وہ گراؤنڈ میں داخل ہوا تو ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں نے اسے گارڈ آف آنر پیش کیا۔وہ سفر جو راولپنڈی سے شروع ہوا تھا،ویسٹ انڈیز میں ڈومی نیکا کے مقام پر اختتام پذیر ہوا۔سری لنکا کے خلاف ڈیبیو پر سنچری کرنے والا یہ بلے باز عظیم یونس خان ہے جو پاکستان کا سب سے کامیاب بلے باز بن کر کرکٹ سے رخصت ہو رہا ہے۔وہ کئی بار ڈراپ ہوئے۔ بارہا انھیں بتایا گیا کہ ان کا وقت ختم ہو چکا ہے، انھیں چلے جانا چاہیے۔ نہ تو وہ کبھی پی سی بی کے محبوب رہے اور نہ ہی میڈیا کی آنکھوں کا تارا۔ اور ستم یہ کہ انھیں سرف، نمکو اور بوتلیں بیچنے کا ہنر بھی نہیں آتا تھا۔لیکن اس سب کے درمیان ایک چیز تھی جو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتی رہی، وہ تھی یونس خان کی کرکٹ کے لیے عزت۔ کہنے والوں نے جو بھی کہا، یونس نے ہمیشہ اپنے کھیل کی عزت کی۔ اپنی ٹیم کو ترجیح دی۔ اپنے ملک کو مقدم رکھا۔یونس خان کہتے ہیں کہ جب کبھی وہ بہترین بیٹنگ کے ریکارڈز پہ نظر ڈالتے تھے تو انھیں یہ چیز تکلیف دیتی تھی کہ سب سے زیادہ رنز کی فہرست میں پاکستان کا نام نہ دکھائی دیتا تھا۔ شاید یہی وہ تحریک تھی کہ ڈھلتی عمر کی تھکن اور اغیار کے طعنوں کے باوجود وہ ڈٹے رہے اور بالآخر وہ دن آ ہی گیا جب ٹیسٹ کرکٹ کی ایلیٹ کلاس میں پاکستان کا نام بھی شامل ہو گیا۔ نہ صرف یہ کہ انھوں نے پاکستان کے لیے ایک ورلڈ کپ جیتا بلکہ 2009 کے بعد شروع ہونے والے پاکستان کرکٹ کے مشکل ترین دور میں انھوں نے ایک بے گھر ٹیم کو سنبھالے رکھا۔ اپنے جونیئرز کی قیادت میں بھی اسی عزم سے کھیلے جیسے کبھی اپنے سینیئرز کے ہمراہ کھیلا کرتے تھے۔اور اس سارے سفر کے بیچ وہ پاکستان کرکٹ کو یہ سکھلا گئے کہ کوئی تکنیک، کوئی کلاس اور کوئی سٹائل بھی ارادے سے بڑا نہیں ہوتا۔ یہ یونس کا عزم تھا کہ پاکستان کا نام بھی اس ایلیٹ کلب کا حصہ بنے جہاں برائن لارا، راہول ڈریوڈ، سچن ٹنڈولکر، رکی پونٹنگ اور سنگاکارا بستے ہیں۔ اس عزم کی جستجو میں نہ صرف وہ خود امر ہو گئے بلکہ پاکستان بھی سرخرو ہو گیا۔لیکن اِس عظیم ترین ریکارڈ کے باوجود افسوس کی بات یہ کہ آج تک انہیں کبھی وہ رتبہ نہیں مل سکا جو کسی بھی ایسے عظیم کھلاڑی کو ملنا چاہیے۔ یونس خان کے کیرئیرمیں کئی مواقع ایسے آئے جب شائقینِ کرکٹ اور خود یونس خان کو ایسا لگا کہ بس اب اُن کا کیرئیر ختم ہوچکا، اُن کے راستے میں کرکٹ بورڈ کی جانب سے بار بار رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں، پھر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ میڈیا نے بھی کبھی انہیں وہ عزت نہیں بخشی جس کے یونس خان حقدار تھے۔ایک وقت آیا جب یونس خان کو سینٹرل کانٹریکٹ میں ’کیٹگری اے‘ سے ’کیٹگری بی‘ میں منتقل کردیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ صرف ٹیسٹ میچ کھیلتے ہیں، حالانکہ انہی دنوں شاہد آفریدی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلتے تھے مگر اِس کے باوجود وہ کیٹگری اے میں ہی رہے۔ یونس خان ٹیسٹ کرکٹ میں دس ہزار رنز کا سنگ میل عبور کرنے والے معمر ترین کھلاڑی ہیں۔ 39 سال وہ عمر ہے جب ٹیسٹ پلیئرز یا تو کسی ڈریسنگ روم میں بیٹھے نوجوانوں کو مشورے دے رہے ہوتے ہیں یا پھر کمنٹری باکس میں بیٹھے اپنے ماضی کو یاد کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یونس خان اپنی عمر کے 39 سال اور 145 دن گزارنے کے بعد سبائنا پارک میں کھڑے ڈریسنگ روم کی جانب بلا لہرا رہے تھے اور اپنی شرٹ پہ پاکستان کے بیج کو چوم رہے تھے۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پچھلے چھ سال میں آفریدی کے فین گھٹتے گئے اور مصباح کے فین بڑھتے گئے مگر یونس یونس ہی رہا۔اس نے پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز دیے، سب سے زیادہ سینچریاں دیں، ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ کپ دیا مگر اس کے باوجود یونس خان کبھی قوم کا ہیرو نہیں بن سکا۔ آج بھی اگر وہ ایک میچ میں پرفارم نہ کرے تو ہر کونے کھدرے سے ناقدین نکل آتے ہیں اور اس کی تکنیک سے لے کر اس کے وجود تک، ہر چیز پہ سوال اٹھانے لگتے ہیں۔یونس آج بھی وہی کرکٹ کھیلتا ہے جو وہ سولہ سال پہلے کھیلتا تھا۔ اس کا فٹ ورک آج بھی وہی ہے جسے سولہ سال پہلے بھی کوئی پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کی تکنیک آج بھی وہی ہے جو ڈیڑھ عشرہ پہلے تھی۔ان سولہ سال میں یونس خان نے پاکستان کرکٹ کا مشکل ترین وقت دیکھا ہے۔ اس نے اپنے آئیڈیلز کو ریٹائر ہوتے دیکھا، ڈریسنگ روم کو نئے نئے چہروں اور بھانت بھانت کے تجربوں سے گزرتے دیکھا، پی سی بی کو سیاسی تبدیلیوں سے گزرتے دیکھا، سپاٹ فکسنگ کے سکینڈل سے ٹوٹتی ٹیم کو دیکھا، بے وطن ٹیم کو امارات کے گرم صحراوں میں گھر کھوجتے دیکھا، اور اس سب کے بیچ وہ صرف اپنی محنت اور کارکردگی کے بل پہ پاکستانی ڈریسنگ روم کا حصہ رہا۔
انگلینڈ کے خلاف سیریز میں ان پر تنقید عروج پر تھی، مگر اوول ٹیسٹ میں ڈبل سینچری بنا کر اس نے ناقدین کو خاموش کرا دیااور چھے ڈبل سینچری بنانے والے بلے بازوں کے کلب کا حصہ بن گئے۔اسی ڈبل سینچری کی بدولت پاکستان نے انگلینڈ پر 214سکور کی برتری حاصل کی اور ٹیسٹ جیت کر سیریز برابر کی۔ان چھ میں سے چار ڈبل سینچریز ملک سے باہر ہیں جبکہ ایک یو اے ای میں اور ایک پاکستان میں ہے۔
یوں تو یونس خان نے پاکستان کے لیے بہت سارے ریکارڈز اپنے نام کیے۔ جیسے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے کے علاوہ سب سے زیادہ 34 سنچریاں، سب سے زیادہ ڈبل سنچریاں، ٹیسٹ میچ کھیلنے والی ہر ٹیم کے خلاف سنچری بنانے کا ریکارڈ، صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ 52.15 کی اوسط کے ساتھ رنز بنانے کا ریکارڈ بھی یونس خان کے پاس ہی ہے۔وہ گیارہ ملکوں میں سینچری بنا چکے ہیں جو کوئی اور نہ کر سکا, وہ 138 کیچز کے ساتھ ٹیسٹ کرکٹ میں بارہویں نمبر پر ہیں انڈیا میں بنگلور ٹیسٹ کی پہلے اننگز میں 267اور دوسری میں84سکور بنانے کی وجہ سے پاکستان میچ 168رنز سے جیت گیااور ایک میچ ہارنے کے بعد پاکستان سیریز برابر کرنے میں کامیاب رہا۔لیکن اِس طرح کے تمام ریکارڈ سے بڑھ کر یونس خان کے پاس ایک اور عظیم ریکارڈ ہے، اور وہ ریکارڈ یہ کہ اپنے 17 سالہ کیرئیر میں ان پر ایک مرتبہ بھی، جی ہاں، ایک مرتبہ بھی کرپشن کا الزام نہیں لگا، کبھی ایک بار بھی کسی دشمن نے بھی یہ الزام نہیں لگایا کہ یونس خان نے کبھی بھی کسی ایسی کارروائی میں حصہ لیا ہو جس سے پاکستان کا نام بدنام ہوا ہے۔ہیرو تجھے سلام!!
فیس بک کمینٹ