لندن میں وزیر اعظم شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے رہبر نواز شریف سے ملاقات کی ہے جس کے بعد خبر آئی ہے کہ پارٹی لیڈروں نے وقت مقررہ سے پہلے انتخابات نہ کروانے کے کا عزم کیا ہے۔ دوسری طر ف عمران خان نے تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس کے دوران پارٹی لیڈروں کوا سلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تیاری کرنے کی ہدایت کی ہے اور متنبہ کیا ہے کہ کوئی لیڈر انہیں ’بائی پاس‘ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اس وقت اتحادی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان اعصابی جنگ بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ کوئی بھی اپنی بیان کردہ پوزیشن سے ایک قدم پیچھے ہٹانے پر آمادہ نہیں ۔ سیاسی تصادم کی یہ صورت حال ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آرہی ہے جب ملک کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس قدرتی آفت سے ہونے والی تباہی و بربادی نے ملکی معیشت کے لئے نئی مشکلات کھڑی کی ہیں۔ پاکستان قدرتی عوامل کے باعث ہونے والی اس تباہی سے پہلے بھی شدید مالی دباؤ میں تھا۔ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر درآمدی بل ادا کرنے اور قرض کی اقساط کی ادائیگی کے لئے ناکافی تھے جس کی وجہ سے امید کی جارہی تھی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے کے بعد ملکی معیشت کو کچھ ریلیف مل سکے گا۔ حکومتی نمائیندے دعوے کرتے رہے تھے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے بعد روپے کی قدر بہتر ہونا شروع ہوگی۔ اور دوست ممالک کی طرف سے بھی امداد ملنے کا آغاز ہوجائے گا۔
ابھی تک یہ امیدیں پوری نہیں ہوسکیں ۔ یہ درست ہے کہ اس دوران امریکی ڈالر کی شرح میں عالمی طور سے غیر معمولی اضافہ کی وجہ سے دنیا کی تمام اہم کرنسیوں کی قیمت بھی ڈالر کے مقابلے میں کم ہوئی ہے تاہم اس عذر سے اہل پاکستان کی تشفی کروانا ممکن نہیں ہے۔ گو کہ پاکستان کے عام شہری کو اس بات سے تو غرض نہیں ہے کہ امریکی ڈالر کیوں اڑھائی سو روپے کے لگ بھگ پہنچ گیا ۔ لیکن انہیں تواتر سے باور کروایا گیا ہے کہ ڈالر کی شرح میں کمی کے بعد قیمتوں میں استحکام پیدا ہوگا اور مہنگائی میں کمی واقع ہوگی۔ عام لوگوں کے لئے سب سے اہم یہی معاملہ ہے۔ ملک میں مہنگائی کی شرح چالیس سے پینتالیس فیصد ہے جس سے اشیائے ضروریہ بھی عوام کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔
اتحادی جماعتوں نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جو سیاسی بیانیہ تیا رکیا تھا، اس کا بنیادی نکتہ بھی یہی تھا کہ عمران خان کی حکومت ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہؤا ہے جبکہ غیر ملکی قرضوں میں اضافہ کی وجہ سے ملک کو اس حد تک زیر بار کردیا گیا ہے کہ موجودہ آمدنی کے ساتھ وہ اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل حتی کہ وزیر اعظم شہباز شریف اب بھی ایسی ہی باتیں کرتے رہتے ہیں کہ ہماری درآمدات ستّر اسّی ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں جب کہ برآمدات تیس ارب ڈالر کی حد بھی عبور نہیں کرپاتیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس صورت میں سخت معاشی فیصلے کرنا ناگزیر تھا
اس دلیل کو مانتے ہوئے بھی یہ سوال تو جائز طور سے کیا جاسکتا ہے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے موجودہ حکومت بھی بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام پر دباؤ بڑھانے کے سوا کوئی دوسرا اقدام کیوں نہیں کرسکی۔ ادائیگیوں کے توازن کو مزید قرضے لے کر پورا کرنے کی وہی حکمت عملی اب بھی جاری ہے جس پر عمران خان کی حکومت عمل پیرا تھی۔ پھر حکومت میں تبدیلی کا کیا فائدہ ہؤا۔ جو الزامات شہباز شریف اینڈ کمپنی کل تک عمران خان پر عائد کرتی تھی، اب عمران خان وہی تمام الزامات شہباز شریف کی حکومت پر لگا رہے ہیں۔ کل شہباز شریف کہتے تھی کہ ایک ڈالر پونے دو سو روپے کا ہوگیا۔ اب عمران خان سوال کرتے ہیں کہ اس حکومت نے تو تباہی ہی پھیر دی ہے اور ساڑھے چار ماہ میں ہی ڈالر کی قیمت اڑھائی سو روپے تک پہنچ چکی ہے۔ حکومت کا یہ دعویٰ بھی درست ثابت نہیں ہؤا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے بعد یہ صورت حال تبدیل ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز حکومت کا یہ نعرہ عوام میں پزیرائی حاصل کرنے میں ناکام ہے کہ ’ہم نے سیاست کرنے کی بجائے ریاست بچانے کی کوشش کی ہے‘۔
حکومت کا اس نعرے سے یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ تحریک انصاف کے غلط معاشی فیصلوں کو درست کرنے کے لئے اقدام کئے جارہے ہیں جس سے معیشت سنبھل رہی ہے اور اور اس کے ثمرات کچھ عرصہ تک عوام تک پہنچنے لگے ہیں۔ شاید حکومت کے بزرجمہروں کو اپنے ان دعوؤں پر یقین بھی ہے۔ تاہم معاشی ماہرین اور ملک کے عام شہریوں کو ایسی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سابقہ حکومت پر کی جانے والی تنقید بھی دلائل یا شواہد سے زیادہ نعروں اور سیاسی عصبیت پر استوار تھی ، اسی طرح اب معیشت بحال کرنے کے دعوے بھی نعروں اور وعدوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ جوں جوں موجودہ حکومت کا اقتدار طویل ہورہا ہے توں توں یہ بھی واضح ہوتا جارہا ہے کہ اگر سابقہ حکومت کے پاس کوئی معاشی منصوبہ نہیں تھا تو معاشی اصلاحات کا کوئی پلان موجودہ حکومت بھی پیش کرنے میں ناکام ہے۔ پہلے بھی عالمی اداروں اور دوست ممالک کی نظر عنایت سے کام چلانے کی کوشش کی جارہی تھی، اب بھی اسی طریقے پر عمل ہورہا ہے۔ کل بھی آئی ایم ایف شرائط کی صورت میں پاکستان کی مالی پالیسیوں کے لئے رہنما اصول متعین کرتا تھا اور اب بھی آئی ایم ہی کی شرائط پورے کرتے ہوئے موجودہ حکومت کی کمر دوہری ہوئی جاتی ہے اور مہنگائی کے غیر ضروری دباؤ میں عوام کی بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے۔
یادش بخیر عمران خان کی حکومت نے دو سال تک کورونا وبا کی آڑ میں اپنی ناکام معاشی پالیسیوں کو چھپانے کی کوشش کی ۔ اور اس وبا کی وجہ سے ملنے والی کثیر عالمی امداد و مراعات سے کسی بھی طرح سرکاری اخرجات پورے کرکے معیشت کی بحالی کے بے بنیاد دعوؤں سے عوام کو بہلایا جاتا رہا۔ اب شہباز حکومت بھی بعینہ اسی حکمت عملی پر عمل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے ملنے والے فنڈز کے علاوہ اب یہ امید کی جارہی ہے کہ سیلاب جیسی قدرتی آفت سے پاکستانی معیشت، انفرا اسٹرکچر اور عوام کو جو بے پناہ نقسان ہؤا ہے، اس کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ امداد اکٹھی کرنے کی کوشش کی جائے۔ تاکہ کسی بھی طرح اقتدار میں موجودہ مدت پوری کی جائے اور اگر اس دوران کسی بڑی سرمایہ کاری کا اہتمام ہوگیا تو اس میں سے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر اپنے ارکان اسمبلی کو فنڈز فراہم کئے جائیں تاکہ حلقوں میں حکومتی پارٹیوں کے حق میں حالات کو موافق بنایا جاسکے۔
جیسے تحریک انصاف کے پاس کوئی طویل المدت اور جامع معاشی منصوبہ نہیں تھا، بالکل ویسے ہی موجودہ اتحادی حکومت کے پاس بھی کوئی معاشی پروگرام نہیں ہے۔ عمران خان بھی کسی طرح اپنی اقتدار کی مدت پوری کرکے کوئی ایسا انتظام کرنا چاہتے تھے کی ایک بار پھر پانچ سال کے لئے حکومت قائم کرلیں۔ اب شہباز شریف بھی ’ڈنگ ٹپاؤ‘ حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں اور اس مار پر ہیں کہ کہیں سے کسی بہانے اتنا سرمایہ مل جائے کہ آئیندہ انتخابات کے موقع پر کوئی ایسا پروگرام سامنے لاسکیں کہ عوام مہنگائی اور معاشی بدنظمی کو بھلا کر موجودہ پارٹیوں کو مزید پانچ سال کے لئے اقتدار سونپ دیں۔ شہباز شریف البتہ اس لحاظ سے مشکل میں ہیں کہ عمران خان ، حکمران پارٹیوں کے مقابلے میں مقبول ہیں۔ اس کے علاوہ عمران خان تن تنہا اپنی سیاسی مہم کے کرتا دھرتا ہیں جبکہ شہباز شریف کو ہر قدم اٹھانے کے لئے درجن بھر پارٹیوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
مقصود چونکہ اقتدار کا حصول ہے ، اس لئے عمران خان بھی عوامی مقبولیت کے جوش میں کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرنے کوشش کررہے ہیں ۔ حالانکہ تحریک انصاف کو اگر ایک بار پھر اقتدار مل بھی گیا تو اسے بھی انہی حقیقی مالی و معاشی مسائل کا سامنا ہوگا جو شہباز حکومت کو درپیش ہیں۔ لیڈروں کے سر پر میں جب تک مسائل حل کرنے کی منصوبہ بندی کی بجائے اقتدار لینے کا سودا سوار رہے گا، ملکی حالات میں تبدیلی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ مالی دباؤ کا شکار پاکستان جیسے ملک کو اس دلدل سے نکلنے کے لئے چند بنیادی اقدام کرنے پڑتے ہیں:
1)غیر پیداواری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی۔ ان میں سر فہرست دفاعی اخراجات کم کرنا شامل ہے۔ پاکستان اس وقت اپنی معاشی استعداد کے مقابلے میں دو گنا بڑی فوج کا بوجھ برداشت کررہا ہے جس کا اثر باقی تمام شعبوں پر مرتب ہوتا ہے۔
2) ہمسایہ ممالک سے تنازعات ختم کرکے علاقائی تجارت، مواصلت اور مواقع میں اضافہ تاکہ ایک تو جنگ و تصادم کی صورت حال ختم ہو اور اعتماد کا ماحول بحال ہونے پر سرمایہ کاری اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوسکے۔ دوسرے بحرانی صورت حال میں ترقی یافتہ یا دور دراز ممالک سے مہنگی اشیائے صرف درآمد کرنے کی بجائے ہمسایہ ممالک سے کم قیمت پر وہی اجناس اور خام مال حاصل کیا جاسکے۔
پاکستان بوجوہ یہ دونوں اقدام کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ یہ دونوں عوامل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی بھاری بھر کم فوج کبھی بھی تنازعات کا حل نہیں چاہے گی تاکہ اسے ’غیر ضروری‘ نہ سمجھ لیاجائے ۔ تنازعات موجود رہیں گے تو بڑی اور مستعد فوج قائم رکھنا کسی بھی ملک کی ضرورت بنی رہے گی۔ اور قومی سلامتی کے نام پر ہر حکومت کے لئے فوج کا قصیدہ پڑھنا ہی مسائل کا تیر بہدف حل سمجھا جاتا رہے گا۔اس آئینے میں اگر پاکستان کے معروضی حالات کو پرکھا جائے تو مسئلہ کی جڑ تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی۔ حکومت اور اپوزیشن میں پہلی لڑائی آرمی چیف کی تقرری کے سوال پر ہے اور دونوں اپنی مرضی کا نیا فوجی سربراہ مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری لڑائی انتخابات کے انعقاد کے سوال پر ہے کیوں کہ سیاست دانوں کے لئے اقتدار حاصل کرنے کا یہی ایک راستہ ہے کہ انتخابات منعقد ہوں اور فوج کی آشیر واد سے ان میں کامیابی حاصل کی جائے۔
مریم نواز سمیت موجودہ حکومت کے متعدد رہنما اعلان کرتے رہتے ہیں کہ عمران خان اب تک لاڈلا ہے ورنہ ان سے سیاسی طور سے نمٹنا قطعی مشکل نہیں ہے۔ بعض تجزیہ نگار کے علاوہ مقتدر پارٹیوں کے عناصر بھی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ عمران خان پر سرکشی سے لے کر بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کرنے کے باوجود حکومت کیوں ان کے خلاف کوئی قانونی راستہ اختیار کرنے سے ہچکچاتی ہے؟ اس کا سوال کا یہی جواب دیا جاتا ہے کہ چونکہ عمران خان ’لاڈلا‘ ہے، اس لئے حکومت کے ہاتھ بندھے ہیں۔ ’لاڈلے‘ پالنے والوں کے سامنے زانوئے ادب طے کرنے والی حکومت کیسے عوام کو ان کے حق نمائندگی کی ضمانت فراہم کرسکتی ہے۔ اس کے اختیار، صلاحیت اور وعدوں پر کیسے اعتبار کیا جائے؟
( بشکریہ : کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ