17 جنوری کو جس وقت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سپریم کورٹ میں اپنی الوداعی گفتگو کر رہے تھے میں اور میری بیگم مسلم ٹاﺅن لاہور میں ایک اور سابق چیف جسٹس شیخ ریاض احمد کا گھر ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جہاں ہمیں ایک بزم دوستاں میں شریک ہونا تھا۔ جس کا اہتمام ان کے صاحبزادے مشہور صحافی، انگریزی زبان کے ادیب، ماہر تعلیم و تدریس اور سیاسی تجزیہ نگار رضا رومی کے حوالے سے کیا گیا تھا۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ عزیزی رضا رومی چند دنوں کے لیے امریکا سے آیا ہوا تھا جہاں وہ یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے اور آج رات اس کی واپسی تھی۔ وقت کی کمی اور مصروفیات کی زیادتی کے باعث وہ کئی ایسے دوستوں اور سینئر لکھاریوں سے باوجود خواہش کے مل نہیں سکا تھا۔ سو اس کی والدہ اور ہماری محترم بہن بلقیس ریاض نے جو خود بھی ایک نامور افسانہ نویس اور سفرنامہ نگار ہیں یہ حل نکالا کہ سب دوستوں کو ایک عصرانے میں مدعو کر لیا جائے۔
اگرچہ میں اس گھر میں کئی برس قبل خالد حمد مرحوم اور نجیب احمد کے ساتھ بارہا آیا گیا تھا مگر ان تینوں ماں باپ اور بیٹے سے بعد کی ساری ملاقاتیں کسی نہ کسی دوسری جگہ پر ہوئیں اور یوں مکان کا راستہ میرے ذہن سے اترگیا تھا۔
گزشتہ ایک برس میں میاں ثاقب نثار جس طرح مسلسل خبروں میں رہے ہیں اور میڈیا پر ان کی باتیں سننے اور مصروفیات دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ اس اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کے کسی چیف جسٹس کو (جسٹس افتخار سمیت) ایسی شہرت اور پذیرائی نہیں مل سکی جب کہ ان سے قبل اس عہدے پر 24 محترم حضرات مختلف اوقات میں فائز رہ چکے ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ سوائے مارشل لاﺅں کے دور کے زیادہ تر جج حضرات نے بڑی خاموشی سے اپنے آپ کو صرف عدالتی امور سے متعلق رکھ کر اپنا وقت گزارا اور کم و بیش اس اصول پر عمل کیا کہ جج نہیں بولتے ان کے کیے ہوئے فیصلے بولتے ہیں۔ شیخ ریاض احمد بھی اسی روایت کے خاموش اور غیر سیاسی آیندہے رہے جس کا آغاز جسٹس کارنیلئس سے ہوا تھا۔
جہاں تک میاں ثاقب نثار کی تصاویر، فیصلوں اور سوموٹو نوٹسز کا تعلق ہے اس کے بارے میں مختلف رائیں ہو سکتی ہیں لیکن اس بحث میں پڑے بغیر اور ان کی ذات کو موضوع بنانے سے قبل یہ دیکھنا بے حد ضروری ہے کہ جو بھی کام انھوں نے کیے کیا وہ واقعی اہم، ضروری اور توجہ طلب نہیں تھے؟ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جگہ جگہ کئی خلا موجود تھے اور ہیں اور سائنس کا کلیہ ہے کہ خلا کو بہرحال بھرنا ہوتا ہے جب کہ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اگر یہ بھرائی صحیح مواد اور قدرتی طریقے سے نہیں ہو گی تو بہت سی غلط چیزیں بھی اس میں شامل ہو جائیں گی جنھیں درست کرنا بہرحال ضروری ہوتا ہے اور یہ کہ اس خلا کو پر کرنا یا اس کو بھرنے والے مواد کے غلط حصوں کو درست کرنا بھی اسی معاشرے کے دیدہ وروں کی ذمے داری ہوتی ہے۔
سو آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ فلاں کام سپریم کورٹ کے کرنے کا نہیں تھا اس لیے میاں ثاقب نثار کو اس میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے تھا مگر یہ کہنا شاید صحیح نہ ہو کہ صرف اس بنیاد پر برائیوں کو قائم رہنے اور فروغ پانے کا حق خود بخود مل جاتا ہے یہ کام بہرحال کسی نہ کسی کو کرنا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اصل مسئلہ چیزوں کو اپنی اصل اور صحیح حالت میں لانا ہے۔ میاں ثاقب نثار یا ایسے ہی کسی اور درد مند شخص کے رویے یا استحقاق کا نہیں۔ میری ان سے کوئی ذاتی ملاقات یا واقفیت نہیں ہے مگر جو کچھ انھوں نے کیا اس کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے جس کی نصیحت باب علم حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کی تھی کہ ”یہ نہ دیکھو کون کہتا ہے، یہ دیکھو کہ وہ کیا کہتا ہے۔“
ان کے عدالتی فیصلوں پر کوئی رائے دینا میرے لیے یوں ممکن نہیں کہ اس کا تعلق علم قانون سے ہے اور جن پر بات بھی ماہرین قانون ہی کو کرنی چاہیے لیکن سچی بات ہے کہ کچھ معاملات اور شخصیات کے بارے میں ان کے بعض کمنٹس مجھے بھی اچھے نہیں لگے تھے۔ بالخصوص سینئر اور قابل احترام صحافی حسین نقی اور یونیورسٹیوں کے کئی محترم وی سی حضرات کے بارے میں ان کے ریمارک کسی بھی اعتبار سے جائز اور پسندیدہ نہیں تھے۔ اسی طرح چند سول سرونٹس کے مبنیہ خراب کاموں کے پس منظر میں تمام سرکاری افسران سے توہین آمیز لہجے میں بات کرنا بھی ایک قابل اعتراض بات ہے۔
لیکن اگر اعمال کی بنیاد نیتوں کو تسلیم کر لیا جائے تو دل کہتا ہے کہ یہ باتیں کسی اور رو میں ان کے منہ سے نکل گئی ہوں گی اور یہ کہ انھوں نے اپنی غلطی کو دل سے محسوس بھی کر لیا ہو گا یا یہ کہ اگر اس وقت ایسا نہیں کیا تو شاید اب کر لیں کہ رب کریم بے حد کریم اور معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا ان کے ان تمام نیک اعمال کو نظر میں رکھے گا۔ جو انھوں نے تعلیم، صحت، قانون کی حکمرانی، غریب کی دادرسی اور بالخصوص ڈیم کی ضرورت اور تعمیر کے حوالے سے کیے ہیں اور جن کی تعداد ان کے انگشت نمائی کے قابل اقدامات کی نسبت یقینا بے حد زیادہ ہے۔
اب امید کی جاتی ہے کہ ہماری عدالتی انصاف مہیا کرنے اور انسانی حقوق کی سربلندی اور پاسداری کے لیے آئندہ بھی اسی طرح سے مستعد اور پیش پیش رہیں گی اور ہمارے معاشرے کا رخ مسلسل روشنی کی طرف ہوتا چلا جائے گا۔
رضا رومی اور احباب سے ملاقات اور شیخ ریاض اور بلقیس ریاض سے اجازت لینے کے بعد گھر واپس لوٹتے وقت انصاف کے حوالے سے مجھے احمد ندیم قاسمی صاحب کا سنایا ہوا ایک حکایت نما واقعہ پتہ نہیں کیسے یاد آگیا لیکن اس کا نشہ ایسا تھا کہ میں ابھی تک اس میں گم ہوں، انھوں نے کہا :
ایک دفعہ کسی چھوٹے سے قصبے میں اس دور کے قاضی القضاءیعنی چیف جسٹس کسی دعوت میں شریک ہوئے تو علاقے کے میئر نے کھانے کے دوران انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمام اہل علاقہ کی طرف سے آپ کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے ہمارے شہر میں جو قاضی مقرر کیا ہے وہ انتہائی منصف مزاج اور ایمان دار ہے۔ اس پر بڑے قاضی نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور کہا :
”باقی باتیں بعد میں ہوں گی پہلے مجھے یہ بتاﺅ کہ کیا کوئی قاضی غیر منصف اور بے ایمان بھی ہو سکتا ہے؟“
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ