دوسرا ہفتہ ہے پاکستان میں ہوں۔شمالی پنجاب جو ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے۔ پختون ، سندھی ، بلوچی، اردو سپیکنگ، سرائیکی، سب بھائیوں کو شکوہ رہتا ہے کہ پنجاب ہمارے حصے کا بہت کچھ ہڑپ کر جاتا ہے، شکوہ بے جا نہیں ہے، نہ اُن کا کڑھنا۔لیکن کوئی آئے اور میرے ساتھ شمالی پنجاب میں کچھ وقت گزارے۔دیکھے کہ یہاں کے لوگوں کے حالات کتنے بدلے ہیں؟ میرا گاﺅںاسلام آبادسے شمال مشرق کی سمت 90کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اردگرد کے دسیوں دیہات میں نہ کوئی بنیادی ہیلتھ سنٹر ہے نہ ہی کوئی دستی ہنر سکھانے کا ادارہ۔معمولی بیماریوں کا شکار ہو کر بھی لوگ ضلعی شہر چکوال کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں سرکاری ہسپتال میں نہ دوا ہے نہ کوئی ڈھنگ کا بستر۔البتہ مین گیٹ پر دو مرتبہ ٹائلیں تبدیل ہو چکی ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں کا رُخ کریں تو ڈاکٹروں کے روپ میں قصائی بیٹھے ہیں۔ جن کی نظر بیماراور اُس کی حالت سے زیادہ اُس کی جیب پر ہوتی ہے۔ اپینڈکس تک کے محمولی آپریشن کے لیے راولپنڈی کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ آپ کہیں بھی چلے جائیں کھوے سے کھوا چل رہا ہوتا ہے۔ بازاروں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں۔مگر مٹھی بھر لوگ ہوں گے جن کے جسم پر ڈھنگ کا لباس اور پاﺅں میں جوتے ہوں گے۔ میں چند دن پہلے اپنے گاﺅں کے قریب ایک سالانہ میلے میں گیا۔ کبڈی کا میچ تھا۔ کبڈی جو کبھی چکوال اور میرے گاﺅں میں پیدا ہوئی تھی۔ جہاں کے کھلاڑیوں نے اس کھیل میں بڑا نام پیدا کیا۔ باوا کالا گُجر، سیما فوجی، امبو شاہ، منظور شاہ، عابد شاہ، مصطفی اعوان، ریاض گوندل، شیرا مُندری اورجیدی گجر،جیسے کھلاڑی اس گاﺅں نے پیدا کیے۔مگر اب لگتا ہے یہ زمین جیسے بانجھ ہو گئی ہو۔ میلے میں کم و بیش پندرہ ہزار تماشائی جمع تھے۔ یقین جانیں دو چار سو سے زیادہ لوگ نہیں ہوں گے جن کے جسموں پر آگ برساتے اور پسینا بہاتے موسم کے مطابق کاٹن کے کپڑے ہوں۔ وہ کاٹن جو اُن کی جنم بھومی پیدا کرتی ہے۔ اور اتنا پیدا ضرور کرتی ہے کہ اپنے جنموں کا تن ڈھانپ سکے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ کیوں نہیں ہے؟ ایک درمیانے درجے کا کاٹن کا سوٹ سلائی سمیت تین ہزار سے کم میں نہیں بنتا۔ ساون کے گندے اور پسینا بہاتے موسم میں ایک جوڑا دوسرے دن استعمال کے قابل کہاں رہتا ہے؟ کم از کم پانچ چھ جوڑے تو ہوں کہ ایک انسان بغیر بجلی کے اس بے رحم موسم میں سکھ کا سانس لے سکے۔ مگر اتنے ہمارے نصیب کہاں؟۔بات میلے کی ہو رہی تھی۔ بہت ہی معمولی اور سر سے پاﺅں تک پسینے میں بھیگے ہوے کپڑوں میں ملبوس، جو کئی کئی دن سے تبدیل نہیں ہوتے، دُور ہی سے بدبو کے بھبکے چوڑتے ہوئے لباسوں میں لپٹے ہوئے ذلتوں کے مارے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھا نہیں جاتا۔ دیکھا جائے تو حساس دل میں کوئی شے اندر تک چُبھ جاتی ہے۔ بہت تکلیف ہوتی ہے ۔ مگر نہیں ہوتی تو بے شرم حکمرانوں کو۔ مجھے مقامی معروف صحافی یونس اعوان بتا رہے تھے، یہ جو تم دیکھ رہے ہو کہ ہماری نوجوان بیٹیاں اس گرم موسم میںسرد موسم کے کالے کپڑوں کے چغے پہن کر باہر نکلتی ہیں ۔ یہ پردہ نہیں ہے اپنے بوسیدہ لباس کو چھپانے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ سن کر میرے دل پر ایک چرکہ سا لگا۔ مگر محلوں میں رہنے والے بے رحم حکمرانوں کو اس سے کیا غرض۔مگر ایک بات ہے جسے دیکھ سن کر کچھ تسلی ہوئی ، کہ اب ان ذلتوں کے مارے ہوئے لوگ۔گرما میں سرما کے معمولی کپڑوں میں ملبوس ۔بدبو اور پسینے میں بھیگے ہوئے لوگ ۔ اپنے تمام تر بنیادی انسانی حقوق سے محروم لوگ، اب کچھ سوچنے لگے ہیں۔وہ اس حقیقت کو جاننے لگے ہیں کہ اُن کے وجود سے لپٹی ہوئی تمام ذلتوں اور محرومیوں کے ذمہ دار حکمران وقت ہیں۔کل کوئی بتا رہا تھا کہ وزیر اعظم صاحب اپنے خطاب میں فرما رہے تھے کہ آخر ہماری بھی کوئی عزت ہے۔ کون سی عزت جناب عالی؟ جس قوم کے سب سے بڑے حکمران کے بیٹے 600کروڑ کے گھر میں رہتے ہوں۔اور اُس قوم کی بیٹیاں بے رحم موسم میں ڈھنگ کے لباس سے بھی محروم ہوں۔ اٰس قوم کے حکمران عزت دار نہیں مجرم ہوتے ہیں حضور والہ۔اس جہان میں بھی اور اُس جہان میں بھی۔ آخر میں مجھے اُس شاعر سے کچھ کہنا ہے جس نے ساون کو خوبصورت موسم قرار دیا ہے۔اس کی شان میں قصیدے لکھے ہیں۔ اگر یہ شاعر میرے ہاتھ لگیں ، میں ان کو اس موسم میں گردو وغبار سے اٹی سڑکوں اور چوراہوں پر چند گھنٹے گزارنے کا کہوں، جب بجلی غائب ہو اور درختوں کا ایک پتا بھی ہل کر نہ دے رہا ہو،پسینا بدبو اُڑاتا سر کی چوٹی سے پھوٹ کر پتہ نہیں کہاں کہاں سے ہوتا ہوا پاﺅں کی ایڑیوں کے نیچے جمع ہو رہا ہو تو انہیں معلوم ہو کہ ساون کے قصیدے محض ایک شاعرانہ بکواس کے علاوہ کچھ نہیں۔ان شاعروں اور تاریخ دانوں نے بھی ہم پر بہت ظلم کیا ہے۔ جنہوں نے تاریخ اور شاعری بادشاہوں اور نوابوں کے محلات میں بیٹھ کر لکھی۔ عوام کے بیچ بیٹھ کر لکھی ہوتی تو سچ ہوتی۔ساون کسی نواب کے باغیچے میں ممکن ہے انہیں خوبصورت دکھا ہو۔ کسی کٹڑی، کسی تنگ گلی، کسی مچھروں بھرے جوہڑ کے کنارے بیٹھ کر ساون دیکھتے تو انہیں ایسا ہی نظر آتا جیسا ہمیں نظر آتا ہے۔ عوام کا غلہ اور اُن کے جانور لوٹ کر اُن کی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے والے بادشاہ انہیں ظل الہی اس لیے نظر آتے تھے کہ یہ تاریخ دان اُن ظالم اور جابر بادشاہوں کے کا سہ لیس تھے۔ہمارے ساتھ آج بھی ایسا ہی ہاتھ ہو رہا ہے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی لوٹ کر بیرون ممالک دولت کے ڈھیر لگانے اور محلات تعمیر کرنے والے آج کے ظالم حکمران کچھ اخبار نویسوں اور تجزیہ نگاروں کو ” بہترین حکمران“ نظر آتے ہیں۔ یہ اِن کا سہ لیسوں کا قصور نہیں ، یہ اِ ن بے ضمیروں کے پیٹ کا قصور ہے۔ جنہوں نے اپنا ضمیر اپنے پیٹ کے بدلے میں گروی رکھ چھوڑا ہے۔ آئیں ذرا عوام کے بیچ بیٹھ کر دیکھیں کہ یہ حکمران کتنے اعلیٰ ؟ کتنے محب وطن؟ کتنے جمہوریت پسند؟اور کتنے عوام دوست ہیں؟
فیس بک کمینٹ