اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ 14اگست ہمارا یوم آزادی،کورونا سے بھی کسی قدر آزادی کا دن بن گیا۔ میں نے ان ہی کالموں میں یہ تمنّا ظاہر کی تھی کہ ہم 14اگست کو کورونا سے بھی آزادی کا ہدف بنائیں۔ خدائے بزرگ وبرتر نے سن لی۔ اور ہمارے ڈاکٹروں نرسوں اور میڈیکل اسٹاف کی شبانہ روز محنت رنگ لے آئی۔ 14اگست پوری دھوم دھام سے منایا گیا۔ عالمی ادارۂ صحت بھی حیرت زدہ ہے۔ طبّی ماہرین بھی کہ پاکستان نے اپنی تمام لاپروائی، قواعد و ضوابط کی عدم پابندی کے باوجود کورونا کا زور کیسے توڑ دیا۔
میں ایک بار پھر ان تمام درد مند پاکستانیوں کا ممنون ہوں جنہوں نے 1947کے مہاجر کیمپوں ، ہجرت کی صعوبتوں، انصار کے جذبے پر میری تحریروں پر والہانہ اظہار خیال کیا ہے۔ میری رہنمائی کی ہے۔ کتابیں مل رہی ہیں۔ انٹرنیٹ پر موجود خزانوں کے رابطے فراہم کیے جارہے ہیں۔ فیصل آباد سے ایم اسلم صاحب 1800صفحات پر اپنی تصنیف سے نواز رہے ہیں۔ ’لدھیانے والوں پر کیا گزری‘۔
میں ان دنوں ایک عجیب سی تسکین محسوس کررہا ہوں۔ چند ایک نکتہ چینیوں کے علاوہ احباب پاکستان کے اس ابتدائی دَور کی ابتلائوں کو محفوظ کرنے میں تعاون پر آمادہ ہیں۔ اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تحقیق کروانے پر اتفاق کررہے ہیں۔
2022 میں ان شاء اللہ پاکستان 75سال کا ہوجائے گا۔ آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی ہوگی۔ کیا ہمیں ابھی سے اس عظیم موقع کو شاندار اور یادگار طریقے سے منانے کی تیاریاں شروع نہیں کردینی چاہئیں۔ دستور یہی ہے کہ کیبنٹ ڈویژن کے تحت باقاعدہ ایک رہبر کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے، جو ایسے تاریخی ا یّام کے حوالے سے تقریبات کا لائحہ عمل تیار کرتی ہے۔ جس ملک کی بقا کے بارے میں برطانوی استعمار کو بھی امید نہیں تھی اور جس کو ناکام اور ختم کرنے کے درپے اس سے پانچ گنا بڑا ملک بھارت تھا۔ تمام علاقائی اور بین الاقوامی سازشوں۔ ہمارے اپنے حکمرانوں، اداروں کی فاش غلطیوں، لوٹ مار کے باوجود پاکستان اپنے قیام کے 75سال پورے کرے گا اور پلاٹینم جوبلی کی طرف گامزن ہوگا۔
فیس بک پر اور ویسے دفتروں، گلی کوچوں میں ایک حلقہ ایسا ہے جو ایسی پُر امید باتوں پر پھٹ پڑتا ہے۔ کیسی ڈائمنڈ جوبلی۔ کیسی آزادی۔ ہم کہاں آزاد ہیں۔ اب بھی غلاموں کے غلام ہیں۔ یہ تنقید۔ اختلافی رائے اپنی جگہ۔ پاکستان میں جو کچھ ہوتا رہا ہے ہر چند اس میں زیادہ تر قابل فخر نہیں ہے۔ اگر آپ دنیا کے نقشے اور تاریخ پر نظر ڈالیں تو کوئی ملک بھی ایسا مثالی نہیں ملے گا۔ جہاں سب کے سب شہری خوش ہوں۔ لیکن وہ اس مملکت سے اپنی وابستگی پر فخر کرتے ہیں اپنے دن اہتمام سے مناتے ہیں۔ ڈائمنڈ جوبلی کی تقریبات ظاہر ہے کہ آج کے ڈیجیٹل۔ آن لائن دَور کے مطابق ہوں گی۔ بنیادی مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ہم لمحۂ موجود کو اپنے ماضی کے تناظر میں پرکھیں۔ تحریک پاکستان یا کم از کم 1940 کی قراردادِ پاکستان کی منظوری سے لے کر 14اگست 2022تک مختلف شعبوں میں رُونما ہونے والے واقعات کو ریکارڈ پر لائیں۔ کتابی شکل میں بھی اور ڈیجیٹل بھی۔ ایک ویب سائٹ ڈائمنڈ جوبلی کے لحاظ سے تخلیق کی جاسکتی ہے۔ ان دو برسوں میں اگر تسلسل سے ہم یہ تیاری کریں گے تو ہماری یونیورسٹیوں، کالجوں،اسکولوں ،دینی مدارس میںیہ 75سال ویسے ہی موضوع سخن بنے رہیں گے۔ اپنی کلاسیک ادبی کتابوں کو ۔ صوفیائے کرام کے کلام کو۔ قائد اعظم ،قائد ملت اور ان کے بعد آنے والے حکمرانوں کی اہم مواقع کی تقریروں کے اقتباسات نئے سرے سے شائع کیے جائیں۔1940سے ہی کچھ گمنام ہیرو اپنی اپنی جگہ سرگرم رہے ہیں۔ ان سے نئی نسل کو متعارف کروائیں۔ پاکستان کی بنیاد جن مہاجرین کے گرم لہو پر رکھی گئی ہے۔ ان کے کوائف، مشرقی پاکستان، پنجاب، سندھ، سرحد،بلوچستان، آزاد کشمیر میں مہاجرین کا خیر مقدم اور تعاون کرنے والے خاندانوں کی کہانیاں۔ زراعت، صنعت، توانائی، تعلیم ، صحت اور دوسرے شعبوں میں کارہائے نمایاں کی تفصیلات۔
ہر ملک میں اچھے برے دَور آتے ہیں۔ مہرباں۔ با بصیرت حکمران بھی ہوتے ہیں۔ سفاک جابر غاصب بھی۔ وہ سب ہمارے ماضی کا ہمارے ریکارڈ کا حصّہ ہیں۔ ان کے اوراق حذف کرنے سے تاریخ کو نامکمل نہیں کرسکتے۔ ماضی قریب میں ہمیں عبدالستار ایدھی۔ رتھ فاؤ یاد آتے ہیں۔ اس وقت ڈاکٹر ادیب رضوی۔ ڈاکٹر عبدالباری۔ سٹیزن فائونڈیشن قابل تحسین ہیں۔ لیکن 1940سے ہی موجودہ پاکستان میں ہر ضلع اور ہر شہر میں ایسے مخیر حضرات و خواتین تھیں۔ جن کے ادارے مستحق ہم وطنوں کی صحت، تعلیم میں ہر ممکن مدد کرتے رہے ہیں۔ ان سب کو ہمیں ڈائمنڈ جوبلی کے وقت یاد کرنا چاہئے۔ ہم ان خاندانوں کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔ جنہوں نے قائد اعظم کے حکم پر پاکستان میں سرمایہ لگایا، کارخانے قائم کیے، بینک کھولے۔ پھر حکیم محمد سعید جیسے سچے پاکستانی کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ ہمارے علماء، اساتذہ اور بہت سے ایماندار اعلیٰ افسر ۔ ان سب کی خدمات کا احوال رقم ہونا چاہئے۔ آمریت اور جبر کے خلاف مزاحمت کرنے والے جان دینے والے صحافی، شاعر، سیاسی کارکن سب کا پاکستان کی بقا میں حصّہ ہے۔ فنون لطیفہ، فلم، موسیقی،ڈرامہ، سماجی خدمات اور کھیل سارے شعبوںمیں بہت مثالی لوگ رہے ہیں۔اسلام آباد میں ان سب سچے پاکستانیوں کی یادگاریں تعمیر ہونی چاہئیں۔
ماضی کو تلخیوں، غلطیوں، المیوں،طربیوں سمیت اپنانا ہوتا ہے۔موجودہ پاکستان ایک مثالی اقتصادی وحدت ہے۔ اس کا محل وقوع غیر معمولی ہے۔ اس کی 60فیصد نوجوان آبادی ہمارا اثاثہ ہے۔ ہم خیر کو سراہیں گے۔ شر کی مذمت کریں گے۔ لیکن پورے ماضی کو اپنےطنز اور طعنوں کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔ 1947 سے 1957 کے واقعات پر غیر جانبدارانہ تحقیق ایک طرح سے تحلیل نفسی ہوگی۔ پھر اس کی بنیاد پر ہم 1958کے پہلے مارشل لا سے لے کر 1971کے عظیم المیے کے اسباب جان سکیں گے۔ حکومت ڈائمنڈ جوبلی کا اعلان کرے یا نہ کرے پرائیویٹ ادارے تو اس کی تیاریوں کا اعلان کریں گے۔ عام شہریوں سے رائے لی جائے۔ سمندر پار پاکستانی قیمتی تجاویز دے سکتے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ