ہم پاکستانیوں کی یوں تو ساری ہی عادتیں بری ہیں لیکن ایک بات بہت اچھی ہے جس کے بارے میں سارے سیاستدان اور غیر سیاستدان حکمران متفق ہیں۔ وہ یہ کہ یہ لوگ ہر مشکل کو بڑی استقامت سے برداشت کر سکتے ہیں۔ صورتِ حال اگر کچھ زیادہ ہی پریشان کن ہو تو اس پہ لطیفے بنا لئے جاتے ہیں، اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہو تو نظمیں لکھ دی جاتی ہیں، مزید بری ہو تو نظمیں لکھنے والوں کوہی غائب کر دیا جاتا ہے۔ایک دو بار صورتِ حال اس سے زیادہ بگڑی تو لطیفے بنانے اور نظمیں لکھنے والوں کو دائرہ اسلام سے باہر اور توہین کے برمودا مثلث میں پھینکنے کی دھمکی نے ہی معاملہ سلجھا دیا۔
محترم وزیرِ اعظم نے حلف اٹھانے کے بعد سے بارہا ایک نصیحت کی تھی کہ آپ نے گھبرانا نہیں۔ میرا ماتھا تب ہی ٹھنکا تھا۔ بھلا ایسے ڈھیٹ لوگوں کو جو سالہاسال کے اعلانیہ اور پس ِ پردہ مارشل لا، غربت، مہنگائی، لاقانونیت، اسلحہ کلچر، منشیات، جہالت اور پراکسی وار لڑنے پہ کبھی نہ بولے، کس بات پہ گھبراہٹ ہو گی۔
روز خبر آتی تھی کہ فلاں ادارہ بند کیا جارہا ہے، فلاں ادارے کے اثاثے نیلام کرنے پہ غور ہو رہا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے کئی سٹیشن بند اور مزید کئی بند کرنے پہ غور ہو رہا ہے۔ پی آئی اے، ریلویز اور پی ٹی وی کے اثاثوں پہ رال ٹپکائی جا رہی تھی۔بچت کی ایسی ترکیبیں جو اصغری خانم کو بھی نہ سوجھیں متعارف کرائی گئیں۔ افسوس کہ زمانہ وہ ماما عظمت نکلا، جو کسی اصغری کے بس کا نہیں۔ بھینسیں اور گاڑیاں بیچ کر خزانے میں جو پیسے جمع کرائے گئے وہ بھی ہمیں نالش سے نہ بچا سکے۔گھبراہٹ تو ہوئی لیکن فوراً سوچا، گھبرانا نہیں ہے۔مہنگائی کا جن تو پچھلے کئی ماہ سے بے قابو ہے ہی۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اب پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی خوفناک حد تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ متوسط طبقہ، جو کسی نہ کسی طرح سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے تھا،آمدن اور خرچ کے اس عدم توازن میں،’سر چھپائیں تو بدن کھلتا ہے’ کی تفسیر بن گیا ہے۔ ڈالر کی عمودی پرواز نے پاکستانی روپیہ کی قدرو قیمت اس حد تک گرا دی کہ روپیہ، روپیے کی خاطر گرنے والوں سے بھی نیچے گر گیا۔ ایشیا کی کمترین کرنسی اس وقت پاکستانی روپیہ ہے۔ سٹاک مارکیٹ کا بیل اس حد تک جھکا کہ لگتا ہے منہ کے بل جا پڑے گا۔ کاروباری افراد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔کرایوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ہر کاروبار خسارے میں جا رہا ہے۔ زمیندار بدحال ہے، مزدور پریشان، سرمایہ دار ڈرا ہوا ہے اور نوکری پیشہ اپنی نوکری برقرار رہنے کی دعا کر رہا ہے۔ میڈیا میں جو جس جگہ اور جس تنخواہ پہ بیٹھا ہے شکر کررہا ہے۔ آئی ایم ایف نے مونگ پھلیاں پکڑا کے ٹرخا دیا ہے۔ وہ ہیروں کی کانیں، وہ مونگے کے ٹاپو، وہ تیل کے کنوئیں اور اربوں روپے کی تھیلیاں، جن کے وعدے کیے گئے تھے جانے کون سے پہاڑوں کے پار جا پڑے۔کابینہ میں جو تبدیلیاں کی گئیں ان سے اتنا ہوا کہ فواد چودھری پہ بنائے گئے لطیفوں کے زور پہ چند ہفتے اور گزر گئے۔ لیکن کب تک؟ محترمہ فردوس عاشق اعوان کو لانے کا مقصد تو سمجھ آ گیا ہے۔ انھوں نے ہر سوال کے جواب میں ایک ہی بات کہنی ہے، ان سے پوچھیں نا جو یہ حال کر کے گئے ہیں، ہم تو ابھی ابھی آئے ہیں۔ اس جملے میں معانی کا جہان پوشیدہ ہے۔ صرف ذرا سی دانشمندی کی ضرورت ہے۔حکومت کا کردار تو سامنے ہے لیکن ہم ایسے بد نصیب ہیں کہ ہماری اپوزیشن بھی ہمارے لیے کچھ نہیں بول رہی۔ سانحہ ساہیوال ہو یا ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال، اپوزیشن کا کردار مثالی تو کیا روایتی بھی نہیں رہا۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی خاص وجہ سے چپ ہے۔ اب خبر آ ئی ہے کہ بلاول بھٹو نے، مریم نواز کو افطاری پہ بلایا ہے۔ کافوری سروں والے مبصروں کو یہ بہت خوش آئند پیش رفت لگ رہی ہے۔مگر سچ پوچھیں تو،مجھے نہ ہی مہنگائی پہ گھبراہٹ ہوئی، نہ ہی روپیے کے گرنے پہ اس قدر ڈر لگا، جس قدر اس افطاری کا سن کر لگا۔ پچھلے بہتر سال کی تاریخ سے اچھی طرح ثابت ہو چکا ہے کہ جب بھی کسی بادل کے پیچھے کوئی نقرئی حاشیہ نظر آتا ہے تو وہ سورج نہیں، عوام پہ ٹوٹنے والی کوئی نئی آفت ہی ہوتی ہے۔ جانے اپوزیشن کو یہ گرین سگنل کیوں ملا ہے۔گھبراہٹ نہیں اب تو باقاعدہ اختلاج ہو رہا ہے۔ لیموں کو رونے والو! دیکھنا کوئی روٹی ہی نہ اچک لے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ