آسٹریلوی کرکٹ امپائر ڈیرل ہیئر کا نام سنتے ہی یقیناً پاکستانی شائقین کے ذہنوں میں سال 2006 میں انگلینڈ کے خلاف کھیلا گئے اوول ٹیسٹ کی تلخ یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔
یوں تو ڈیرل ہیئر کو بین الاقوامی امپائرنگ چھوڑے ہوئے 13 سال ہو چکے ہیں لیکن انھیں اب بھی ایک متنازع امپائر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
اس کی وجہ صرف اوول ٹیسٹ ہی نہیں کیونکہ ڈیرل ہیئر سے منسلک تمام ہی تنازعات کا تعلق دیگر ایشیائی ٹیموں اور ان کے کھلاڑیوں سے بھی تھا۔
اس مضمون میں ہم متنازع آسٹریلوی امپائر سے جڑے تنازعات کا جائزہ لیں گے اور شائقین کے ذہنوں میں گردش کرنے والے اس سوال کا جواب بھی تلاش کریں گے کہ آخر ایشیائی ٹیمیں ہی کیوں ان کا نشانہ بنیں؟
مرلی دھرن کے بولنگ ایکشن پر اعتراض
سنہ 1995 میں سری لنکا کی ٹیم آسٹریلیا کے خلاف میلبرن ٹیسٹ میں مدمقابل تھی۔
آف اسپنر ُمتایا مرلی دھرن بولنگ کررہے تھے کہ بولنگ اینڈ پر کھڑے امپائر ڈیرل ہیئر نے نوبال کا اشارہ دے دیا جو دراصل مرلی دھرن کے بولنگ ایکشن کے غیرقانونی ہونے کا اعلان تھا۔
میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں موجود 55 ہزار سے زائد شائقین کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ڈیرل ہیئر نے نو بال دینے کا یہ سلسلہ جاری رکھا اور مرلی دھرن کے تین اوورز میں سات مرتبہ نو بال کا اشارہ دے دیا۔
مرلی دھرن اس وقت تک 22 ٹیسٹ میچ کھیلتے ہوئے سری لنکا کی طرف سے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر بن چکے تھے اور اس وقت تک کسی بھی امپائر نے ان کے بولنگ ایکشن کو ‘تھرو’ یا غیرقانونی قرار نہیں دیا تھا۔
اسی سیزن میں ایک اور آسٹریلوی امپائر راس ایمرسن نے بھی ون ڈے میچ میں مرلی دھرن کے بولنگ ایکشن پر نوبال کے اشارے دیے۔
مرلی دھرن کو اس صورتحال کے بعد متعدد بار بایو مکینکس ٹیسٹ کے عمل سے گزرنا پڑا اور ان کے بازو کی غیرمعمولی قدرتی حرکت کے نتیجے میں آئی سی سی نے ان کے بولنگ ایکشن کو قانونی قرار دے دیا۔
تاہم یہ معاملہ اس قدر سنگین صورت اختیار کر گیا تھا کہ سری لنکن کرکٹ بورڈ نے باضابطہ طور پر امپائر ڈیرل ہیئر کو سری لنکا کے میچوں کے لیے ناقابل قبول قرار دے دیا اور آئی سی سی نے تقریباً آٹھ برس تک ڈیرل ہیئر کو سری لنکا کے میچوں میں امپائر مقرر نہیں کیا۔
سنہ 1999 میں ڈیرل ہیئر نے اپنی کتاب میں مرلی دھرن کے بارے میں ‘نامناسب’ الفاظ استعمال کیے جس پر آئی سی سی نے ان کی سرزنش کی۔ ڈیرل ہیئر نے اس دوران یہ الزام بھی عائد کیا کہ انھیں مبینہ طور پر ایک تامل علیحدگی پسند گروہ کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئی ہیں۔
پاکستانی ٹیم پر بال ٹیمپرنگ کا الزام
سنہ 2006 میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان اوول میں کھیلے گئے سیریز کے چوتھے اور آخری ٹیسٹ کو کرکٹ کے چند بڑے تنازعات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جس میں ڈیرل ہیئر اور بلی ڈاکٹروو امپائرز تھے۔ اس ٹیسٹ میچ کو 17 سے 21 اگست تک جاری رہنا تھا، تاہم 20 اگست کو ہی میچ کے چوتھے روز کچھ ایسا ہوا جس نے کرکٹ کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
میچ کے چوتھے دن ڈیرل ہیئر نے پاکستانی ٹیم پر بال ٹیمپرنگ کا الزام لگا کر گیند تبدیل کر دی اور پاکستانی ٹیم کے خلاف پانچ رنز پینلٹی کے بھی دے دیے۔
یہ معاملہ کتنا حساس تھا، پاکستانی ٹیم کو اس کا اندازہ چائے کے وقفے پر ڈریسنگ روم میں آنے کے بعد ہوا۔
کپتان انضمام الحق اس قدر غصے میں تھے کہ انھوں نے چائے کے وقفے کے بعد میدان میں واپس جانے سے انکار کر دیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیرمین شہریار خان نے اپنی کتاب ‘کرکٹ کالڈرن’ میں اوول ٹیسٹ تنازع کا تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ کس طرح انضمام الحق کو میچ جاری رکھنے کے لیے منانے کی کوششیں کی گئیں یہاں تک کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے فون کر کے انضمام الحق کو کھیل جاری رکھنے کے لیے کہا۔
’آپ کھیلنے کے لیے آ رہے ہیں یا نہیں؟‘
شہریار خان لکھتے ہیں ‘انضمام الحق ٹیم کو میدان میں لے جانے پر راضی ہوگئے تھے لیکن جب ٹیم میدان میں جانے لگی تو انھوں نے دیکھا کہ امپائرز میدان سے واپس آ رہے ہیں اسی دوران ڈیرل ہیئر ساتھی امپائر بلی ڈاکٹروو کے ساتھ سیدھے پاکستانی ٹیم کے ڈریسنگ روم کے دروازے تک آئے اور انتہائی سخت لہجے میں انضمام سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ کھیلنے کے لیے آرہے ہیں یا نہیں؟
انضمام الحق نے ڈیرل ہیئر سے دوبارہ وہی سوال کیا جو میدان میں کیا تھا کہ آپ نے گیند کیوں تبدیل کی اور مجھے کیوں نہیں دکھائی؟ ڈیرل ہیئر نے انضمام الحق کے سوال کا جواب یہ دیا میں یہاں آپ کے اس سوال کا جواب دینے نہیں آیا ہوں اور یہ کہہ کر چلے گئے۔
شہریار خان کہتے ہیں کہ ‘یہی وہ موقع تھا جس نے انضمام الحق کو دوبارہ نہ کھیلنے پر مجبور کر دیا۔
یہ معاملہ اس قدر بڑھ گیا کہ امپائرز نے میچ ختم کر کے انگلینڈ کو فاتح قرار دے دیا حالانکہ پاکستان اور انگلینڈ کرکٹ بورڈ دونوں چاہتے تھے کہ میچ دوبارہ شروع کیا جائے۔
شہریار خان کی کتاب کے مطابق ‘اس دوران انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے چیف ایگزیکٹیو میلکم سپیڈ نے بھی دبئی سے دو مرتبہ فون پر ڈیرل ہیئر سے بات کی اور ان سے میچ دوبارہ شروع کرنے کے لیے کہا لیکن وہ اس کے لیے تیار نہ تھے’۔
شہریار خان کہتے ہیں ‘اس پورے واقعے میں آئی سی سی کے میچ ریفری مائیک پراکٹر کا کردار خاصا کمزور تھا اور وہ خود کوئی بھی فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے’۔
واضح رہے کہ اس تمام صورتحال میں سب کی ہمدردی پاکستانی ٹیم کے ساتھ تھی۔ انگلینڈ کے کپتان اینڈریو سٹراس کا کہنا تھا کہ تھوڑی سی لچک دکھا کر یہ ٹیسٹ میچ پانچویں دن شروع کیا جاسکتا تھا۔
انگلینڈ کے سابق کپتان ناصر حسین نے اپنے اخباری کالم میں یہ سوال اٹھایا کہ کیا ڈیرل ہیئر نے کسی پاکستانی کھلاڑی کو میدان میں بال ٹیمپرنگ کرتے ہوئے پکڑا تھا؟
آئی سی سی نے اوول ٹیسٹ تنازع کے سلسلے میں رنجن مدوگالے پر مشتمل ایک ٹریبونل تشکیل دیا تھا جس نے تمام فریقین اور ماہرین کو سننے اور حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم اوول ٹیسٹ میں بال ٹیمپرنگ کی مرتکب نہیں ہوئی ہے البتہ کھیل کی روح کو متاثر کرنے پر کپتان انضمام الحق پر چار میچوں کی پابندی کی گئی تھی۔
پاکستان کی شکایتوں پر آئی سی سی خاموش
شہریار خان کا کہنا ہے کہ سری لنکن کرکٹ بورڈ کی جانب سے ڈیرل ہیئر پر عدم اعتماد کے بعد آئی سی سی نے انھیں سری لنکا کے میچوں سے دور کردیا تھا لیکن جب پاکستان کرکٹ بورڈ ڈیرل ہیئر کے بارے میں آئی سی سی سے مسلسل شکایت کرتا رہا تو اس نے اس بارے میں کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
شہریار خان کا کہنا ہے کہ بورڈ کا چیرمین بننے کے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ آئی سی سی پاکستان کے میچوں میں ڈیرل ہیئر کی تواتر سے تقرری کر رہا ہے حالانکہ ان کے کئی فیصلے پاکستانی ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔
انھوں نے اس کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ انضمام الحق بولر کے تھرو سے بچنے کے لیے گیند بلے سے روکنے پر مجبور ہو گئے تو انھیں ڈیرل ہیئر نے رن آؤٹ دے دیا اسی طرح سلمان بٹ وکٹ پر دوڑنے کے غلط فیصلے کی بھینٹ چڑھ گئے۔
مزید مثالوں میں دانش کنیریا کو یہ کہہ کر بولنگ سے روک دینا کہ وہ پچ کے خطرناک حصے پر دوڑ رہے تھے۔ ان فیصلوں سے کوچ باب وولمر بھی سخت غصے میں تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہ درست فیصلے نہیں تھے۔
شہریار خان کہتے ہیں کہ ‘پاکستان کرکٹ بورڈ نے جب بھی یہ معاملہ آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹیو میلکم سپیڈ کے سامنے رکھا توان کا یہی جواب تھا کہ امپائر کی تقرری کو کوئی بھی کرکٹ بورڈ چیلنج نہیں کرسکتا اس کی شکایت کپتان اپنی میچ رپورٹ میں کرسکتا ہے حالانکہ ان رپورٹس پر بھی کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی’۔
شہریار خان کا کہنا ہے ‘میلکم سپیڈ نے مجھ سے کہا کہ ممکن ہے ڈیرل ہیئر اکّھڑ مزاج ہوں لیکن ان کی غیرجانبداری اور قابلیت پرشک نہیں ہوسکتا’۔
ہربھجن بھی ہیئر کی زد میں
ڈیرل ہیئر کی نظرمیں صرف مرلی دھرن ہی نہیں بلکہ چند دوسرے سپنر کے بولنگ ایکشن بھی غیرقانونی تھے ان میں بھارتی آف اسپنر ہربجھن سنگھ بھی شامل ہیں جن کے بارے میں ہیئر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ گیند تھرو کرتے ہیں۔
اس پر ہربھجن سنگھ نے ڈیرل ہیئر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی اور کہا کہ اگر ایسا ہے تو انہوں نے کسی میچ میں ان کے بولنگ ایکشن پر باقاعدہ اعتراض کیوں نہیں کیا؟
سات ممالک ڈیرل ہیئر کے خلاف
ڈیرل ہیئر نے اوول ٹیسٹ کے بعد آئی سی سی کو ای میل کے ذریعے یہ پیشکش بھی کی تھی کہ وہ امپائرنگ سے ریٹائر ہونے کے لیے تیار ہیں لیکن اس کے عوض آئی سی سی انھیں پانچ لاکھ ڈالرز دے تاکہ مستقبل میں انہیں جو نقصان ہونا ہے اس کی تلافی ہو سکے۔
نومبر2006 میں آئی سی سی کے صدر پرسی سون نے ممبئی میں ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران ڈیرل ہیئر پر انٹرنیشنل میچوں میں امپائرنگ کرنے پر پابندی عائد کردی۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آئی سی سی کے اجلاس میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے دس میں سےسات ممالک نے ڈیرل ہیئر پر عدم اعتماد ظاہر کردیا تھا صرف انگلینڈ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے ڈیرل ہیئر کی حمایت کی تھی۔
اوول ٹیسٹ کے بعد ڈیرل ہیئر مزید دو ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کرپائے تھے جس کے بعد ان کا امپائرنگ کریئر اختتام کو پہنچا۔
دکان سے ڈالرز کی چوری
اکتوبر2017 میں ڈیرل ہیئر شراب کی ایک دکان سے آسٹریلوی ڈالرز چوری کرنے کے مرتکب پائے گئے۔
وہ اسی دکان میں کام کر رہے تھے اور انھیں دکان کے مالک نے سی سی ٹی وی کی مدد سے پکڑا۔
آسٹریلوی اخبار کے مطابق ڈیرل ہیئر نے یہ رقم جوئے کی عادت کی وجہ سے چرائی تھی جو انھیں واپس کرنی پڑی اسی وجہ سے وہ جیل جانے سے بچ گئے اور عدالت نے انھیں صرف یہ سزا دی کہ وہ 18 مہینے تک اچھا برتاؤ رکھیں گے۔
(یہ خبر اس سے قبل 24 جون 2020 کو شائع کی گئی تھی اور اسے موقع کی مناسبت سے دوبارہ پیش کیا جا رہے ہے۔)
(بشکریہ: بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ