیا کہ اس کتاب کا اُردو ایڈیشن بھی آنا چاہیے۔ ہماری یہ خواہش 2018ءکے آخری ماہ میں پوری ہوئی جب نیر رباب نے اس کتاب کو اُردو کا پیرہن دیا۔ میری اس خواہش کے پس منظر میں وہی بات تھی کہ چونکہ یہ کتاب فیض احمد فیض کی اہلیہ نے لکھی ہے تو ان دونوں کے تعلقات، واقعات اور کہانیوں کو اُردو پڑھنے والوں سے دور کیوں رکھا جائے۔ نیر رباب لکھتی ہیں کہ ”یہ کتاب دو لوگوں کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ ایک وہ جو تاریخ کا کھردرا بغیر میک اپ چہرا دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں…….. اور جو بیروت، فلسطین، ویت نام، کمپوچیا کے کئی دہائیوں سے دل و دماغ میں رسنے والے زخموں کو اصل شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں…….. کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ اس تحریر کو اُردو کے قالب میں ڈھالتے ہوئے مَیں اپنے آنسوئوں کو بہنے سے نہیں روک سکی۔ اور کئی بار مَیں قلم رکھ دیتی اور کئی دن تک دوبارہ اٹھانے کی ہمت نہ کر پاتی۔ دوسرے یہ کتاب اُن لوگوں کو پڑھنی چاہیے جو محبت تو کرتے ہیں مگر محبت کی طاقت سے واقف نہیں ہوتے۔۔۔۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ ایلس نے فیض سے ٹوٹ کر عشق کیا اور ساری زندگی کبھی فیض کے پہلو میں اُن کی ساتھی بن کر تو کبھی اُن کے سامنے سپر بن کر اور کبھی پشت پر سہارا بن کر کھڑی رہیں۔ وہ فیض کے چہرے پر پھیلنے والی ایک دھیمی سی مسکراہٹ کے لیے پوری دنیا کو ایک طرف کر سکتی تھیں۔“
اس کتاب میں کیا ہے؟ وہ تو ہم اپنے پڑھنے والوں کو بعد میں بتائیں گے پہلے ایلس فیض کی اپنے شریکِ حیات کے لیے ایک نظم ملاحظہ فرمائیں جس میں ایلس بھی فیض احمد فیض کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔
ترے جانے کے بعد گیت گاوں گی تیرے
جب ہزار قدم کا ہو گا ہر اِک نقشِ پا
جب لا انتہا دکھوں کا فسانہ
کھلتے گلابوں کی خوشبو سے مہکا
ستائش کے لفظوں میں بھیگا ہوا
بھولی یادوں کو تازہ کر دے گا
صدائیں دینے کا غم، موت کو چوم کر چل دیا۔
پھر ترے گیت گائوں گی مَیں
نہ ہزار قدم نقش پا کے لیے
نہ لا انتہا دُکھوں کے لیے
نہ کھلتے گلاب
نہ تعریف کی بازگشت
نہ صدائیں کوئی، نہ ہی اقرار ہے
تمہارے لیے مرے گیت کا
نہ آغاز ہے نہ انجام ہے
اِک محبت فقط، جاوداں جاوداں
یہ کتاب کبھی ہمیں محبت کی داستان لگتی ہے تو کبھی یوں لگتا ہے جیسے ایلس نے اپنے محبوب کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کا پہلا حصہ ”اِک محبت فقط، جاوداں جاوداں“ کے نام سے شامل ہے۔ جس میں ایلس فیض اپنے بچپن کی کہانیاں لے کر بیٹھی ہوں پھر 1938ءکے ہندوستان کا منظرنامہ اور اُسی منظرنامے میں وہ مس ایلس سے مسز ایلس فیض کیسے بنیں بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ وہ شملہ جہاں پر 28 اکتوبر 1941ءکو شادی ہوئی اور اس شام کا منظرنامہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے قلمبند کیا۔ ایک چھوٹی سی تھکی ہاری مٹی میں لپٹی بارات پہنچ ہی گئی۔ سب سے پہلے فیض نے شادی کی انگوٹھی دکھائی۔ ایلس نے پہن کر دیکھا، سائز بالکل ٹھیک تھا۔ تو پوچھنے لگیں تمہیں کیسے اندازہ ہوا؟ تو فیض نے اپنی انگلی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مَیں اسے سب سے پہلے اپنی انگلی میں پہنا تھا میرا یہ سننا تھا تو فیض مزید کہنے لگے یہ چھلا سدا بہار محبت کی نشانی اور ابدیت کا چھلا ہے۔ ہم دونوں نے قہقہہ لگایا اور ہنس دیئے۔ فیض جو ساڑھی لائے مَیں اس کو پہن کر تیار ہو گئی۔ خوبصورت سنہرے تاروں سے بنے کام کی عنابی ساڑھی اور مختصر سی تعداد میں خواتین چھوٹی سی بیٹھک میں موجود اور ہم سب میں سب سے زیادہ خوشی میری چھوٹی سی بھانجی سلمیٰ (سلمان تاثیر کی بہن) مجھ سے کہنے لگی آپ کی شادی ہو رہی ہے، ’ہاں‘، پھر آپ کے بچے بھی ہوں گے؟ پتہ نہیں! ”پلیز بچے ضرور پیدا کیجئے گا مجھے کھیلنے کے لیے کوئی چاہیے۔“ فیض نے نکاح کے بعد طلاق دینے کا اپنا حق بھی مجھے دے دیا اور پھر شادی کے بعد چند روز سری نگر میں گزارے وہاں سے پنڈی کا سفر کیا اور وہاں سے مجھے لاہور جانا تھا۔ لاہور میں فیض کے گھر والے موجود تھے۔ ایک پر ایک چڑھ کر گھونگھٹ سے میرا چہرہ دیکھنا چاہ رہے تھے۔ میرے ہاتھوں میں قرآن تھما دیا گیا، میرا نام کلثوم رکھ دیا گیا۔ گلے میں سونے کی زنجیر، ہاتھوں میں کڑے، زانو پر چاندی کے روپے اور مَیں سب کچھ چپ چاپ کرواتی رہی۔
قارئین کرام! یہ ایلس فیض کی وہ خود نوشت ہے جو مَیں ایک عرصے سے پڑھنا چاہ رہا تھا۔ اور دسمبر 2018ءاور جنوری 2019ءکی بہت سی راتیں اس کتاب کو پڑھتے ہوئے گزرگئیں اور جی چاہ رہا ہے آپ بھی تو یہ کتاب پڑھیں کہ 2019ءمیں اگر آپ کسی کو اچھی کتاب کا تحفہ دینا چاہتے ہیں تو اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں کہ ایلس فیض کی یہ کتاب واقعی فیض کی یادوں سے سجی ہوئی ہے کہ کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں۔
فیس بک کمینٹ