چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے آج منعقد ہونے والی جوڈیشل کانفرنس میں اپنی اور ججوں کی سکیورٹی کم کرنے کی نوید سنائی ہے۔ تاہم اس خبر کے ساتھ یہ معلومات بھی سامنے آئی ہیں کہ سرکاری پروٹوکول کے مطابق اسلام آباد کے ریڈ زون میں بھی جب چیف جسٹس یا جج حضرات کو کہیں جانا ہوتا ہے تو سکیورٹی کی 8 گاڑیاں ہر جج کے ہمراہ ہوتی ہیں۔ اب چیف جسٹس کے اصرار پر دارالحکومت کے ریڈ زون میں ان کی تعداد 2 کردی گئی ہے۔
یہ ایک دلچسپ انکشاف ہے۔ اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ کسی حکومت یا ملکی نظام کو ججوں کی حفاظت کی اس قدر فکر ہے تو دیگر ارباب اختیار کی سلامتی کے لیے کیا کیا اقدامات نہیں کیے جاتے ہوں گے۔ وزیر اعظم کی بات تو جانے دیں لیکن اگر وفاقی کابینہ کے ہر وزیر کو سپریم کورٹ کے جج جتنی سکیورٹی بھی ملتی ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سرکاری خزانہ پر ’عوامی حکومت‘ کے نمائیندوں کی حفاظت کے لیے کتنا بوجھ پڑتا ہے۔ یہاں یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ مجموعی قومی بجٹ اور حکومتی اخراجات کے تناظر میں یہ مصارف شاید بہت زیادہ نہ ہوں لیکن پاکستان جیسی مالی مشکلات کا سامنا کررہاہے اور وزیر اعظم جیسے قومی بچت اور کفایت شعاری پر اصرار کرتے رہتے ہیں، اس کی روشنی میں ایسی بھاری بھر کم سکیورٹی اور سرکاری پروٹوکول کا کیا جواز ہے؟
تاہم حکومتی ارکان کی سکیورٹی کے حوالے سے چونکہ واضح معلومات پیش نظر نہیں ہیں ، اس لیے اس گفتگو کو ججوں کی سکیورٹی کے معاملہ تک محدود رکھتے ہیں، جس کے بارے میں خود چیف جسٹس نے جوڈیشل کانفرنس کے دوران معلومات فراہم کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب انہیں ریڈ زون میں بھی ایسی بھاری سکیورٹی فراہم کی گئی تو انہوں نے متعلقہ حکام سے ملاقات کی اور انہیں ’خدا کا خوف‘ کھانے کا مشورہ دیتے ہوئے اس میں کمی کرنے کا کہا۔ اس ملاقات کے نتیجہ میں ججوں کی سکیورٹی کے ذمہ داران سپریم کورٹ کے ججوں کی ریڈ زون میں سکیورٹی کو کم کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اب ہر جج کو حفاظت کے لیے دو گاڑیاں اور شاید سات آٹھ افراد کا عملہ ہمہ وقت ’حفاظت‘ کے لیے دستیاب رہتا ہے۔
البتہ یہ صورت حال اب بھی صرف ریڈ زون تک ہی محدود ہے کیوں کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود ہی فرمایا ہے کہ جج ریڈ زون میں ہی رہتے ہیں اور وہیں پر ان کے کام کی جگہ یعنی سپریم کورٹ واقع ہے لہذا اس ’محفوظ‘ علاقے میں ججوں کو زیادہ سکیورٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اگر وہ شہر سے باہر جائیں تو صورت حال مختلف ہوسکتی ہے۔ گویا اب بھی یہ امکان موجود ہے کہ عدالت عظمی کے جج جب ریڈ زون سے باہر قدم رنجہ فرمائیں گے تو آٹھ دس گاڑیاں اور دو تین درجہ عملہ ان کی حفاظت کے لیے مامور ہوگا۔ تاہم اس حوالے سے چند دلچسپ سوالات جواب طلب ہیں۔
ان میں سر فہرست تو یہ ہے کہ اگر اسلام آباد کا ریڈ زون خاص طور سے محفوظ ہے کہ چیف جسٹس اس علاقے میں گھومتے ہوئے کسی غیر معمولی سکیورٹی یاحفاظتی قافلے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو ملک کے باقی علاقوں اور وہاں رہنے والے شہریوں سے کیا جرم سرزد ہؤا ہے کہ وہاں پر جان و مال کا ویسا تحفظ فراہم نہیں ہوسکتا جس سے بقول چیف جسٹس ریڈ زون میں استفادہ کیا جارہا ہے۔ یہ سوال صرف حکومت کی اتھارٹی اور گورننس پر ہی سوالیہ نشان نہیں اٹھاتا بلکہ چیف جسٹس کے اصول انصاف سے بھی درمندانہ غور کا متقاضی ہوگا کہ اگر سپریم کورٹ بھی ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے اور سب شہریوں کو مساوی طور سے حفاظت کا احساس دلانے کے لیے کردار ادا نہیں کرسکتی تو پھر ’انصاف‘ کے لیے عام شہری کہاں جائے؟ یا اسی عدم مساوات اور عدم تحفظ کو تقدیر کا لکھا جان کر تسلیم کرلیا جائے؟ پھر اعلیٰ عدلیہ کی خود مختاری ، اصلاحات اور عوامی ضرورتیں پوری کرنے کی خواہش جیسے وعدوں سے کیا نتیجہ اخذ کیاجائے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ جب آٹھ گاڑیا ں اور دو درجن سکیورٹی کا عملہ کسی جج کی گاڑی کے آگے پیچھے روانہ ہوگا تو اس سے صرف حفاظت ہی مقصود ہے یا یہ قافلہ درحقیقت ایک خاص عہدے پر فائز شخص کی شان و شوکت کی علامت کے طور پر تیار کیا جاتا ہے؟ کیا ٹھاٹھ باٹھ اور آن بان کے اس اظہار سے ملک کے عوام اور خاص عہدوں پر فائز لوگوں کے درمیان غیر ضروری فاصلہ پیدا نہیں کیا جاتا۔ جس سے ریاست کی تمکنت تو ظاہر ہوتی ہے لیکن ’حفاظت‘ کا حقیقی مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ لوگ پھر ججوں یا ایسے ہی شاہانہ پروٹوکول سے استفادہ کرنے والے دیگر سرکاری عہدیداروں سے اجنبیت محسوس کریں گے۔ اب ان کی بلا سے کہ ایسے کسی شخص کے ساتھ کیا حادثہ پیش آتا ہے۔ ملک کی منتخب حکومتیں تو روائیتی طریقوں کو ترک کرنے یا ان پر نظر ثانی پر آمادہ نہیں ہوتیں ، اس لیے ججوں سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ جن لوگوں کو انصاف دینے کی مسند پر فروکش ہیں، ان سے فاصلہ پیدا کرنے والے پروٹوکول سے کیسے اعتبار و احترام کا رشتہ استوار کرسکیں گے؟ اور جج اور عام شہری میں احترام کا یہ رشتہ استوار نہیں ہوگا تو نام نہاد حفاظت کا مقصد کیسے حل ہو گا؟
اسی حوالے سے تیسرا اہم نکتہ سکیورٹی کے اس فرسودہ اور ناقص طریقہ کار کے بارے میں ہے۔ ملک میں سینکڑوں ججوں و سرکاری افسروں کو ’فول پروف‘ سکیورٹی دی جاتی ہے لیکن کیا بتایا جاسکتا ہے کہ اگر خدا نخواستہ حفاظتی دستے کی معیت میں جانے والے کسی جج پر حملہ ہوجاتا ہے تو سکیورٹی اہلکار کیسے اس کی جان بچائیں گے؟ جج صاحب اپنی لیموزین میں فروکش ہوتے ہیں اور سکیورٹی عملہ ہارن بجاتا گاڑی کے آگے پیچھے لوگوں کو ہٹو بچو کی ہدایت کرتا مصروف عمل ہوتا ہے ۔ ایسے میں کسی ٹارگٹڈ حملہ کو ناکام بنانا تقریباً ناممکن ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ ایسے کسی افسوسناک وقوعہ کی صورت میں حملہ آور کا نشانہ چوک جائے اور جج کی بجائے کوئی سکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوجائے اور اسے سکیورٹی کی کامیابی قرار دیا جائے۔ حقیقی حفاظت یا تو احترام و محبت کا رشتہ استوار کرنے سے ممکن ہوسکتی ہے۔ یا پھر اس کے لیے مناسب اور مؤثر انٹیلی جنس کا نظام موجود ہو جو کسی جج یا سرکاری عہدیدار کو بروقت کسی خطرے کے بارے میں مطلع کرسکے۔ بصورت دیگر حفاظتی قافلہ خواہ جتنا بھی لمبا کرلیا جائے، اس سے سکیورٹی کا مقصد پورا نہیں ہوسکتا۔ یوں بھی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کو جو اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے، وہ بیشتر صورتوں میں ناقص اور آؤٹ ڈیٹڈ ہوتا ہے جو کسی مبینہ حملہ آور کو دستیاب ہتھیاروں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے معزز جج حضرات ریڈ زون میں دو اور اس سے باہر آٹھ گاڑیوں کے حفاظتی قافلے کی معیت میں ہی خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ لیکن جب یہی جج حضرات بیرون ملک سفر کرتے ہیں تو ان کی حفاظت کا انتظام کیسے ممکن ہوتا ہے؟ کیا غیر ملکی حکومتیں بھی پاکستان کی درخواست پر معزز ججوں کو ویسا ہی سکیورٹی پروٹوکول فراہم کرتی ہیں؟ ظاہر ہے ایسا ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ دنیا کے بیشتر مہذب ممالک میں جج تو کیا کسی بھی سرکاری عہدیدار یا سیاست دانوں کو ایسا غیر معمولی سیکورٹی پروٹوکول فراہم نہیں کیاجاتا۔ اس لیے پوچھنا بھی چاہئے اور سوچنا بھی چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے ججوں کو اپنے ملک میں تو خطرہ لاحق رہتا ہے لیکن بیرون ملک نہ تو انہیں کوئی خطرہ ہوتا ہے اور نہ ان ملکوں کے ججوں کے مسلح قافلے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اگر امریکہ ، برطانیہ و دیگر مغربی ممالک کے جج کسی سکیورٹی کے بغیر اور اکثر صورتوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے عدالت تک بحفاظت پہنچ جاتے ہیں تو پاکستانی جج یہ حوصلہ کیوں نہیں کرسکتے؟
اس سوال کا جواب خاص طور سے سپریم کورٹ کے ان چار معزز ججوں سے پوچھنا چاہئے جنہوں نے ملکی نظام کی اصلاح کے لیے ہر معاملہ میں چیف جسٹس کو ’کھلا خط‘ لکھ کر احتجاج رجسٹر کرانے اور حالات درست کرانے کی قسم کھائی ہے۔ سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کی قیادت میں جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ نے آج بھی فل کورٹ کے اجلاس میں شرکت کرنے کی بجائے ایک خط کے ذریعے چیف جسٹس کو بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کے باقی 19 ججوں نے متفقہ طور سے عدالت عظمی ٰ کے رولز میں تبدیلی کی جو دستاویز منظور کی ہے، یہ چاروں اسے خلاف آئین اور ناجائز سمجھتے ہیں۔ گویا ایک اعلیٰ عدالتی منصب پر فائز ان چا رمعزز ججوں نے واضح کیا ہے کہ انہیں سپریم کورٹ میں بھی اکثریت کے فیصلے ماننے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ رولز میں تبدیلی کے طریقہ پر احتجاج کا علم بلند کرنے والے یہ معزز جج نہ تو مالی مفادات میں اضافے پر انگلی اٹھائیں گے اور نہ ہی سکیورٹی پروٹوکول سمیت کسی دوسری سہولت کو لینے سے انکار کریں گے۔ لیکن ببانگ دہل اکثریت کے عمومی اصول کو ماننے سے انکارکرہے ہیں۔
یہ بھی نوٹ کیا جاسکتا ہے کہ یہ سارے جج کس سیاسی سوچ کے حامل ہیں؟ اور اس سیاسی سوچ نے ملک میں کون سا کلچر عام کیا ہے؟
( بشکریہ :کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ