( گزشتہ سے پیوستہ )
بریگیڈئر صاحب کے ساتھ کھیل کا پہلا روز بہت سخت لگا بمشکل 9 ہول مکمل کئے اور چائے کی میز پر آن بیٹھے۔ بریگیڈئر آفندی حسب عادت گپ شپ کے موڈ میں تھے اور میں افشیں کے آ جانے سے پہلے بھاگنے کے چکر میں۔ دور سے خواتین کی فلائٹ آتی ہوئی نظر آئی ” مارے گئے“ میں نے سوچا۔ افشیں سیدھی ہماری طرف آئی سرخ رنگ کی ٹی شرٹ نیلے رنگ کا ٹراؤزر اور زرد پی کیپ۔ افشیں سب کھلاڑیوں میں منفرد لگ رہی تھی۔ میں کوشش کے باوجود افشیں سے نگاہیں نہ ہٹا سکا۔ افشیں بالکل گھبرائی ہوئی نہ تھی مجھے دیکھ کر یکدم حیران ہونے کی اداکاری کی اور کہنے لگی۔ ”سر آپ؟ کیا آپ بھی گولف کھیلتے ہیں؟“ پھر اپنے ابا سے مخاطب ہو کر بولی ”ڈیڈی یہ ہمارے بینک میں بہت سینئر آفیسر ہیں میں انہیں جانتی ہوں یہ شاید مجھے نہ جانتے ہوں جونئیرز کے ساتھ زیادہ فری نہیں ہوتے۔“ بریگیڈئر آفندی نے مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ”یہ بہت فائن آدمی ہیں آج ان کا پہلا روز ہے۔“
مجھے ایک بارعب افسر کی جھوٹی اداکاری کرنا پڑی ”تو آپ کونسے سیکشن میں ہیں؟“ میں نے گفتگو میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی کوشش کی۔ افشیں نے تیوری چڑھا کر مجھے گھور کر دیکھا اور لہجے میں نرمی پیدا کرتے ہوئے بولی ”ہیں ایک آفیسر ذرا Idiot ہیں ان کے ساتھ بہت سر کھپانا پڑتا ہے۔“ شکر ہے بریگیڈئر آفندی کا دھیان کسی اور طرف تھا وگرنہ وہ بھی اپنی رائے کا اظہار ضرور کرتے۔
افشیں کی ترکیب نہایت کارآمد تھی دن بھر تو ہم بینک میں ساتھ رہتے اور شام کو موقع پا کر گولف کلب چلے جاتے۔ اب تقریباً روز ہماری ملاقات ہونے لگی تھی۔ میں نے کھیل میں مہارت حاصل کر لی تھی اور بریگیڈئر آفندی کا اعتماد بھی مجھے حاصل ہو گیا تھا۔ مگر یہ سب اتنا آسان نہ تھا اس عرصہ میں شاٹیں لگا لگا کر ہاتھوں پر گٹے پڑ گئے تھے۔ ریت کے بنکروں سے بال نکالنے کی کوشش میں سر میں سیروں ریت ڈلوا چکے تھے اور سینکڑوں بال جوہڑوں، تالابوں اور دیوار کے پار ضائع کر چکے تھے۔ افشیں بظاہر تو فاصلہ رکھتی مگر دراصل نہایت باریک بینی سے میرے کھیل اور شخصیت میں نکھار پیدا کر رہی تھی۔ اب ہم بریگیڈئر آفندی کی موجودگی میں بھی گفتگو اور بحث کر لیتے تھے۔ افشیں کسی بھی کمپلیکس سے عاری تھی اور میں اب بھی افشیں سے بات کرتے ہوئے سوچتا تھا کہ بریگیڈئر آفندی کیا کہیں گے؟
بینک میں معاملات ٹھیک جا رہے تھے۔ افشیں نے میرے سیکشن کا سارا کام سنبھال لیا تھا بینک کے سب آفیسر منیجر اور کسٹمر میرے سیکشن کے کام سے مطمئن تھے۔ صرف مجھے اندازہ تھا کہ میرے سیکشن کی تعریف افشیں کے احساس ذمہ داری کی وجہ سے ہے وہ نہ صرف اپنا کام نہایت مہارت سے کرتی تھی بلکہ میرے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بھی مدد کرتی تھی وہ مجھے حالات حاضرہ سے آگاہ رکھتی اچھی کتابیں پڑھنے کو دیتی میری خط و کتابت میں گرائمر اور تلفظ کا خیال رکھتی مجھے کس موقع پر کیا بولنا ہے اور کس طرح سے ردعمل ظاہر کرنا ہے یہ سب اسی کی ہدایت کے مطابق ہوتا تھا۔ میرے لباس، تراش خراش، میچنگ، پرفیوم، آفٹر شیو، ٹائی، کف لنکس اور جرابوں کی خریداری بھی افشیں کی مرضی سے ہوتی۔ گولف کی اصطلاحیں بالخصوص ”برڈی“ اور ”ہول ان ون“ کی وجہ ترکیب بھی افشیں نے مجھے بتائی تھی۔ میں اکثر مذاق کرتا تھا کہ تم یہ سارے کام تو ابھی سے کرنے لگ گئی ہو شادی کے بعد کیا کرو گی؟ فرق صرف یہ تھا کہ وہ یہ سب کام میرے گھر میں رہے بغیر کر رہی تھی۔ میں افشیں کی مسلسل نگرانی کا اس قدر عادی ہو گیا تھا کہ خود سے کوئی کام بھی نہیں کر سکتا تھا ایسے موقعوں پر وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ ”بھئی آپ کو تو بچوں کی طرح پالنا پڑتا ہے اور وہ بھی شادی سے پہلے“۔
”تو پھر جلد شادی کر لو نا مجھ سے دیر کس بات کی ہے؟“ افشیں ہنس کر کہتی ”تم نے جتنا عشق شادی سے پہلے کرنا ہے کر لو پھر تو ہمیں حقیقت کی دنیا میں آ جانا پڑے گا میر تقی میر صاحب“، افشیں مجھے محبت بھرے پیغام بھیجنے پر ہمیشہ میر تقی میر کہتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شعر و شاعری کرنا، پھول اور رقعے بھیجنا، آہیں بھرنا راہیں تکتے رہنا اور یاد کرنا ناکام اور پرانے عاشقوں کا کام ہے۔ ماڈرن عاشق تو صرف یہ سوچتے ہیں کہ انہوں نے اپنے محبوب کی زندگی میں کیا Value Addition کرنا ہے اس کی زندگی کو کیسے بہتر بنانا ہے۔ بد قسمتی سے میرا تعلق پرانے عاشقوں کے قبیلے سے تھا لہٰذا مجھے مسلسل افشیں کا لیکچر سننا پڑ جاتا۔ اسے بالوں، آنکھوں، ہونٹوں، رخساروں، پلکوں ، نقرئی گھنٹیوں جیسی ہنسی، نگاہوں کے تیر جیسی باتوں سے چڑ تھی اس کا خیال تھا کہ ”یہ سب خدا کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں اور محبت انسان اعضا سے نہیں کرتا مکمل انسان سے کرتا ہے لہذا یہ سوچو کہ ایسا کیا کیا جائے کہ خود اپنی زندگی اور جسے چاہتا ہے اس کی زندگی سکون سے گزر سکتی ہو۔“ افشیں سو فیصد درست تھی میری محبت دراصل اس طرح کی تھی کہ ”بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے۔“ اور افشیں کو اس نظریے میں کوئی جاذبیت بلکہ معقولیت نظر نہ آتی تھی۔ میرا عشق آسان تھا اور افشیں کا نظریہ عشق ایک مشکل راہ۔ میں اکثر افشیں سے گلہ کرتا تھا کہ میں اس سے جس قدر محبت کرتا ہوں وہ مجھ سے اس قدر محبت نہیں کرتی اس پر وہ خوب ہنستی اور کہا کرتی تھی کہ ”میرے نادان محبوب اگر غور کرو تو میں اپنے محبت کے معیار کے مطابق تمہارے لیے جو کچھ کرتی ہوں وہ شاید اس سے زیادہ ہے جو تم میرے لیے کرتے ہو ….۔“
مجھے یہ سن کر بیحد دکھ ہوتا مگر جب غور کرتا تو مجھے اس کی بات درست لگتی تھی۔ وہ میری زندگی میں اس طرح شامل ہو چکی تھی کہ اس کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی محال تھا اور یہی شاید میرے لیے اس کی محبت تھی۔
افشیں کی سالگرہ کا دن آیا۔ کئی ہفتے قبل میں نے اس کے لیے تحفہ خرید کر رکھا ہواتھا۔ مجھے علم نہ تھا کہ وہ اپنے گھر میں کوئی تقریب منعقد کرنا چاہتی ہے لہٰذا میں نے بینک میں ایک سرپرائز تقریب کا انتظام کرلیا۔ افشیں کو پیغام دیا گیا کہ منیجر صاحب کانفرنس روم میں اسے طلب کر رہے ہیں اور ان کا مزاج بہت خراب ہے ۔ افشیں جب گھبرائی ہوئی کانفرنس روم میں آئی تو ہیپی برتھ ڈے کے گیت، ایک بڑے کیک اور تالیوں نے اس کا استقبال کیا وہ بیحد خوش ہوئی اور تشکر آمیز نگاہوں سے مجھے تکنے لگی میں نے بڑھ کر پیک کیا ہوا تحفہ اور گلاب کے پھولوں کا گلدستہ افشیں کو پیش کیا اور بینک کے سٹاف نے تالیاں بجائیں۔
شام کو افشیں کے گھر میں سالگرہ کی تقریب تھی۔ افشیں نے تقریب کا ذکر تو بارہا کیا مگر مجھے شرکت کی دعوت نہ دی تھی۔ اگرچہ میرا کوئی استحقاق نہ تھا مگر نجانے کیوں میرا خیال تھا کہ وہ اپنی سالگرہ کی تقریب میں ضرور مجھے مدعو کرے گی مگر اس نے دن بھر کوئی بات نہ کی مجھے بہت غصہ آیا کہ ”یہ کیا بات ہوئی؟ خود کو میری منگیتر کہتی ہے اور میں نے آج ہی اس کی شان میں بینک کے اندر ایک تقریب منعقد کی ہے اسے کم از کم مجھے تو مدعو کرنا چاہیے تھا۔“ سہہ پہر کو افشیں میرے کیبن میں آئی اس کے ساتھ ایک ہینڈسم نوجوان تھا مجھ سے تعارف کراتے ہوئے افشیں بولی ”سر یہ میرے کزن ہیں کیپٹن عامر یہ راولپنڈی سے خاص طور پر میری سالگرہ میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔“ کیپٹن عامر مجھ سے کہیں زیادہ سمارٹ تھا۔ میں نے دونوں کو بیٹھنے کی دعوت دی اور گھنٹی بجا کر کافی کا کہنے لگا تو افشیں بولی ”دراصل ہمیں جلدی ہے آج شام میری سالگرہ کی تقریب ہے مارکیٹ سے کچھ چیزیں لینا ہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں چھٹی کر لوں؟ …. عامر مجھے لینے آئے ہیں۔“
”جی شوق سے ،اب کیپٹن عامر آپ کو لینے آ ہی گئے ہیں تو ٹھیک ہے …. جائیے۔“ افشیں مسکرائی کیپٹن عامر نے میرے لہجے کے طنز کو بھانپتے ہوئے جلدی سے اٹھ کر اجازت چاہی۔ ”اجازت؟“ ”بھلا اجازت کی ضرورت یہاں کس کو ہے؟ “ میں بڑبڑایا اس وقت تک افشیں کیبن سے باہر جا چکی تھی۔ میں اس روزبیحد چھوٹے پن کا مظاہرہ کر رہا تھا ”لوبھئی مولانا کپتان صاحب آ گئے ہیں …. یہ لڑکی گئی تمہارے ہاتھ سے“ میں نے سوچا اور کرسی پر بیٹھ کر ماتھے سے پسینہ پونچھنے لگا ۔
افشیں نے آخر وقت تک مجھے سالگرہ میں مدعو نہیں کیا تھا …. بمشکل میں نے اپنے سیکشن کا کام مکمل کیا اور بینک سے باہر نکل گیا۔ راستے میں بیکری کے آگے ایک کار میں مَیں نے افشیں کو دیکھا کیپٹن عامر پچھلی سیٹ پر ایک بڑا سا کیک رکھوا رہا تھا۔ پھولو ں کے گجرے والا لڑکا افشیں کی کھڑکی کے ساتھ کھڑا اسے گجرے دے رہا تھا۔ میں نے گھڑی دیکھی افشیں کو بینک سے نکلے دو گھنٹے ہوچلے تھے وہ یہ پورا وقت کیپٹن عامر کے ساتھ گھومتی رہی ہو گی ”میں نے سوچا“ اور مجھے کہہ رہی تھی کہ ”گھر جانے کی جلدی ہے“ میرا دل بجھا ہوا تھا اور گولف پر جانے کوطبیعت بالکل مائل نہ ہو رہی تھی مگر میں بریگیڈئر آفندی کے مشورہ پر عمل کرنا چاہ رہا تھا کہ” اگر غصہ آئے تو گولف کے بال پر نکالو …. تمہاری گیم اچھی ہو جائے گی ….“ میں غصے میں گولف کورس کی طرف چل پڑا۔
پارکنگ میں بریگیڈئر آفندی مل گئے۔ میں ان سے نظر بچا کر نکلنا چاہ رہا تھا کہ انہوں نے آواز دی اور کہا کہ ”آج آپ میری فلائٹ میں کھیلیں گے“ ۔ ”عجیب بات ہے یہ باپ بیٹی ہر وقت حکم صادر کرتے رہتے ہیں۔“ میں نے سوچا مگر انکار کی گنجائش نہیں تھی۔ میں اگرچہ بیحد مایوس تھا مگر دل میں ایک خواہش ابھر رہی تھی کہ شاید اب بھی افشیں کا میسج آ جائے کہ ”میری برتھ ڈے میں شرکت کرو۔“ میں نے جیب میں رکھے موبائل کی گھنٹی کی آواز فل کر دی کہ ایسا نہ ہوکہ گھنٹی بجے اور مجھے آواز نہ آئے۔
بریگیڈئر آفندی نے مجھے پہلی شاٹ لگانے کی دعوت دی۔ میں نے بال ٹی پر رکھا اور ابھی Stance لے رہا تھا کہ بریگیڈئر صاحب بولے ”تم نے ’زین گولف‘ (Zen Golf) کے بارے میں کبھی سنا ہے؟“ میں نے انکار میں سر ہلایا تو وہ گویا ہوئے ”گولف اپنے مقاصد کے حصو ل کی بہترین پریکٹس ہے انسان اپنے ہدف کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو ہم لوگ ہول کے ساتھ کرتے ہیں۔ کم سے کم شارٹس میں بال ہول میں ڈالنا اور اس ہدف تک جانے کے لیے پریکٹس سے زیادہ اعتماد اور توجہ کا ارتکاز ضروری ہے“ میں نے بسم ﷲ پڑھی اور محسوس کیا کہ ٹی کے اوپر بال نہیں بلکہ افشیں ہے۔ میں نے ایلومینیم کی وڈ شانوں سے اوپر لے جا کر شاٹ لگائی اور پورا ”فالو تھرو“ دیا ”شاٹ“ بریگیڈئر صاحب چلائے آس پاس کے سب لوگوں نے تالیاں بجائیں ”ونڈر فل“ بریگیڈئر آفندی بولے ”آپ اب اچھے گولفر بن گئے ہیں۔“ یہ اچھا شگون تھا میرا بال فیئر وے کے وسط سے بھی آگے جا کر رکا تھا۔ اسی لمحے موبائل کی گھنٹی بجی میں خوش ہو گیا کہ شاید افشیں کی کال ہومگر رانگ نمبر تھا۔ پھر مایوسی کے بادل چھا گئے ۔ فیئر وے میں ایک بورڈ لگا تھا When you think that you have got the game, game gets you مجھے یہ قول خود اپنے اوپر صادق ہوتا نظر آ رہا تھا۔ مجھے علم نہیں کیسے میں نے 9 ہول کھیلے نجانے بریگیڈئر آفندی کیا بول رہے تھے؟ میں روبوٹ کی طرح گولف کھیل رہا تھا کوئی شاٹ اچھی لگ جاتی اور کوئی بالکل نکمی۔ آخر بریگیڈئر آفندی نے بھی محسوس کر لیا کہ میں غیر حاضر دماغی سے کھیل رہا ہوں وہ بولے ”آج آپ Stress میں لگ رہے ہیں۔ گیم کے بعد جائیے گا نہیں آپ سے کام ہے“ میں بیسیوں بار موبائل چیک کر چکا تھا کہ شاید افشیں کی طرف سے کوئی Missed Call یا میسج آیا ہو مگر سکرین بالکل صاف تھی بریگیڈئر آفندی میرے پاس آئے اور بولے ”آپ گاڑی میرے ڈرائیور کو دے دیجئے اور میرے ساتھ آئیے آپ کو ایک جگہ لے کر جانا ہے۔“ میں حیران ہوا کہ بریگیڈئر صاحب مجھے کہاںلے جا رہے ہیں بادل نخواستہ ان کے ساتھ بیٹھ گیا گاڑی چھاؤنی کے مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی بریگیڈئر صاحب کی رہائش گاہ تک پہنچ گئی۔ میں نے بہت کہا کہ ”میں مناسب لباس میں نہیں ہوں اور مجھے یہاں مدعو بھی نہیں کیا گیا لہٰذا مجھے اجازت دیجئے“ مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔
گاڑی پورچ میں کھڑی ہوئی تو کیپٹن عامر نے دروازہ کھولا۔ لان میں تقریب ہوا ہی چاہتی تھی صرف بریگیڈئر صاحب کا انتظار ہو رہا تھا۔ افشیں ایک بڑی سی چھری لیے کھڑی تھی مجھے دیکھا تو پیٹ میں بھونکنے کے انداز میں لہرائی۔ ہم سب میز کے گرد جمع ہو گئے ۔ افشیں نے کیک کاٹا اور پلیٹ میں کیک کا ایک بڑا سا ٹکڑا رکھ کر اعلان کیا کہ ”اس کا سب سے زیادہ حقدار میرا باس ہے“ اور وہ پلیٹ میری طرف بڑھا دی دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ بریگیڈئر آفندی نے اعلان کیا کہ ”افشیں سرپرائز دینا چاہتی تھی میں انہیں گولف کلب سے کھیلتے ہوئے سیدھا یہاں لے آیا اس لیے یہ گولف کے لباس میں شریک ہیں۔ یہ صرف افشیں کے باس ہی نہیں بلکہ ہمارے خاندان کے سب سے زیادہ ہردلعزیز مہمان ہیں۔“ ایک بار پھر تالیاں بجنے لگیں۔ سامنے کیپٹن عامر اپنی خوبصورت بیوی کے ساتھ کھڑا تھا ایک پیارا سا بچہ اس کی گود میں تھا اور وہ بھی اپنے ننھے ننھے ہاتھوں کے ساتھ تالی بجا رہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ سالگرہ کی یہ دعوت دراصل بریگیڈئر آفندی کے دوستوں اور قریبی حلقوں میں میری رونمائی کی تقریب ہے۔ میں اس لمحے بیحد خوش تھا۔ مہمانوں کے ہجوم میں میجر طلحہ آگے بڑھے وہ ایک ٹوکری اٹھائے ہوئے تھے جس کے اوپر رومال رکھا تھا بریگیڈیئر آفندی نے رومال ہٹا کر دیکھا، سفید سفید انڈے لگ رہے تھے۔ مَیں حیران ہو کر بولا میجر صاحب یہ تازہ انڈے کہاں سے آئے ہیں۔ وہ کھسیانے ہو کر بولے آج ہی تالاب کی صفائی کرائی ہے…. وہ گولف کے بال تھے۔ افشیں میری طرف آئی اس کے ہمراہ بریگیڈئر آفندی تھے میرا دیا ہوا تحفہ اس کے ہاتھ میں تھا جس کے اوپر گلاب کے سرخ رنگ کے خوبصورت پھولوں کا گلدستہ رکھا ہوا تھا۔افشیں اور بریگیڈئر آفندی نے میری آمد تحفے اور پھولوں کا شکریہ ادا کیا۔ واپس جاتے ہوئے افشیں مڑ کر آئی اور کہنے لگی ”آج کیسا گولف کھیلے میرے جیلس محبوب؟“ "I think very bad” اسے نجانے کیسے علم ہوگیا تھا کہ میں اس قدر حاسد ہوں۔ میں دراصل حاسد ہی نہیں کم ظرف بھی تھا اور ابھی افشیں کو اعلیٰ ظرف انسان بنانے کے لیے مجھ پر بہت محنت کرنا تھی۔
( مکمل )
فیس بک کمینٹ