میں انتظار کی صلیب پر لٹکا رہا ،دو ہفتے بیت گئے،اسدعمر کے ایک مذمتی ٹویٹ کے سوا میری نظر سے کچھ نہیں گزرا،کچھ بھی تو نہیںِ ،تاہم مجھ پر قیامت گزر گئی۔
میرے بیٹے انجینئر عمر عبداللہ الجوزی نے کئی روز بعد مجھے وہ آڈیو کلپ پھر وا ٹس ایپ کیا ،جس میں ایک پولیس آفیسراور نجابت کے دعویدار ایک صحافی کے درمیان ایک شرمناک مکالمہ ہے ،وہ صحافی جو قرآن و حدیث،کسی صحابی رسول ﷺ کے ذکرِ مبارک ،کسی کے قول،رومیؒ ،اقبالؒ ،کنفیوشس یا کسی درویش کے وصفِ خاص کے حوالے اپنے کالم کا آغاز کرتے ہیں ،دو منٹ اور اڑتالیس سیکنڈ کے اس مکالمے نے مجھے پانی پانی کردیا۔
پہلی بار یہ کلپ مجھے سولہ اکتوبر کی شب ملا ،اور آج چھبیس اکتوبر دو ہزار اٹھارہ کی شب پھر موصول ہوا ہے ،اس کے ساتھ ہی یہ دل دہلا دینے والا جملہ بھی کہ’’ بابا! اگر یہ کلپ آپ سے منسوب ہوتا میں شرمندگی سے خود کشی کر چکا ہوتا‘‘اور میں سوچ رہا ہوں ،میں ایسا ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ میں ایک ایسے باپ کا بیٹا ہوں ۔جس نے میرا پہلا کالم پڑھ کر یہ کہا تھا’’تم نے پُل صراط پر قدم رکھ دیا ہے ،حق بات نہ لکھی تو لہجے کے کمال سے محروم ہوجاؤ گے،کہ تم اس شخص (امیرِ شریعت سیّدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ ) کی گود میں پلے ہو جو تمام عمر باطل سے ٹکراتا رہا‘‘
مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ وہ صحافی مقامِ نجابت پر کیسے پہنچا ،البتہ یہ ضرور جانتا ہوں کہ اسے ایک بڑے اخبار کی دہلیز تک پہنچانے میں معروف سکالر پروفیسر احمد رفیق اختر نے اس کی بہت مدد کی ،اور موصوف کا کمال یہ ہے کہ وہ ہمیشہ چڑھتے سورج کے پجاری رہے،یہاں تک کہ موجودہ وزیر اعظم کے دستر خوان کے سکڑ جانے کا بھی انہیں ملال ہے اور اس ملال کا نوحہ وہ لگاتار لکھ رہے ہیں ۔ میری ان کی پہلی ملاقات اگست 2005ء میں ہوئی تھی ،ایک مدت سے دل وماغ میں جو خاکہ تشکیل پا چکا تھا ،ان سے ملاقات کے پہلے ہی لمحے اس خاکے کی ساری لکیریں اچانک سے مٹ گئیں،پھر جوں جوں ملاقات اور گفتگو کا دورانیہ طویل ہوتا گیا ،خیال و خواب میں تراشا ہوا پیکر بکھرتا چلا گیا،خوش پوش ،خوش وضع و خوش شکل،گندمی رنگ ،باریک گلابی ہونٹ جن کے گر د ناک کی محرابوں کو چھو کر رخساروں کی طرف بڑھتے الرجی کے سرخ نشانات چہرے کو اور تمتما رہے تھے نیم وا آنکھیں،خشخشی داڑھی جس میں چاندی صاف چمکتی دکھائی دے رہی تھی،آواز کرخت اتنی کہ سننے والے کی سماعت کو کچل کے رکھ دے۔
ان کے کالم پڑھتے ربع صدی بیت گئی،جبکہ ان کے روبرو ،ان کی گفتگو سننے کا پہلا موقع تھاجو امتیاز بلوچ کی خصوصی سفارش پر کشمیر میڈیا سنٹر کے سلیم ہاشمی کے واسطے اور وسیلے سے عطا ہوا تھا۔ راولپنڈی کے اس پار پہاڑیوں اور درختوں میں گتھ متھ ہوتے’’ہمک‘‘ کے علاقے میں ماڈل ٹاؤن اسلام آبادکی نئی بستی جو جدید طرز تعمیر کے شاہکار بلندو بالا رنگین و پُر کشش مکانوں سے اٹی ہوئی تھی ،سبزہ و گل کی بہتات نے دور دراز کے اس علاقے میں اپنائیت گھول رکھی تھی،سورج سوا نیزے پر کھڑا تھا ،شاید وہ پو ٹھوہار کے خطے کا گرم ترین دن تھا کہ سورج کی تمازت اور حدت جسم کو جھلسانے تو کیا پگھلانے کے درپے تھی،پہلے دس منٹ ان کے گھر کے وسیع لان میں کھڑے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں تلے گزارے ،ایک گوشہء عافیت ،جس سے کچھ فاصلے پر دھوپ کے سامنے سر نیوہڑائے کھڑے ننھے ،منے پودوں پر کھلے پھول کملائے ہوئے تھے۔
بنو امیہ سے گفتگو کے سلسلے کی ابتدا ہوئی،اپنے کالمز میں شگفتہ و شائستہ زبان استعمال کرنے والے کے بیان کا مزہ کرکرہ ہونے لگا تھا کہ میں نے سلسلہء کلام کا رخ موڑ دیا،پھر ابوالکلام آزادؒ ،امیر شریعت سید عطاءؒ ؒ اللہ بخاریؒ ،مولانا حسین احمد مدنیؒ اور مولانا انور کاشمیریؒ کی شخصیات ،ان کی تاریخی خدمات کا ذکر ہوتا رہا،مگر وہ ایک نقطہ جس پر اس کا اصرار تھا،وہ یہ کہ’’ میں ڈیل کار نیگی اور ہائیڈگر کے سوا کسی سے متاثر نہیں ہوا‘‘
اس کے علم و دانش کا راز تو اُسی روز ہی کھل گیا تھاکہ ڈیل کانیگی کا فلسفہ اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کا نہیں کہتا بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ’’مسکرا نے کا دل نہیں کرتاتو مسکرا کر دوسرے کو پھنساؤ‘‘ جبکہ حقیقی فلاسفر یہ کہتے ہیں کہ’’ دل کو بہتر کرو تمہارے منہ
سے اچھے الفاظ نکلیں گے‘‘حقیقت یہ ہے کہ ڈیل کانیگی وہ سیل مین تھا جو وہ چیزیں بیچتا تھا جن کی لوگوں کو ضرورت نہیں ہوتی تھی ،یہ موصوف صحافی بھی اپنی مرضی کا مال بیچنے پر مصر رہتے ہیں ،یہی وجہ ہے ایک با اصول پولیس افسر کو گالیاں دیکر اسے کسی برے جانور کا بچہ کہہ کر پکار کر اس کی وردی ہی کی توہین نہیں کرتا بلکہ اس کی عزت نفس کو بھی یہ کہہ کر مجروح کرتا ہے کہ’’ میں ڈی آئی جی کے ذریعے تمہاری گوشمالی کرواتا ہوں‘‘
میں دو ہفتوں سے اس صلیب پر لٹکا تھا کہ کسی قلمکار صحافی نے اس صحافی کے رویئے کی مذمت نہیں کی ،شاید اس لئے کہ ہم سچ کا آئینہ دیکھنے سے محروم ہیں ،ہم اپنے قبیلے کے برے آدمی کو برا کہنے کی جراء ت نہیں رکھتے ،پھر ہمیں اپنے سیاستدانوں کی ناٹھیک باتوں پر تنقید کر نے ان کی پگڑیاں اچھالنے کا بھی کوئی حق نہیں ،مطلق کوئی حق نہیں کہ ہمارا اپنا قبلہ ٹیڑھا ہے۔ہم اپنے گریبان میں جھانکنے،اپنے قبیلے میں موجود کالی بھیڑوں کو پہچاننے سے عاری ہیں ۔
فیس بک کمینٹ