وہ نیوٹرل کیا ہوئے کہ جانور ہی ہو گئے۔ اُنھیں اب نیوٹرل ہوئے کافی دن ہو گئے ہیں۔ وہ جو سیاست کا محور اور مرکز ہیں، اب نہ یہاں ہیں نہ وہاں ہیں۔
نیوٹرل ہونا بھی ایک کیفیت ہے جو مزاجِ اشرافیہ کا وہ خاصہ ہے، جو پہلی بار منظرِ عام پر آیا ہے۔ یہاں بات سڑکوں تک پہنچ گئی ہے اور وہ نیوٹرل ہو گئے ہیں۔ چلیں کچھ تو بہتر ہوا کچھ دیر کو ہی سہی۔
مقتدرہ کا نیوٹرل ہونا کسی اچنبھے سے کم نہیں اور خاص طور پر وہ جو کبھی نیوٹرل رہے ہی ناں ہوں۔ بہرحال اب وہ کب تک نیوٹرل رہیں گے اس بارے میں کم از کم حالات خاموش ہیں۔
ویسے عین اُس وقت نیوٹرل ہو جانا بھی عجیب ہے کہ جب ہر پارٹی اپنی جانب کھینچ رہی ہو اور وہ جو حالات کو یہاں تک لے آئے ہوں چُپ سادھ لیں۔ جن کو پیار سے لائے تھے وہ بے وفائی برداشت کر نہیں سکتے اور جنھیں اس بات کا زُعم ہو کہ اُن کے بنا پاؤں پاؤں چلنے والا بچہ جوان ہو نہیں سکتا۔۔۔ اور جوانی بھی مُنھ زور۔۔ تو پھر لاتعلقی کا اشتہار اخبار میں چھپ سکتا ہے۔
ماحول میں اچانک تلخی آ گئی ہے۔ لہجوں کی کڑواہٹ نے بہار کو بھی تلخ بنا دیا ہے۔ گالم گلوچ، طعن و تشنیع اور دھمکی کی فضا میں شائستگی اور رواداری تو جیسے ناپید ہی ہو گئی ہے تاہم عدم اعتماد کی تحریک کے آئینی اقدام کو اب جس انداز میں حکومت طے کرنا چاہتی ہے وہ خطرناک بھی ہے اور پریشان کُن بھی۔
کھیل جیتنے کی آرزو اور امپائر کو اپنے ساتھ ملانے کی ضد میں میدان ہی ہاتھ سے نہ نکل جائے، حکومت کو اس کا شاید احساس نہیں۔ دھونس اور دھاندلی کی بنیاد پر فیصلے کب نیوٹرل ہوا کرتے ہیں اور جنھیں اس کی عادت ہو وہ کھیل کے اصول صرف اپنی جیت کے لیے ہی طے کرتے ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت مشکل میں اور مقتدرہ بند گلی میں ہے۔
ستر سال سے ڈوریاں ہلانے والوں کی ڈوریاں کیا چھوٹیں کہ غلام گردشوں میں پلنے والی سیاسی جماعتیں آزاد فیصلے کرنے کے قابل ہی نہیں رہیں۔
گذشتہ چار سال میں بظاہر حالات اور واقعات سے سیکھنے والی سیاسی جماعتیں پہلی بار اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیصلوں کی ڈور ہاتھ سے پھسل رہی ہے اور ہاتھ ہو جانے کا تذبذب اعتماد کو ڈانواں ڈول کر رہا ہے۔ اتحادی بہک گئے ہیں مگر اتحاد میں ہیں اور الحاق عدم اعتماد کا شکار ہے۔
ہمیشہ سیاسی مداخلت کرنے والے پہلی بار سیاست سے دور ہونے کی تگ و دو میں ہیں اور نگاہ میں ہے کہ اس وقت دوری اور لاتعلقی میں ہی فائدہ ہے۔ چار سال کے ہائبرڈ تجربے نے سیاست اور ریاست دونوں کو ایک ایسی جگہ لا کھڑا کیا ہے، جہاں کسی ایک کو پیچھے ہٹنا تھا۔۔۔ سو ریاست نے اہم فیصلہ لیا۔
تحریک عدم اعتماد کی آئینی کوشش میں تصادم کہاں سے در آیا اور کون کوشش کر رہا ہے یہ صاف ظاہر ہے۔ عوامی اعتماد کے لیے پارلیمان کو یرغمال بنانا نہ جمہوری رویہ ہے اور نہ ہے اس کی کوئی ستائش ہو سکتی ہے۔
ڈی چوک پر نکلنے والی ریلیوں اور حکومت کی جانب سے 172 کی بجائے دس لاکھ لوگ لانے کا اعلان یوں ہی ہے جیسے گھر کے لوگوں کو چھوڑ کر بازار میں اپنوں کی تلاش کی آواز لگائی جائے۔ دوسری جانب پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی عوام کو تیار رہنے کی اپیل، پی ڈی ایم کا 23 مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان صورتحال کو گھمبیر کر رہا ہے ایسے میں کون نیوٹرل ہو گا اور تصادم کیا رنگ لائے گا اس کی ضمانت کسی کے پاس نہیں۔
معاملات ایک بار پھر عدالتوں میں جا سکتے ہیں، سیاسی معاملات پر بڑے بڑے فیصلے کرنے والی عدلیہ شاہراہ دستور کو یرغمال بنانے سے روکنے کے لیے نیوٹرل رہے گی یا نہیں یہ دیکھنا بھی اہم ہو گا۔
ہر چیز کو متنازع بنانے کی صلاحیت رکھنے والی حکمران جماعت اپوزیشن کے اس آئینی حق کو کس حد تک متنازع بنا دے گی شاید کسی کے گمان میں نہ ہو مگر اس بار سیاسی جماعتوں نے اپنی ساری کشتیاں جلا دی ہیں جبکہ حکمران تحریک انصاف کے آگے سمندر اور عقب میں کھائی ہے۔
سب جان کی بازی لگانے کو تیار ہیں، آگ کا کھیل گلی کوچوں تک آ پہنچا ہے۔ شاید نیوٹرل کھیل میں کود ہی پڑیں اور پھر نہ جانے کس ڈھب یہ تماشا ختم ہو گا؟
(بشکریہ: بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ