دوڑ لگی ہے کہ سیلاب زدگان کی مدد میں کون بازی لے جاتا ہے۔ یہ دوڑ اسی وقت مثبت اور عملی نتائج کی حامل ہوسکتی ہے اگر اس تگ و دو کے کوئی سیاسی مقاصد نہ ہوں اور اسے صرف متاثرین کی سہولت کے نقطہ نظر سے منظم کیا جائے اور بہتر رابطہ کاری کے لئے تمام ادارے اور حکومتیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں۔ اس وقت ملک میں مقابلے کی جو کیفیت پیدا کی گئی ہے ، اس سے بے گھر ہونے والوں اور بنیادی ضروریات سے محروم لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن سیاسی تقسیم کے دونوں اطراف میں ’ وہ مارا‘ کے نعرے ضرور بلند ہوں گے۔
پاکستان میں یہ منظر پہلے بھی کم دردناک نہیں تھا لیکن سیلاب کی شدت، بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعداد اور زمینی حقائق سے بننے والی تصویر میں اس منظر کی مضحکہ خیزی اور سنگینی میں اضافہ ہؤا ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ تقسیم شدہ قوم کے بیشتر لوگوں کو اس تشویشناک صورت حال کا اندازہ تک نہیں ہے اور نہ ہی یہ خبر ہے کہ پوری دنیا کی نگاہیں اس وقت پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ گھروں ، گھروندوں، جھونپڑوں اور آمدنی کے وسائل سے محروم ہونے والے لوگوں کی تعداد میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے جیسا کہ مرنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ اس ناگہانی آفت کے بارے میں بہت سے تصورات ہیں۔ متعدد تجزیہ نگار تسلسل سے یہ بتا رہے ہیں کہ یہ وقوعہ کیوں رونما ہؤا، لیکن ابھی تک پاکستانی عوام میں اتحاد و یگانگت کا وہ جذبہ دیکھنے میں نہیں آیا جو اس سے پہلے قدرتی آفات کی صورت میں دکھائی دیا تھا۔ اب حکومتیں بھی تقسیم ہیں، لوگ بھی سیاسی کرّوں میں بٹے ہوئے ہیں اور مہنگائی نے دوسروں کے بارے میں سوچنے کی صلاحیت کو بھی شدید زک پہنچائی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے پوری دنیا مل جل کر نمٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس بار پاکستان میں مون سون کی غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے تباہی و بربادی کی جو صورت حال پیدا ہوئی ہے، اسے پوری دنیا کے ماہرین ، ماحولیات میں تغیر کی بڑی تصویر میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان کو 2010 میں بھی ایسے ہی شدید سیلاب اور تباہی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ بارشوں اور طغیانی کی موجودہ صورت حال میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آخر ایک دہائی سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود پاکستانی حکومت نے ویسی ہی مشکل سے نمٹنے کا کوئی انتظام کیوں نہیں کیا۔ اس سوال کا ایک جواب تو وہی ہے جو نارویجئن پارلیمنٹ کے رکن اور سابق وزیر عابد راجہ نے ایک ریڈیو انٹرویو میں دیاہے کہ مون سون کے غیر معمولی موسم کی وجہ سے پاکستان کے متعدد علاقوں کو چند روز میں جس قدر بارشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ، عام حالات میں اتنی بارش پورے سیزن کے دوران ہوتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس وقت پاکستان جس صورت حال کا سامنا کررہا ہے اور قدرتی موسمی حالات جس طرح مشکل بن کر پاکستانی عوام کے لئے آفت بن چکے ہیں، دنیا کا کوئی بھی ترقی پزیر ملک ان حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
اس کے باوجود موجودہ مشکل میں اس سوال کو مؤخر تو کیا جاسکتا ہے لیکن اسے ہمیشہ کے لئے ٹالا نہیں جاسکتا کہ ایک دہائی قبل سیلاب سے ہونے والی تباہی سے کیا سبق سیکھا گیا اور کیا پاکستانی حکومتوں نے مستقبل میں ایسے ہی خطرات کی پیش بندی کے لئے کوئی منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کی؟ بدقسمتی سے یہ سوال اب کیا جائے ہا چند ماہ بعد ، اس کا جواب نوشتہ دیوار کی طرح پاکستانی عوام کا مقدر بن چکا ہے۔ ملک کے سیاسی لیڈر اور ادارے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور نت نئے حکومتی انتظام کاتجربہ کرنے، سیاسی لیڈروں کو الزام تراشی کے ذریعے بے توقیر کرنے اور سیاسی مباحث کو روزمرہ بنانے میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں کوئی دوسرا کام کرنے کا خیال ہی نہیں آتا۔ سوچنا چاہئے کہ اب ملک کو جس قدرتی تباہی کا سامنا ہے اور جس کی وجہ سے ملک کی لگ بھگ پندہ فیصد آبادی بے گھر اور ایک تہائی رقبہ زیر آب ہے، کیا اس کے گزرنے کے بعد ہم بطور قوم مل بیٹھ کر اپنی کوتاہیوں پر نگاہ ڈالیں گے اور ان غلطیوں سے تائب ہوجائیں گے جن کی وجہ سے متاثرین کی تعداد اور قدرتی آفت کے اثرات کو محدود کیا جاسکے۔ اس سوال کا جواب پاکستانی قوم کے ہر فرد کو معلوم ہے لیکن کسی تبدیلی میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے وہ اتنا ہی لاچار بھی ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی مشکل تو یہی ہے کہ خالص علمی و سائنسی امور کو جذبات کی عینک اور سیاسی مفادات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے اور ویسے ہی اس کے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ ملک میں موجودہ مشکل کو ’خدا کا عذاب‘ ماننے والوں کی بھی کمی نہیں ہے لیکن اہم منصوبوں کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ دلائل سے بھی ایسے سطحی نتیجے اخذ کئے جارہے ہیں جو نہ تو موجودہ مشکل کو حل کریں گے اور نہ ہی مستقبل میں مسائل کے تدارک کا راستہ ہموار ہوسکے گا۔ ان میں سب سے اہم بحث کالاباغ ڈیم بنانے سے متعلق ہے جسے کسی سیاسی شرارت کے طور پر عین اس وقت شروع کیا گیا ہے جب ملک کے تین چھوٹے صوبے شدید بارشوں اور سیلاب کا سامنا کررہے ہیں ۔ ان کی آبادکاری اور بحالی کے معاملہ کو ترجیح دینے کی بجائے کالاباغ جیسے متنازعہ اور غیر ضروری معاملہ پر سیاسی نعرے بازی سے قومی ہم آہنگی اور اتحاد کو تباہ کرنے جیسی سوچی سمجھی کوشش، اس وقت پاکستانی ذہنیت اور مزاج کی عکاسی کررہی ہے۔
ملک کے دو صوبے جن میں سب سے بڑا صوبہ پنجاب بھی شامل ہے، موجودہ پریشانی میں مرکزی حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر متاثرین کی مدد کرنے اور انہیں سہولت بہم پہنچانے کا کوئی منصوبہ بنانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ وزیر اعظم جب ان صوبوں کے دورے پر جاتے ہیں تو صوبائی حکومت کے سربراہان ان سے ملنے، حالات کا جائزہ لینے اور مل کر امدادی کاموں میں ربط پیدا کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر صوبہ خود کو نمایاں کرنے کے دعوے کررہا ہے اور وفاقی حکومت اپنے طور پر تیس مار خان بننے کا اعلان کررہی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی دعوے دار پی ٹی آئی کی قیادت سیاسی سرگرمیاں معطل کرنے اور رنج و غم اور مشکل و پریشانی کے اس ماحول میں مل کر کام کرنے کی بجائے ، اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے پر مصر ہے۔ عمران خان کو حقیقی آزادی درکار ہے۔ اگرچہ اس ’حقیقی آزادی‘ کے معنی ہر آنے والے دن کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں۔ لیکن جب سیاست کو جھوٹ اور نفرت کی بنیاد پر پھیلایا گیا ایسا طوفان بنا دیا جائے جس میں سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں مفقود ہوچکی ہوں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کس کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے۔ بس یہ جان لینا چاہئے کہ ہر شخص دوسرے کو ملک دشمن اور خود کو سب سے بڑا محب وطن ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اب کون بتائے کہ اگر ملک کی دو تہائی آبادی ہی غدار اور ملکی مفاد سے نابلد ہے تو آزادی کے چراغ آخر کن طاقوں پر روشن کئے جائیں گے۔
عمران خان کے شیدائیوں کو آفت زدہ لوگوں کی حالت زار پر غور کرنے سے زیادہ یہ بات پھیلانے کا شوق ہے کہ ان کا لیڈر دو تین گھنٹے کی ٹیلی تھون میں پانچ ارب روپے جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایماندار ہے اور توشہ خانہ سے چوری کے دعوے جھوٹے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہؤا کہ عمران خان کے علاوہ باقی سب چور ہیں۔ اب ان دعوؤں میں اگر کسی کو جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم کی یاد آجائے تو اسے کیوں کر مسترد کیا جا سکے گا، جب عوام سے کہا گیا تھا کہ اگر وہ ملک میں اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں تو ضیاالحق کے حق میں ووٹ دیں۔ ان دعوؤں سے قطع نظر کچھ ایسے ہی اعلانات عمران خان سیاسی جلسوں میں کرتے ہیں کہ ’حق کا ساتھ دینا ہی حکم الہیٰ ہے اور اللہ کا حکم ماننا ہے تو تحریک انصاف کو ووٹ دو‘۔
مسئلہ یہ ہے کہ ساڑھے تین کروڑ بے گھر لوگ، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کی تباہی، لاکھوں مویشیوں کی ہلاکت اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیر نو کے لئے درکار وسائل نہ تو نعرے لگانے سے فراہم ہوتے ہیں اور نہ ہی نفرتیں پھیلانے سے ان کا کوئی حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے چئیرمین نے ایک خاتون جج کے بارے میں افسوسناک زبان استعمال کی اور جب ہائی کورٹ نے توہین عدالت کا نوٹس لیا تو ’شرم آنی چاہئے ‘ کو معمول کی گفتگو قرار دیتے ہوئے عدالت کو ’پیش کش ‘ کی ہے کہ اگر عدالت کہے تو چئیرمین یہ الفاظ واپس لے سکتے ہیں۔ عمران خان کے چہیتے فواد چوہدری میڈیا کو بتاتے ہیں کہ اگر عدالت نے توہین عدالت کی سزا دی تو اصل فیصلہ پاکستانی عوام کریں گے۔
ایک دوسرے کو نوچنے پر آمادہ اس ملک کے بارے میں کون کہہ سکتا ہے کہ یہاں قدرت کا عذاب اترا ہؤا ہے۔ در حقیقت یہ قوم جاہ پسندی اور انا پرستی کے ایسے عذاب کا سامنا کررہی ہے جس سے نجات کی کوئی صورت فی الوقت دکھائی نہیں دیتی۔ جیسا کہ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ’ خود داری قائم رہے، آزادی مل جائے تو مسائل کا کیا ہے، خود ہی حل ہوتے رہیں گے‘۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )