غزل : دھڑکنوں کا شمار باقی ہے ۔۔ عمار غضنفر
دھڑکنوں کا شمار باقی ہے
اب یہی کاروبار باقی ہے
زندگی تجھ میں کیا رہا باقی
موت کا انتظار باقی ہے
جو نہیں ہے وہی خدا ہو گا
اب یہی اعتبار باقی ہے
لڑکھڑاتے قدم یہ کہتے ہیں
گزری شب کا خمار باقی ہے
قافلہ گم ہوا ہے نظروں سے
رہگزر پر غبار باقی ہے
اب بھی تیرے وفا شعاروں میں
بے وفا کا شمار باقی ہے
درد تو اب نہیں رہا لیکن
زخمِ دل کا نکھار باقی ہے
درد تو اب نہیں رہا لیکن
زخمِ دل کا نکھار باقی ہے
عمار غضنفر
فیس بک کمینٹ