یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب ہوائی جہاز ابھی بلند فضاؤ ں ہی میں پرواز کیا کرتے تھے اور انہوں نے عمارتوں سے ٹکرانا شروع نہیں کیا تھا۔ امریکہ بہادر ہمارا یار تھا، ہم نے تازہ تازہ چچا سام کی اشیرباد سے افغانستان کے کوہستانوں میں ملحد روس کے چھکے چھڑائے تھے۔ نوے کی دہائی کی بات ہے۔ جنرل ضیا صاحب کو پھٹے ہوئے ابھی ایک دہائی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ ان کا لگایا ہوا جہاد کا پودا تناور درخت بن چکا تھا اور اس کے ثمرات سے ہم مسسلسل مستفید ہو رہے تھے۔ کیا ایمان افروز زمانہ تھا وہ بھی۔ مملکتِ پاکستان صحیح معنوں میں اسلام کا قلعہ معلوم ہوتی تھی۔ کالعدم تنظیموں کی اصطلاح سے ابھی سماعتیں ناآشنا تھیں، ہماری قوم کی غیرتِ ایمانی جوان تھی اور جہاد کا علم ساری قوم نے مل کر تھاما ہوا تھا۔ شہر کا کوئی چوراہا ایسا نہ تھا جہاں جہادی نغموں کی صدا جذبہءایمانی کو تازہ نہ کرتی ہو۔ ہر چوراہے پر جہادی تنظیموں کے اسٹال قائم ہوا کرتے تھے جہاں چند باریش نوجوان اپنی اپنی جہادی تنظیموں کے بینر لگائے، میز پر اپنا جہادی لٹریچر سجائے اور جہاد فنڈ کی رسید بک رکھے خوش گپیوں میں مصروف نظر آتے تھے۔ سب لوگ انہیں عقیدت بھری نظروں سے دیکھتے اور ان کی خوش نصیبی پر رشک کیا کرتے۔ روزانہ پاکستان ٹیلی وژن کے خبرنامے میں مجاہدین کی کفار کے دانت کھٹے کرنے کی داستان فخریہ انداز میں بیان کی جاتی تھی۔ اخبارات کے صفحات کا ایک گوشہ مجاہدین کے کارناموں اور جہنم واصل ہونے والے کافر فوجیوں کے اعداد و شمار کے لیے مختص ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہم نے نوجوانی کی دہلیز پر تازہ تازہ قدم رکھا تھا ۔
اس زمانے میںایسی فضا تخلیق کر دی گئی تھی کہ ہر نوجوان اپنے خیالوں میں خود کو ایک مجاہد کے روپ میں دیکھتا، افغانستان اورمقبوضہ کشمیر جہاد کی رزم گاہ تھے۔ ہر گلی محلے میں ایسے خاندان وافر تعداد میں نظر آتے جن کا نوجوان بیٹا گھر سے فرار ہو جاتا اور چند دن بعد انہیں اطلاع ملتی کہ وہ شہادت کی تمنا دل میں بسائے کسی ٹریننگ کیمپ میں جہاد کی تربیت حاصل کر رہا ہے اور پھر کچھ عرصہ بعد اس کی شہادت کی نوید آتی۔ بڑے تزک و احتشام کے ساتھ اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی جاتی اور مجاہد رہنما اور علاقے کے لوگ شہید کے ورثا کو اس عظیم مرتبہ پر فائز ہونے کی مبارکباد پیش کرتے۔ جہادی تنظیموں کی جانب سے شائع ہونے والے مجلے ایسے شہدا کی جرات و بہادری کی داستانوں سے آراستہ ہوتے جن کو پڑھ کردیگر نوجوانوں میں اس راہ پر چلنے کا جذبہ پیدا ہوتا۔ کچھ ہم جیسے نوجوان تھے جن میں جذبہءایمانی کی کمزوری کے باعث ان میں اس طرح کا کوئی عملی قدم اٹھانے کی ہمت ناپید تھی اور وہ دل ہی دل میں اپنی اس کم ہمتی پر کڑھا کرتے۔ تقریباً ہر مذہبی جماعت اس کارِخیر میں حصہ لیتی نظر آتی، مگر حافظ سعید صاحب کی لشکرِ طیبہ، حرکت الانصار اور جماعت اسلامی کی زیرِ سرپرستی کارفرما جہادی تنظیم البدر مجاہدین سرِفہرست تھیں۔ جہادی تنظیموں کے رہنماء بڑی بڑی جیپوں پر مسلح گارڈز کے ہمراہ نقل و حرکت کرتے اکثر نظر آ جایا کرتے۔ یہ تنظیمیں فلاحی کاموں میں بھی حصہ ڈالتیں۔ کئی بے روزگار اور گھر والوں کی نظر میں نکمے نوجوانوں کے روزگار ان تنظیموں سے وابستہ تھے۔ جہادی دفتر یا ریکروٹمنٹ سنٹر چلانے کی مد میں معقول آمدنی کے انتظام کے لالچ کے ساتھ اسلحہ چلانے کی ٹریننگ اور طاقت کا احساس ایسے نوجوانوں کی بے مصرف زندگی میں ایک نیا ولولہ پیدا کرتا۔ جہادی خدمات کے ساتھ ساتھ لوگوں کے جھگڑے نمٹانے اور جائدادوں پر قبضہ کرنے سے لے کر قبضہ چھڑوانے تک کی سماجی خدمات بھی سرانجام دی جاتیں۔
پھر سنا کے روس کے افغانستان سے نکلنے کے بعد جہادی گروپ اقتدار کے لیے آپس میں برسرِپیکار ہیں۔ کچھ عرصہ بعد طالبان کی آمد کا غلغلہ اور اسلامی خلافت کی نوید سنائی دینے لگی۔ حق و باطل کے اس معرکے میں طالبان راہِ حق کے راہی قرار پائے اور دیگر گروپ جو کبھی مجاہدینِ اسلام ہوا کرتے تھے، باطل قوتوں کا روپ دھارتے چلے گئے۔ ہمارے کئی دانشور اور کالم نگار خراسان سے اٹھنے والے سیاہ عماموں اور سیاہ پرچموں والے لشکرِ اسلام کی آمد کے نقارے بجانے لگے۔ ملا عمر کی شخصیت کے گرد ایسا مقدس ہالہ قائم کیا گیا کہ وہ قرونِ اولیٰ کے مسلم خلفاء کے ہمسر معلوم ہوتے تھے۔ ایسے میں ایک رات ٹیلی وژن پر امریکہ کے دل میں دو جڑواں عمارتوں سے طیارے ٹکرانے کی خبر ملی۔ دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ ہم پاکستانی ان سرفروشانِ اسلام کے جذبہءشہادت کو سراہتے نہ تھکتے تھے جنہوں نے یہ’ کارنامہ‘ انجام دیا۔ پھر اچانک معلوم ہوا کہ امریکہ نے، جو کل تک جہاد میں ہمارا معاون و سرپرست تھا، نظریں بدل لی ہیں۔ غلاموں کی سوچ مالک کے اشارہءابرو کی اسیر ہوا کرتی ہے۔ اب امریکہ بہادر ہم سے متقاضی تھا کہ ہم اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کریں۔ مجاہد تنظیموں کے دفاتر دھڑا دھڑ بند ہونے لگے۔ کئی دفاترجہاں پہلے جہادی ترانوں والے بینرز لگے ہوا کرتے تھے اب ان پر سیاسی جماعتوں کے جھنڈے لہرانے لگے۔ کل تک جہاد کے لیے خام مال بھرتی کرنے والے سیاسی جماعتوں کے کارکن بن گئے۔ سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ ہی تگڑے، اپنے علاقے میں اثرورسوخ رکھنے والے اور اسلحہ سے لیس کارکنوں کی ضرورت رہی ہے اس لیے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ معلوم ہوا کہ امریکہ نے افغانستان پر لشکر کشی کر دی ہے۔ صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی تھی۔ اب جہاد فساد بن چکا تھا اور ہمارے سابقہ مجاہدین اب دہشتگرد تھے. پھر ہم نے سنا کہ ان طالبان میں سے بھی کچھ گڈ اور کچھ بیڈ نکل آئے ہیں۔ اب گڈ طالبان جو اصل مجاہد ہیں، ان کو ہم اپنی چھتری کے سائے میں رکھیں گے اور بیڈ طالبان جو شرپسند اور دہشتگرد ہیں ، امریکہ کی حفاظتی تحویل میں دے دیے جائیں گے۔ ہم عام لوگوں کے لیےعجیب کنفیوژن کا دور تھا۔ کچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ کون درست تھا اور کون غلط۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ڈرون حملے کی اصطلاح سے سماعت تازہ تازہ مانوس ہوئی تھی۔ اور پھر یہ برے والے مجاہدین، اوہ سوری بلکہ دہشت گرد، جوکہ افغانستان سے واپس پاکستان سدھار چکے تھے، جگہ جگہ اور موقع بے موقع پھٹنے لگے ۔ تب ہی ہماری عوامی ڈکشنری میں خود کش حملوں کی اصطلاح کا اضافہ ہوا اور یہ اصطلاح ہرعمر یا طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی زبان پر چڑھ گئی۔ پھر یہ مژدہ سن کر طبیعت ہشاش بشاش ہو گئی کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ نے ہمارا رتبہ مزید بلند کر دیا ہے اور اب ہم آقائی و مولائی امریکہ بہادر کے اتحادی قرار پائے ہیں۔ ان خودکش حملوں کو اپنی سرزمین تک محدود رکھنے کے صلے میں ہمیں ایک خطیر رقم امداد کے طور پر وصول ہوا کرے کرے گی۔ سو ہم صبر شکر کر کے یہ خودکش حملے برداشت کرتے چلے آئے، ان امداد میں ملنے والے ڈالرز نے ہمارے میعارِزندگی پر تو کوئی اثر نہ ڈالا مگر دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کی قیادت کرنے والے ہمارے حکمرانوں اور عسکری رہنماؤں کو یہ جنگ بہت راس آئی۔ جہادی تنظیمیں جن کواب کالعدم تنظیموں کے نام سے جانا جانے لگا تھا، ان کے رہنما کبھی کبھار الیکشن مہم کے دوران سیاسی لیڈروں کے جلو میں نظر آ جاتے یا پھر دفاعِ پاکستان کونسل کے جلسوں میں جنرل حمید گل مرحوم، منور حسن صاحب اور لال حویلی کے شیخ صاحب کے بازوؤں میں بازو ڈالے فوٹو سیشن کراتے نظر آتے۔ ایسے میں سوات میں پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مصروف تھی۔
پھراچانک کچھ ڈرامائی تبدیلیاں آئیں ، ہمسایہ ملک میں ہونے والی چند کارروائیوں کا الزام پاکستان کے سر آیا۔ اسامہ بن لادن، جن کی پاکستان میں موجودگی سے ہمارے اربابِ اختیار ہمیشہ انکاری رہے تھے، ایبٹ آباد سے برآمد ہو گئے۔ امریکہ بہادر کی تیوریوں پربل پڑنے لگے تھے۔ آرمی پبلک اسکول کے سانحے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ فوری طور پر تمام قیادت کو ایک پیج پر جمع کیا گیا. نیشل ایکشن پلان تشکیل پایا اور فوجی عدالتیں قائم ہو گئیں۔ مگر عالمی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا۔ اب بھارت امریکہ بہادر کی آنکھ کا تارہ بننے لگا تھا۔ مفادات کے اس دوڑ میں پاکستان کہیں بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ اب اس کی مزید خدمات درکار نہ تھیں۔ ہم خود کو شاہ کا وفادار ثابت کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اورآج ہمارے برسرِ اقتدار سیاسی رہنما ہمیں آگاہ کر رہے ہیں کہ وہ داغ جو کبھی اچھے ہوا کرتے تھے، ابھی ہم انہیں مکمل طور پر صاف کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے اور ہمیں مزید صفائی درکار ہے۔ جبکہ دوسری جانب اپوزیشن کے بینچوں پر متمکن رہنما اس سے اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں اور اسے حکومت کی جانب سے عسکری اداروں کے خلاف محاذ قائم کرنے کی کوشش سے تعبیر کرتے ہوئے ان کے ان بیانات کو پاکستان کی بدنامی کا باعث قرار دیتےہیں۔ اور ہم عوام بحیثیت ایک قوم کے خود کو ایسا قربانی کا بکرا محسوس کرتے ہیں جس کی قربانی اس کے کسی نقص کے باعث شرفِ قبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہو۔ دوسری جانب یہ خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ ان اچھے والے مجاہدین کے "ویژن” پر قائم کردہ سیاسی جماعتیں اب انتخابی سیاست کا حصہ بنیں گی۔ اپنے بھائیوں، عورتوں اور بچوں کی لاتعداد جانوں اور اپنی معیشت کی قربانی دینے کے بعد آج بھی ہم بحیثیت قوم کنفیوژن کا شکار اور صحیح اورغلط کا تعین کر سکنے میں ناکام ہیں۔ اس کہانی کے کئی اہم کردار اب دارِ فانی سے کوچ کر چکے اور اپنے "روحانی جانشینوں” کو ہمارے گلے ڈالتے گئے جو آج بھی ان کے اقدامات کا دفاع کرنے کی کوششوں میں منہمک بیں۔ اور عام آدمی آج بھی عالمی شطرنج کی اس بساط پر کھیلی جانے والی نت نئی چالوں سے بے خبر حالات کی بہتری کا منتظر ہے۔
فیس بک کمینٹ