مارچ کا وسط تھا، چھاجوں مینہ برس رہا تھا ،اولے پڑ رہے تھے اور پاکستان بھر کے بچے، بچیاں، او اے لیول اور میٹرک ایف ایس سی کے امتحانوں کی تیاری میں مشغول تھے کہ اچانک خبر آئی کل سے سکول، کالج، اکیڈمی سب بند ہیں۔
سب ہی جانتے ہیں کہ سال کے ان تین سے چار مہینوں میں یہ لاکھوں بچے کس طرح محنت کرتے ہیں۔ اکثریت بچپن ہی سے اپنے اہداف مقرر کر کے ایک لگن سے مشقت میں مصروف ہوتے ہیں۔
یہ بچے اپنا بچپن، اپنے کھیل کود کے دن، اپنی شرارتیں سب اپنے خوابوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی تعلیمی نظام ایک گورکھ دھندہ ہے۔ سکول، کالج کے اساتذہ کی اکثریت سوائے بچوں کو دھمکانے اور ان کی شخصیتیں کچلنے کے کچھ نہیں کرتی۔ ماں باپ بھی فقط رزلٹ کارڈ دیکھتے ہیں۔
نہ ملک میں کوئی یکساں تعلیمی نظام ہے اور نہ ہی ہمارے بچوں کا کوئی پرسان ہے۔ ہمارے بچے تو غریب کے وہ بچے ہیں کہ دو سانڈوں کی لڑائی میں یہ بچے تک قتل کر دیے گئے اور اے پی ایس کے اس قتل عام سے جو دہشت ہمارے بچوں پر چھائی اس پر ہمارے ساتھ رونے والا بھی کوئی نہ تھا۔
جو بچے سکول نہیں جا پاتے ان کا المیہ الگ رلاتا ہے، جو سرکاری سکولوں میں روز نئے تجربات اور میکاولے کے فارمولے کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ان کا دکھ ایک طرف ہے لیکن اب جو پاکستان کے متوسط طبقے کے بچوں کے ساتھ ہوا اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی۔
مارچ میں کووڈ 19 کی وبا کے باعث اچانک سکول بند کیے جانے کے بعد کہا گیا کہ کیمبرج آپ کو دو تجویزیں دے رہا ہے۔ پہلی تو یہ کہ اسی داخلہ فیس پر اکتوبر، نومبر میں امتحانات دے دیجیے۔ دوسرا یہ کہ متوقع گریڈز لے لیجیے۔
ظاہر ہے لائق ترین طلبہ نے متوقع گریڈز کی تجویز قبول کی۔ مگر تین روز پہلے جب نتائج کا اعلان کیا گیا تو وہ نہایت مایوس کن تھے۔ عام طلبہ کی تو چھوڑیے، وہ طلبہ جو سکالر شپ پر پڑھ رہے تھے، ان کو بھی ڈی گریڈ تک دیے گئے۔
اب ان طلبہ کا نہ صرف ایک سال ضائع ہو گا بلکہ انھیں امتحانی فیس بھی دوبارہ جمع کرانا پڑے گی۔ ذہنی تکلیف جو اٹھائی اس کا تو کوئی مداوا ہی نہیں۔
سکاٹ لینڈ نے یہ نتائج رد کر دیے۔ ہمارے وفاقی اور صوبائی وزرائے تعلیم، بیانات کی حد تک تو مذمت کر رہے ہیں لیکن دو لاکھ سے زائد طلبہ کے مستقبل اور والدین کی جیب پر اس بھار کا سچ مچ بھی کچھ مداوا کیا جائے گا یا کیمبرج کے ان طلبہ کے ساتھ ہمیشہ کی طرح سوتیلے بچے کا سا برتاؤ کیا جائے گا؟
کیمبرج سسٹم میں پاکستان کے اوپری متوسط اور متوسط طبقے کے طلبہ پڑھتے ہیں۔ اس نسل کے بچوں اور والدین کا المیہ یہ ہے کہ انھوں نے پرائیوٹ سکولوں اور کیمبرج سسٹم کے عشق میں اپنی بساط سے بڑھ کے تعلیمی اخراجات اٹھائے۔ میٹرک سسٹم کے جھول اور امتحانی نظام کی بے قاعدگیوں سے بچنے کو والدین اور بچے دونوں کیمبرج سسٹم میں پناہ تلاش کرتے رہے۔
ہر سال لاکھوں کی فیس بٹورنے والے سکولوں کی انتظامیہ چپ سادھے ہوئے ہے۔ ان کے پاس ماں باپ اور طلبہ کے سوالات کا کوئی جواب نہیں۔ سوائے اکھڑ لہجوں میں تیز تیز کرخت انگریزی جملے جن کا لب لباب یہ ہے کہ ’ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘
کیمبرج نے برسوں میں پاکستانی متوسط طبقے میں جو اعتماد جیتا تھا اور لاکھوں کروڑوں طلبہ کو جس طرح خود سے منسلک کیا تھا، وہ ساری عمارت ایک جھٹکے سے زمین بوس ہو گئی۔
بد اعتمادی اور پریشانی کی اس فضا میں جبکہ معاشی بدحالی بھی منہ کھولے کھڑی ہے، کئی والدین اپنے بچوں کے مستقبل پر سمجھوتہ کر لیں گے، کئی بچے ہمت ہار سکتے ہیں، کوئی برا قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ نہیں ہونا چاہیے۔
کیمبرج کو خود بھی اس معاملے کی سنگینی پر غور کرنا چاہیے اور اپنی ساکھ کو لگنے والے اس دھچکے سے بچنے کے علاوہ لاکھوں طلبہ کے مستقبل کا بھی خیال کرنا چاہیے۔
اس وقت حکومت کو ان نتائج کو رد کر کے پچھلی داخلہ فیس ہی پر اکتوبر، نومبر میں امتحانات لینے کی تجویز دینی چاہیے۔ یہ بچے ملک کا مستقبل ہیں۔ ہم نے ہمیشہ اپنے بچوں کے ساتھ زیادتی کی، کبھی غلط نصاب کے نام پر، کبھی سکول کے سخت ماحول کے نام پر، کبھی طبقاتی نظام تعلیم کے نام پر۔
اگر آج بھی ہم یہ زیادتی برداشت کر لیں گے اوران بچوں کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گے تو کل مت کہیے گا کہ بچے ہم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا؟ اس نسل نے دہشت گردی کی فضا دیکھی، سکول، پارک، سینما، کھیل کے میدان، ہر جگہ بم دھماکے اور موت کا خونی کھیل دیکھا۔
اس نسل کے پاس سوائے اس خواب کے کچھ نہ تھا کہ کیمبرج جیسے غیر جانبدار ادارے سے اچھے گریڈز لے کے وہ اپنا مستقبل بنا لیں گے۔ آج ان سے یہ خواب بھی چھن جائے گا تو ہم کل کے لیے ان سے کیا توقع رکھیں گے؟
تہتر برس میں ہم اپنا تعلیمی نظام تو بہتر نہ کر سکے لیکن کیا ہم عالمی سطح پر اپنے بچوں کے لیے بول بھی نہیں سکتے؟ شفقت محمود صاحب، ایس او ایس۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ