پاکستان نے امریکہ کی طرف سے بھارت کو ایف 35 لڑاکا طیاروں سمیت دیگر اسلحہ بیچنے کے معاملہ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کاکہنا ہے کہ اس طرح علاقے میں طاقت کے توازن میں فرق پڑے گا۔ اس تشویش کو بھینس کے سامنے بین بجانے سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہوگی کیوں کہ ٹرمپ کی قیادت میں نئی امریکی حکومت باہمی معاشی مفادات کی بنیاد پر دوسرے ملکوں سے تعلقات استوار کررہی ہے۔
امریکی صدر نے نریندر مودی سے ملاقات کے چند ہی گھنٹے بعد ایک صدارتی حکم پر دستخط کیے ہیں جس میں بیرونی ممالک کے ساتھ تجارت میں دو طرفہ محاصل کا اصول وضع کیا گیا ہے۔ اس حکم کے مطابق اب امریکہ اس ملک سے درآمدات پر اتنا ہی محصول عائد کرے گا جو وہ ملک امریکی مصنوعات پر عائد کرتے ہیں۔ اسی طرح نئے امریکی صدر اپنے تمام بڑے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ تجارت میں توازن پیدا کرنے کی بات بھی کرتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات میں بھی انہوں نے واضح کیا کہ بھارت کو امریکہ سے زیادہ ساز و سامان خریدنا چاہئے تاکہ باہمی تجارت میں 45ارب ڈالر کے لگ بھگ خسارہ کم ہوسکے۔ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم 129 ارب ڈالر ہے۔ بھارت ، امریکہ کو 87 ارب ڈالر کے قریب مصنوعات برآمد کرتا ہے جبکہ امریکہ سے صرف 42 ارب ڈالر کی مصنوعات منگائی جاتی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے وزیر اعظم پر یہ بھی واضح کیا کہ بھارتی حکومت امریکی مصنوعات پربہت زیادہ محصول عائد کرتی ہے جبکہ امریکہ میں بھارتی درآمدات پر بہت کم ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تجارت کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ اگر بھارت امریکی برآمد کنندگان کو رعایت نہیں دیتا تو امریکہ بھی بھارت سے آنے والی اشیا پر اتنی ہی شرح سے محصول لگائے گا جو بھارت عائد کرے گا۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی ٹرمپ نے یہی مؤقف اختیار کیا اور مودی کے پاس ٹرمپ کے اس مؤقف کا کوئی جواب نہیں تھا۔ متعدد بھارتی مبصر مودی کے رویہ پر شدید تنقید کررہے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ بھارتی وزیر اعظم ملک کی توہین کا باعث بنے ہیں۔
تاہم حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو اس نام نہاد توہین کا آغاز تو اسی وقت ہوگیا تھا جب نریندر مودی نے ٹرمپ کی تقریب حلف وفاداری میں جانے کی خواہش ظاہر کی لیکن ٹرمپ کی طرف سے انہیں دعوت نامہ نہیں بھیجا گیا لہذا بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے اس موقع پر بھارت کی نمائیندگی کی۔ اس کے برعکس ٹرمپ نے چینی صدر شی جن پنگ کو اپنی تقریب حلف برداری میں خاص طور سے مدعو کیالیکن انہوں نے آنے سے معذرت کرلی۔ اس میں ضرور دوطرفہ احترام دکھائی دیتا ہے جو ٹرمپ جیسا لیڈر بہت کم ملکوں کے ساتھ روا رکھتا ہے۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جبکہ یہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بھی ہے۔ اس پوزیشن کے باوجود امریکی صڈر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب مودی کو واشنگٹن آنے کی ’دعوت‘ دی تو وہ چند روز میں وہاں حاضر ہوگئے۔ بھارتی حکومت کسی حد تک اسے امریکہ اور دنیا میں اپنی بڑی سفارتی کامیابی اور اہمیت کے طور پر پیش کرسکتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ کسی دوسرے ملک کے سربراہ حکومت کو یوں ’طلب‘ کرنا مسلمہ سفارتی معیارات کے حوالے سے بھی کوئی باعزت یا مہذب طریقہ نہیں ہے۔
اس صورت حال میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان اپنی مالی حیثیت کے حوالے سے نہ تو بھارت کا مقابلہ کرسکتا ہے، نہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسے کسی منصوبے میں اب امریکہ کا شراکت دار ہے اور نہ ہی اسے کوئی خاص اسٹریٹیجک اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان کو اس وقت دو ہی حوالے سے شہرت حاصل ہے۔ ایک یہ کہ وہ ایٹمی طاقت ہے لیکن اس حد تک مفلس و لاچار ہے کہ اس کی دوسری شہرت ہمہ وقت دوست ممالک و عالمی اداروں سے قرض و امداد لینے کی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف خود یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ہر ملاقات میں امداد مانگنا انتہائی شرمندگی کا کام ہے۔ پاکستانی معیشت آئی ایم ایف اور دوست ممالک کی مالی مدد کے بغیر دیوالیہ ہوسکتی ہے۔ اسی لیے دنیا کے بڑے ممالک پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں تشویش میں بھی مبتلا رہتے ہیں۔ اس تشویش کو قومی وقار پر سوال کے طور پر دیکھنے کی بجائے ، پاکستانی لیڈروں کو اپنی ناکامی اور ملکی معاشی ابتری کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔
اس پس منظر میں پاکستان کا بھارت کے ساتھ کسی بھی طرح کوئی موازنہ نہیں ہوسکتا۔ بھارت کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار کا تخمینہ 3410 ارب ڈالر ہے جبکہ 2024 میں پاکستان کی جی ڈی پی 374 ارب ڈالر تھی۔ یہ درست ہے کہ دونوں ملکوں کی آبادی میں بھی بہت بڑا فرق ہے۔ بھارت کی آبادی اڑھائی ارب جبکہ پاکستان کی 25 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اسی لیے بڑی معیشت ہونے کے باوجود بھارت کا شمار دنیا کے غریب ملکوں میں ہوتا ہے۔ بھارت میں غربت کی شرح 15 فیصد ہے لیکن اس کے برعکس پاکستان میں یہ شرح 25 فیصد سے زائد ہے۔ یہ تقابلی اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ دونوں ملک کی مالی استعداد اور خریدنے کی صلاحیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس فرق کے ساتھ پاکستان کسی بھی طرح بھارت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔
نریندر مودی نے ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کو آئیندہ پانچ سال میں 500 تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ۔ ٹرمپ بھارتی وزیر اعظم کو زیادہ سے زیادہ امریکی مصنوعات خریدنے پر مجبور کررہے ہیں۔ انہوں نے مودی سے کہا کہ بھارت کواپنے پیٹرول اور گیس کی ضرورتیں امریکہ سے درآمد کرکے پوری کرنی چاہئیں۔ حالانکہ امریکی تیل عالمی مارکیٹ میں دیگر ممالک کے مقابلے میں مہنگا ہے اور بھارت اس وقت روسی تیل کا بڑا گاہک ہے۔ اسی طرح وہ بھارت کو امریکی اسلحہ برآمد کرنے پر زوردے رہے ہیں جس کی گونج گزشتہ روز دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھی سنی گئی ۔ اسی دوران ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ امریکہ اپنے بہترین فائٹر طیارے ایف35 بھی بھارت کو فراہم کرسکتا ہے۔ یہ پیشکش علاقے میں طاقت کے توازن کے تناظر میں نہیں کی گئی بلکہ اس کی بنیاد صدر ٹرمپ کی معاشی ترجیحات ہیں۔ یہ قیاس کرنا درست نہیں ہوگا کہ امریکہ، بھارت کو چین کے خلاف مضبوط کرنے کے لیے اسے جدید اسلحہ فراہم کررہا ہے بلکہ اسے یوں سمجھنا چاہئے کہ امریکہ بھارتی وسائل کا زیادہ سے زیادہ حصہ بٹورنے کے لیے اسے جدید ترین اسلحہ بھی دینے پر آمادہ ہے۔ چین کے ساتھ اسٹریٹیجک مقابلہ اس حوالے سے ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ ٹرمپ براہ راست چین کو للکارنے کا اردہ نہیں رکھتے لیکن اس کی معاشی پیش رفت کو کم کرنے کے خواہاں ضرور ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ امریکی صدر براہ راست پیغام کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم کو واشنگٹن بلاتا ہے اور مشترکہ اعلامیہ میں بھارت کی اس خواہش کو بھی شامل کیا جاتا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کرے۔ یا یہ کہ ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ حملوں کے ملزموں کو سزائیں دی جائیں؟ ظاہر ہے اس سے امریکہ بھارتی حکومت کے ساتھ اپنی قربت ظاہر کررہا ہے جو بنیادی طور پر کسی اصول کی بنیاد پر استوار نہیں ہے بلکہ بھارت کی بڑھتی ہوئی معاشی صلاحیت کی وجہ سے صدر ٹرمپ اس وقت مودی یا بھارت کو اہمیت دے رہے ہیں۔ جبکہ پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ فون پر بات کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔
بھارت کو امریکی اسلحہ کی فراہمی کے وعدوں پر پاکستان کی تشویش درست ہوسکتی ہے لیکن سوچنا چاہئے کہ وزارت خارجہ کے ترجمان کے ایک بیان سے اس پریشانی کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے؟ پاکستان کو علاقائی تعلقات اور قومی مقاصد کے بارے میں اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان کی قومی پالیسی مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے یا پاکستان کا حصہ بنانے اور بھارت سے مقابلہ کرنے کے اصول پر استوار ہے۔ چند روز پہلے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کشمیر حاصل کرنے کے لیے بھارت سے متعدد جنگیں لڑنے کے عزم کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ یہ اعلان درحقیقت اس قومی پالیسی کا آئینہ دار ہے جس پر پاکستان اس وقت کاربند ہے مگر جو معروضی حالات اور قومی ضرورتوں کے برعکس ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کی حکمت عملی سائے کے پیچھے بھاگنے کے مترادف ہے۔ حالانکہ پاکستان کو قومی معیشت کے مقصد سے جنگ جوئی اور تشدد کے ہر مقصد سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ حالات میں بھارت کے ساتھ تنازعہ کو فروغ دینے یا تعلقات میں سرد مہری جاری رکھنے سے بھارت کو تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن پاکستان معاشی بے یقینی کا شکار ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں علاقائی تعاون کو معاشی ترقی کا زینہ سمجھا جارہا ہے لیکن پاکستان اس راستے کو اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنا پاکستان کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو اپنی قومی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی۔ کشمیر کی آزادی کو ایک قومی نعرہ بنا کر ملک میں ایسی رائے عامہ تیار کرلی گئی ہے کہ اس کے برعکس کسی مؤقف کو قوم و ملک سے غداری کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ مذہبی جماعتیں بھی اسی چورن کو بیچ کر اپنا کاروبار چلاتی ہیں اور سیاسی لیڈر بھی کشمیر کا نعرہ لگا کر مخالفین کو بزدل اور خود کو بہادر قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان کا ہر شہری اس وقت بہادراور جی دار بن سکے گا جب اس ملک میں غربت کی شرح کم ہوگی۔ آبادی، ماحولیات اور دیگر بنیادی مسائل حل ہوں گے اور بنیادی قومی مسائل پر تمام لیڈر اتفاق رائے سے آگے بڑھنے کا قصد کرسکیں گے۔
ایسی کسی بنیاد کی عدم موجودگی میں وزارت خارجہ یا وزیر اعظم اگر روزانہ کی بنیاد پر بھی امریکہ کے فیصلوں کے بارے میں تشویش ظاہر کرتے رہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ امریکہ یا دنیا اسی وقت اسلام آباد کو اہمیت دے گی جب پاکستان خوشحال اور پر امن ملک ہوگا۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے کوئی دوسرا نہیں آئے گا، ہمیں خود اپنی مدد کرنا ہوگی۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ