آج کل "نا جائز تجاوزات” کا بہت شور ہے کمال بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بڑے بڑے ٹی وی چینلز بھی "نا جائز تجاوزات” لکھ بھی رہے ہیں اور نیوز اینکرز یہ بول بھی رہے ہیں ۔ تجاوز ہوتا ہی نا جائز ہے جب آپ نے تجاوزات لکھ دیا تو اس کے ساتھ ناجائز لکھنے یا بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے (ہاں یہ ممکن ہے کہ بنی گالہ کی تجاوزات جائز ہوں اور باقی سب ناجائز ہوں) یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی "استفادہ حاصل کرے”۔۔ خیر بات ہو رہی تھی تجاوزات کی باقی شہروں کا خاص معلوم نہیں لیکن ملتان میں تجاوزات گرائی جارہیں ہیں دو یا تین دن پہلے علی گڑھ سکول سے ملحقہ مارکیٹ گرائی گئی آج گول باغ چوک پر موجود مدرسہ کے فرنٹ پر موجود تیس پینتیس سال پرانی دکانوں کو گرایا جا رہا تھا اس کے بعد آپریشن کا دائرہ کار وسیع ہونا تھا اور جلال مسجد چوک پر موجود سگریٹ، پان کے مشہور و معروف کھوکھے اور دودھ دہی کی دکانوں کو بھی گرایا جانا تھا جو کہ اب تک شاید گر چکی ہوں گی ۔۔ (غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق بارہ گھنٹے کے نوٹس پر کاروائی کی جا رہی ہے) ۔۔ آج شام کا منظر یہ تھا کہ چاروں اطراف سے ٹریفک کا داخلہ گلگشت میں بند تھا دو سے تین ہزار پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں آپریشن ہو رہا ہے پولیس کی گاڑیاں اس طرح اسلحے سے لیس تھیں کہ جیسے کوئی جنگ کا خطرہ ہے ویسے بھی ہماری سکیورٹی فورسز نے ہمیشہ اپنا ہی ملک فتح کیا ہے لہذا آج بھی یہ فریضہ وہ پورے انہماک کے ساتھ انجام دے رہے تھے ۔۔ اہلکاروں سے پوچھو تو وہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے آر ڈرز ہیں۔۔ مان لیا اب بات یہ ہے کہ اگر یہ آڈرز حکومت کے نہیں ہیں تو حکومتی اہلکار اس آپریشن کا کریڈٹ کیوں لے رہے ہیں؟ احکامات جس کے بھی ہوں اس حوالے سے دو تین سوالات ذہن میں گردش کر رہے ہیں ۔ علی گڑھ سکول کے ماتھے پر بننے والی نئی نویلی مارکیٹ کو ایک منٹ کے لئے گفتگو سے باہر رکھیے لیکن جو د کانیں آج گرائی جارہی ہیں وہ کب بنی تھیں مجھے یاد نہیں ہے میں نے اپنے بچپن سے ان دکانوں کو یہیں دیکھا ۔ ایک زمانہ تھا اسی جگہ پر کتابوں کی مشہور د کان "نیوز کارنر” ہوا کرتی تھی میرے والد مرحوم مجھے سکول کا کورس اسی د کان سے دلایا کرتے تھے سارا بچپن اور آدھی جوانی ہمیں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ د کانیں غیر قانونی ہیں مگر یہ بحث نہیں ہے کسی چیز کا قدامت اس کے قانونی ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی، اب یہ آڈرز چیف جسٹس صاحب کے ہوں یا عمران خان صاحب کے سوال یہ کہ اب تک جتنی بھی تجاوزات گرائی گئی ہیں ان میں بجلی کے میٹرز لگے ہوئے تھے، ملتان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (MDA) نے کئی بار اس چوک کو کشادہ کیا کئی بار ان دکانوں کے باہر والے فٹ پاتھ ٹوٹے اور بہت بار بنے، آپ تجاوزات گرا رہے ہیں بہت بہتر لیکن آپ ان واپڈا اہلکاروں کو کیوں نہیں پکڑتے جنہوں نے ان دکانوں کے بجلی کے میٹر ایشو کئیے تھے، کیا آپکو ان سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ جگہ قانونی ہے یا نہیں یہ تصدیق کیے بغیر کس طرح بجلی کا میٹر ایشو کیا گیا؟ قانون کے مطابق فرد ملکیت کو چیک کیے بغیر بجلی کا میٹر ایشو نہیں کیا جا سکتا، ایم ڈی اے کے وہ افسران جن کی اجازت سے روڈ کشادہ ہوتے رہے اور انکی مرمت ہوتی رہی، سٹریٹ لائٹس لگتی رہیں، فٹ پاتھ بنتے بگڑتے رہے ان سے آپ یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ ان دکانوں کا انہوں نے اتنے سال نوٹس کیوں نہیں لیا؟ اگر یہ آج معلوم ہوگیا ہے کہ یہ سب غیر قانونی ہے تو کیا کل یہ معلوم نہیں تھا؟ کیا ان تیس پینتیس سال میں کبھی ایکسائز یا کسی دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ یاد نہیں آیا کہ ان جگہوں کو واگزار کرایا جائے؟ خان صاحب کا اعلان یہ تھا کہ ہم کرپشن کے خلاف جنگ کا آغاز بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈال کر کریں گے لیکن صورتحال یکسر مختلف دکھائی دے رہی ہے، اب تک جتنی کاروائی ہوئی ہے وہ اس طبقے کے لوگوں کے خلاف ہے جنہوں نے مشکلوں سے کاروبار شروع کیے تھے کسی نے قرض لے کر کام شروع کیا تھا تو کسی نے بیوی کے زیور بیچ کر جن لوگوں نے یہ غیر قانونی جگہیں ان کو بیچیں نہ انکو اب تک کسی نے پکڑا نہ ہی ان افسران کے خلاف کسی کارروائی کا کوئی ارادہ نظر آ رہا ہے کہ جو ان سے رشوتیں الگ رہتے رہے اور اپنے کام سے صرفِ نظر کر کے جرم کا ارتکاب بھی کرتے رہے وہ آج بھی اپنے دفتروں میں براجمان ہیں اور آج کی کارروائی کا کریڈٹ بھی وہی لے رہے ہیں۔ ایک جوتے کی دکان کے مالک کے بقول جب آپریشن شروع ہوا تو ابھی اسکا مال دکان کے اندر موجود تھا اور اس بلوے کے نتیجے میں اس کی دکان سے ساٹھ جوڑے جوتوں کے راہگیر اٹھا کر لے گئے یہ بات وہ نہیں سمجھ سکتے جن کے گھروں کے خرچے جہانگیر ترین یا علیم خان چلاتے ہوں کہ یہ کتنا بڑا نقصان ہے … سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان کی ذاتی رہائش گاہ بھی تجاوزات کی زمرے میں آتی ہے لیکن اسکو بچانے کے قانونی راستے کھوجے جا رہے ہیں… جبکہ ہمارے خان صاحب نے فرمایا تھا کہ احتساب کا آغاز مجھ سے اور میرے وزراء سے کیا جائے گا اللہ ہمارے خان صاحب کو اپنا وعدہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
فیس بک کمینٹ