چار فروری 2017ء کو بانو قدسیہ کا انتقال ہوا۔ ان کی یاد میں جو بھی مضامین تحریر کئے جا رہے ہیں ان میںبانو قدسیہ اور اشفاق احمد کو ایک مثالی ادبی جوڑی قرار دیا جا رہا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا کہ اشفاق احمد جو کچھ بھی تھے ان کے پیچھے بانو قدسیہ کا ایثار اور قربانی کارفرما تھی ۔ ایسی ہی ایک مثال ملتان میں بھی ہم نے دیکھی ۔ محترم عاصی کرنالی اور محترمہ ثمر بانو ہاشمی کی ادبی جوڑی ۔ محترمہ ثمر بانو ہاشمی کی زندگی مسلسل محنت سے عبارت تھی ۔انہوں نے عاصی کرنالی جیسے بڑے شاعر کے ساتھ زندگی بسر کی ۔ ہمارے معاشرے میں عمومی رویہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی شاعر یا ادیب کی زندگی اور کامیابیوں کا جب احوال بیان کرتے ہیں تو ان کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس عورت کے کردار کو فراموش کر دیتے ہیں جو اپنی بہت سی خوشیوں کو اپنے شوہر کی خوشیوں پر قربان کر کے اسے سربلند کرتی ہے۔عاصی صاحب کی کامیابیوں میں یقیناً ان کی اپنی محنت اور صلاحیتوں کا عمل دخل سب سے زیادہ تھا لیکن اس میں ایک خاموش کردار ثمر بانو ہاشمی نے بھی ادا کیا ۔نہ صرف یہ کہ انہوں نے اپنے شوہر کو تخلیقِ ادب کے لئے گھر میں ایک سازگار اور خوشگوار ماحول فراہم کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنا ادبی سفر بھی جاری رکھا ۔اور یہ کریڈٹ عاصی صاحب کا ہے جنہوں نے روایتی شوہر بننے کی بجائے اپنی شریکِ حیات کو تخلیقی اظہار کا بہترین موقع فراہم کیا ۔ ثمر بانو ہاشمی 1935ء میں کرنال میں پیدا ہوئیں ۔ان کے والد ڈاکٹر محمد اعلم ہاشمی خود شاعر تھے اور ان کے جدِ امجد بھی شعر کہتے تھے اور سلیس تخلص کرتے تھے ۔ یوں ثمر بانو ہاشمی کو ایک علمی اور ادبی ماحول ورثے میں ملا۔ سو انہوں نے بچپن میں ہی شعر گوئی شروع کر دی ۔خود لکھتی ہیں’’بچپن اور لڑکپن میں ان گنت شعر کہے، ردیف اور قافیے سے بےنیاز، ترنم کی آمیزش نے ربط اور وزن کا ادراک دیا تو حوصلہ بڑھا۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ پاک سرزمین نے خوابوں کی نوعیت بدل دی۔ زندگی کٹھن ہو گئی ۔ خواب ملیا میٹ ہو گئے ۔ نئی سرزمین، نئے تقاضے۔ گھر کا وہ خواب ناک اور پر سکون ماحول ’’خواب‘‘ بن گیا۔‘‘ اپنے شعری مجموعے ’’صرف خواب میرے ہیں ‘‘ کے پیش لفظ میں ثمر بانو ہاشمی نے تفصیل کے ساتھ اپنے شعری سفر کی کہانی بیان کی ہے۔ قیام پاکستان کے نتیجے میں ہجرت کے دکھ جھیلنے والوں میں ثمر بانو ہاشمی کا خاندان بھی شامل تھا ۔1947ء سے 1953ء تک کا عرصہ بہت کٹھن تھا۔والد بوڑھے ہو چکے تھے اور بھائی چھوٹا تھا ۔ گھر کو چلانا پردہ دار ثمر بانو ہاشمی اور ان کی بہن کی ذمہ داری ٹھہرا۔ ثمر بانو نے ہمت نہ ہاری اور حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری رہا اور اسی دوران عاصی کرنالی ان کی زندگی میں آئے۔ ایک نیا سفر شروع ہوا ۔تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا اور گھر داری بھی۔ ثمر بانو ہاشمی نے اردو اور فارسی میں ایم اے کیا ۔ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوئیں۔ قوم کی بیٹیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔ عاصی کرنالی اور ثمر بانو ہاشمی نے مل کر ملتان میں نئی شعری روایات قائم کیں۔ ثمر بانو ہاشمی نے خود بھی ادبی سفر جاری رکھا اور ملتان میں خواتین کے لئے ’’حریمِ فن‘‘ کے نام سے ادبی تنظیم بھی قائم کی۔ اس تنظیم کے ذریعے ملتان میں بہت سی خواتین قلمکاروں کو آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ ان کی مطبوعہ کتب میں ’’دل کی وہی تنہائی‘‘ (ناول)، ’’سلسلے درد کے‘‘ (افسانے) اور ’’صرف خواب میرے ہیں‘‘ (شاعری) شامل ہیں۔ نظم اور نثر دونوں میں وہ ہمیں عورت کے وقار اور سربلندی کی بات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ 7 فروری 2012ء کو یہ با وقار ہستی ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئی۔
فیس بک کمینٹ