ستم ظریفی یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت سوشل میڈیا سے خوفزدہ ہے۔ تحریکِ انصاف جس نے کہ سوشل میڈیا کو اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران ایک مؤ ثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، اور مخلف سیاسی جماعتوں کو اس قدرزک پہنچائی کہ یہ جماعتیں اپنے اپنے سوشل میڈیا سیل قائم کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ آج اسی تحریکِ انصاف کی حکومت کے وزیرِ اطلاعات سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے اور اس پر کریک ڈاؤ ن کی نوید سناتے نظر آتے ہیں۔ وزیرِ موصوف کے بیان کے مطابق سوشل میڈیا کو جعلی اکاؤ نٹ بنا کر انتہا پسندی کے فروغ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک سوشل میڈیا سے ہماری آشنائی ہے، انتہا پسندانہ نظریات پھیلانے والے افراد اس مقصد کے لیے فیک آئی ڈیز بنانے کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ البتّہ انتہا پسندانہ نظریات کی مخالفت کرنے والے عموماً اس مقصد کے لیے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں مذہب کے نام پر اشتعال انگیزی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والے نڈر ہو کر دھڑلّے سے گھومتے ہیں، مگر انسانی حقوق اور آزادیء اظہار کے نام لیواؤ ں کو اپنی جان کے لالے پڑے رہتے ہیں۔
دیگر اشیاء کی مانند سوشل میڈیا کے استعمال کے بھی چند مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ مگر اربابِ اختیار اس میڈیم کی روز افزوں بڑھتی ہوئی طاقت اور مقبولیت میں بجا طور پر اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے دو مختلف خطوں کے رہائشی، مختلف مذہبی عقائد، مختلف رسم و رواج اور مختلف سوچ اور نظریات رکھنے والے افراد کے مابین دوری کو کم کر دیا ہے۔ یہ ان افراد کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیّا کرتا ہے جہاں یہ مختلف اذہان اپنی سوچ ایک دوسرے سے انٹرایکٹ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں انسانی ذہن کو سوچنے کی تحریک ملتی ہے۔ یہ ایک آزادانہ عمل ہے، جس کے نتائج منفی بھی ہو سکتے ہیں اور مثبت بھی۔ ان نتائج کا دارومدار عمومی طور پر اس عمل میں شریک افراد کی ذہنی بلوغت پر ہے۔ یقیناً انسان کے شعورِ علمی کا سامنا جب مختلف قسم کی سوچ سے ہوتا ہے تو اس عمل کے دوران دونوں ذہن ایک۔ دوسرے سے اثرات قبول کرتے ہیں۔ یہ اثرات چاہے جیسے بھی ہوں مگر بنیادی طور پر یہ عمل اذہان کو سوچنے پر ابھارتا ہے اور لوگوں میں اپنے کنویں سے باہر کی دنیا میں جھانکنے کی تحریک پیدا کرتا ہے۔
سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں اپنی رائے کا اظہار کرنے والوں کو کسی قسم کی سنسرشپ یا ادارتی پالیسی کا سامنا نہییں کرنا پڑتا۔ ہمارے حبس زدہ معاشرے میں سچ کے متلاشی اذہان کے لیے یہ ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا، اور ان موضوعات پر بھی سوال اٹھنے لگے جو کہ کبھی شجرِ ممنوعہ سمجھے جاتے تھے۔ بنیادی طور پر یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم اکثر ممالک میں مقتدر حلقوں کی نظر میں کھٹکتا ہے اور چین، بنگلہ دیش، ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک میں یہ سخت پابندیوں کی زد میں ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم روشن خیال اور آزادی ءاظہارِ رائے کی اہمیت کو تسلیم کرنے والی ترقی یافتہ اقوام کی بجائے ان ممالک کی پیروی کرنے کے درپے ہیں جہاں کے عوام بے جا پابندیوں اور آزادیء اظہار پر قدغن کا شکار ہیں۔ جہاں تک انتہا پسندی کے فروغ کا تعلق ہے تو اس کے لیے مذہبی جماعتوں کو مسجد کے منبر جیسا پلیٹ فارم میسّر ہے۔ حالیہ دنوں میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے والی جماعت، تحریکِ لبیک کے پیروکاروں میں زیادہ تعداد ایسے افراد کی ہے جو سوشل میڈیا کے استعمال سے نابلد ہیں۔ عوماً ان کی ذہن سازی اوراشتعال انگیزی کے لیے مولوی حضرات مساجد کے منبر کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ ہاں اگر سوشل میڈیا کو قابو میں لانا ضروری ہے تو شاید اس کی بنیادی وجہ ان معلومات کی عوام النّاس تک رسائی ناممکن بنانا ہے جن سے عوام کی آگاہی بعض حلقوں کے مفاد میں نہیں۔ یہی دیکھ لیجیے کہ اگر سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم میسّر نہ ہوتا تو حالیہ دنوں میں ساہیوال میں پیش آنے والا سانحہ لوگوں کی نظر سے اوجھل ہی رہتا، اور پولیس کے موءقف کو من و عن تسلیم کر لیا جاتا۔ پاکستان کے عوام کے نزدیک پشتون تحفّظ موومنٹ نامی کسی تحریک کا وجود تک نہ ہوتا۔ لاپتہ ہو جانے والے افراد کی گمشدگی سے متعلق صرف ان کے لواحقین ہی آگاہ ہوتے۔ سوشل میڈیا اس قدر بے لگام نہ ہوتا تو "مثبت رپورٹنگ” کو زیادہ بہتر طور پر یقینی بنایا جا سکتا تھا۔ ان اسباب و عوامل سے واضح ہے کہ سوشل میڈیا کے خلاف کریک ڈاءون اور ایسے شترِبے مہار کو لگام ڈالنا نہایت ضروری ہے، جسے دیگر ذرائع ابلاغ کی مانند روایتی ہتھکنڈوں سے قابو کرنا ممکن نہیں۔ ورنہ ایسی حکومت جہاں مشیروں کی تقرری اور برطرفی ٹویٹ کے ذریعے ہوتی ہو۔ جس ملک میں حکومتی پالیسی اور مستقبل کی سمت کا تعیّن وزیرِاعظم کے روزانہ نہار منہ کیے گئے ٹویٹ سے کیا جائے۔ ایسے ملک کی حکومت سوشل میڈیا کی اہمیت سے کیسے بے خبررہ سکتی ہے۔
فیس بک کمینٹ