ایکسپو سنٹر لاہور میں کتاب میلہ اپنے اختتام پر ہے، آج آخری شام ہے۔ بک ایکسپو نے اس بار میری زندگی میں کئی نئے، بڑے خوشگوار، دل آویز رنگ گھولے ہیں۔ پچھلے تین برسوں سے ہر بار بچوں کو بک ایکسپو میں لے کر جاتا اور دل میں یہی سوچتا کہ اگلی بار میری کتاب بھی یہاں موجود ہوگی۔ اس بار رب تعالیٰ کی مہربانی سے ایسا ہوگیا اور میرے کالموں کا انتخاب ’’زنگار‘‘ ایکسپو سے ایک دن پہلے شائع ہوگیا۔ دوست پبلشر جنہوں نے میری کتاب شائع کی، انہوں نے اس بار سٹال نہیں لگایا، اور جنگ پبلشر کے سٹال پر کتابیں رکھوائیں۔ کل میں نے سٹال سے پتہ کیا تو بتایا گیا کہ الحمدللہ زنگار کو غیر معمولی پذیرائی ملی۔ نئی کتاب جس کی باقاعدہ پبلسٹی نہ ہوئی ہو، جس کے پبلشر کا سٹال ہو نہ اس کے لیے کوئی فلیکس، پوسٹر وغیرہ لگایا گیا ہو، اس کا اتنی تیزی سے فروخت ہونا جنگ پبلشر کا سٹال لگانے والے صاحب کے لیے حیرت انگیز تھا۔ انہوں نے دو تین معروف لکھنے والوں کے نام گنوائے کہ ان کی کتاب اتنے عرصے میں صرف اتنی فروخت ہوئی جبکہ زنگار ایک دن میں اس قدر زیادہ نکل گئی۔ اس پراللہ کا شکر ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔ وہی ایک ہستی ہے جو مجھ جیسے گناہ گاروں کا بھرم رکھتی اور شرمندہ ہونے سے بچاتی ہے۔ الحمداللہ رب العالمین۔ دلچسپ بات یہ پتہ چلی کہ بیشتر لوگ کتاب خریدنے کے ساتھ مصنف کے دستخط کے خواہش مند بھی تھے۔ سٹال والوں کے مطابق ایسا بھی ہوا کہ کچھ لوگ آئے اور پھر جب معلوم ہوا کہ مصنف موجود نہیں تو پھر واپس چلے گئے کہ کل آئیں گے۔ یہ بھی ہوا کہ بعض دوستوں نے گھنٹوں انتظار کیا۔ یہ امر کتنا دل خوش کن ہوتا ہے کہ کوئی آپ کی تحریر کی وجہ سے فین ہے، کتاب پر دستخط کرانا، سیلفی بنانے کا دل سے خواہش مند ہے اور اسے اپنے لیے باعث تفاخر سمجھتا ہے۔ میرے جیسا عام اخبارنویس، اوسط درجے کا لکھاری اس پر اپنے قارئین کا شکرگزار ہی ہو سکتا ہے۔ آپ سب کی محبتوں کا میں قرض دار ہوں۔ اللہ آپ کے لیے آسانیاں عطا فرمائے، آمین فیس بک نے کتاب کی پذیرائی میں بڑا حصہ ڈالا۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ کتاب شائع ہونے سے چند دن پہلے ہی روزنامہ دنیا چھوڑ دیا ۔ نیا اخبار آنے میں ابھی کچھ وقت لگ جائے گا۔ دنیا اخبار میں لکھنے والے دوست، سینئر عام حالات میں تو شاید کتاب پر کالم وغیرہ لکھ دیتے، اب ان کے لیے ممکن نہیں تھا، کوئی اور اخبار ویسے ہی کوریج نہیں دیتا۔ ایسے میں صرف فیس بک ہی پلیٹ فارم بچا تھا۔ اس کو میں نے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ فیس بک والوں نے اب ریچ بہت کم کر دی ہے۔ پوسٹ بہت کم لوگوں کو دکھائی دیتی ہے۔ اب جیسے میری وال پر پانچ ہزار فرینڈز ہیں اور بارہ ہزار کے قریب لوگ فالو کر رہے ہیں، مگر میری پوسٹ ان سترہ ہزار لوگوں کو نظر نہیں آئے گی، فیس بک اسے بمشکل ہزار بارہ سو تک ہی پہنچاتا ہے۔ مقصد اس کا یہ ہے کہ اپنی پوسٹ کو پروموٹ کرنے کے لیے ڈالر خرچ کیے جائیں۔ اس لیے اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ کسی معاملے کی تشہیر کرنی ہو تو اس پوسٹ یا سٹیٹس کو دیگر دوست اپنی وال پر شیئر کریں اور زیادہ بہتر یہ ہوتا ہے کہ کاپی پیسٹ کر کے وال پر علیحدہ سٹیٹس بنائیں تاکہ زیادہ لوگ دیکھ سکیں۔ میں اپنے فیس بک فرینڈز کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے میرے سٹیٹس اور پوسٹیں شیئر کیے۔ بعض دوست ریویوز بھی لکھ رہے ہیں۔ آج صبح برادرم رعایت اللہ فاروقی نے اپنے مخصوص انداز میں بڑی دلکش پوسٹ لکھی۔ کتاب پڑھنے والے دیگر دوستوں سے یہ کہوں گا کہ اسے پڑھنے کے بعد اپنی بے لاگ رائے ضرور دیں، تعریف یا تنقید جو بھی انہیں محسوس ہو۔ آدمی ہر واقعے، تجربے سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ کتاب کا آنا اور بک ایکسپو لاہور بھی ایک ایسا ہی تجربہ بن گیا۔ ان دوستوں نے محبت اور دل سے پوسٹ شیئر کی، ملنے وہاں پہنچے، دل وجاں سے دعا گو رہے، جبکہ ایسے بھی کچھ دوست ہیں جن سے زیادہ گہرا تعلق رہا، جن کے ساتھ اکثر و بیشتر چیٹ رہتی، فطری طور پر ان سے توقع بھی زیادہ تھی، مگر انہوں نے ایک سطر بھی لکھنا گوارا نہ کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں آج کل کالم نہیں لکھ رہا اور کتاب کی اطلاع پہنچانے کے لیے صرف فیس بک ہی پر انحصار کر رہا ہوں۔ ایسے تمام دوستوں کا شکریہ۔ ان کی بے نیازی، گریز اور نظرانداز کرنے کے رویہ نے بہت کچھ سکھایا ہے، اپنے اور غیر کی پہچان آسان بنا دی۔ خدا خوش رکھے۔ کوشش کروں گا کہ آخری شام بک ایکسپو کا چکر لگا لوں، کچھ کتابیں اپنے لیے خریدنی بھی ہیں، مگر آج سٹال والے سے اپنی کتاب کا نہیں پوچھوں گا۔ دوستوں نے، محبت کرنے والے قارئین نے اس کی ضرورت نہیں رہنے دی، ماشاءاللہ اتنی اچھی پذیرائی ملی کہ دل شاد ہوگیا ہے۔ اللہ آپ کے لیے آسانیاں عطا فرمائے ۔ آمین۔
(بشکریہ:دلیل ڈاٹ کوم)
فیس بک کمینٹ