واہ! آزادی کے متوالوں کا کیا خوب جشنِ آزادی ہے۔ دُنیا بھر میں کہیں آزادی کا جشن ایسے جوش و خروش سے نہیں منایا جاتا جیسے لاہور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں۔ آزادی کے اس والہانہ اظہار پر آزادیٔ جمہور کا خواب تازہ ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی ہر نقشِ کہن کو مٹانے کی آس کی کسک بے چین کر دیتی ہے۔ جشنِ آزادی پہ علامہ اقبال کا یہ مصرعہ ذہن میں کوند جاتا ہے: اِک جذبۂ پیدائی، اِک لذتِ یکتائی۔ لیکن ساتھ ہی اس پیرانہ سالی میں یہ تلخ تاریخی احساس بھی دل و جان کو آن گھیرتا ہے اور اقبال ہی کے مصرعے میں: تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا۔ اس کے لیے تاریخ کے گم گشتہ صفحات پھرولنے پڑیں گے۔ برصغیر ہند کا لفظ فارسی زبان کے لفظ ’’ہندوس‘‘ سے نکلا ہے جو ہندوستان میں بدل گیا اور سنسکرت کا لفظ ’’سندوس‘‘ بھی اس کا مخرج لگتا ہے یعنی سندھ کا عقب۔ بعد ازاں ہند اور سندھ کی اصطلاح بھی تاریخی حوالہ بنتی گئی۔ عجب بات ہے کہ وادیٔ سندھ میں جو مذاہب پھیلے وہ ذات پات کی تفریق سے پاک تھے اور ستلج کے اُس پار جاتی واد کا راج تھا اور وادیٔ سندھ یا سپت سندھو اس سے محفوظ تھا۔ حملہ آور آریاؤں سے پہلے یہاں کے قدیم باشندے دراوڑ کہلائے جو آج کے تامل ہیں جنہیں سری لنکا میں تہِ تیغ کر دیا گیا۔ لیکن اشوک کے سواکسی زمانے میں ہندوستان کوئی ایک ملک نہ تھا، نہ ہی کوئی ایسی ایک واحد تہذیبی سنہری بنیاد جس پر ایک بے جوڑ کہری ہندو تہذیب کی بنیاد رکھی جا سکتی۔ انڈین تاریخ دان رومیلا تھاپر نے اپنی کتاب انڈین کلچر اینڈ ہیریٹج اور انڈین ثقافت پہ اپنے لیکچرز میں ہندوتوا کے نظریہ دانوں کی اِک سنہری نشاۃِ ثانیہ کی معتصبانہ اور ماورائی صنم تراشی کی خوب قلعی کھولی ہے اور جاتی واد، دھرم واد اور رام راج کی خوب نندیا کی ہے۔ پھر دہلی کی سلطنت قائم ہوئی اور اس سے برسرِپیکار رجواڑے اور اُن کے مابین علاقہ خوری کی جنگیں۔ جس سومنات مندر کی لوٹ پر بعض مسلم تاریخ دان خوب بغلیں بجاتے ہیں وہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے 17 حملوں میں اُس نے برصغیر کو کس ظالمانہ طریقے سے تاراج کیا اور مسلمانوں سمیت کسی کو نہ بخشا اور بہت سے ہندو تاریخ دان یہ فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ یہ عرب تاجر تھے جنہوں نے سومنات سمیت دیگر مندروں کو بچانے کی کوشش کی۔ جس اورنگزیب کے گیت ہم گاتے نہیں تھکتے اُس نے خود اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا کیا اور وہ کس طرح ہندو مسلم تعلقات میں تاریخی کانٹے بچھا گیا۔ ہر دو اطراف کے فرقہ پرست یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ صوفیائے کرام کی آمد سے بہت پہلے بھگتی لہر کے mystics، تلسی داس، کبیر، رحیم، میرا بائی اور دوسرے بہت سے شعرا اور مغنیوں نے انسانیت اور انسانی بھائی چارے کے گیت گائے۔ کبیر نے کیا خوب کہا تھا:
مو کو کہاں ڈھونڈے رے بندے! میں تو تیرے پاس میں!
نا صورت میں نا مورت میں، نا ایکانت نواس میں،
نا مندر میں نا مسجد میں، نا کعبۂ کیلاش میں
یہی کچھ ہمارے صوفی شعرا کہتے گزر گئے اور آج بھی ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ بابا بلھے شاہ نے کیا خوب کہا تھا: سجدے کر دیاں گھس گئے متھے نہ رب تیرتھ نہ رب مکے۔
افغان، عرب اور ترک النسل حملہ آوروں کو جانے کیوں مسلم حملہ آوروں کا نام دیا گیا۔ جبکہ انگریز حملہ آوروں کو کسی نے عیسائی حملہ آور نہیں کہا۔ احمد شاہ ابدالی نے لاہور اور دلی سمیت شمالی ہندوستان میں کیا کیا مظالم نہیں ڈھائے جسے ہمارے افغان بھائی اپنا قومی ہیرو قرار دیتے کوئی خفت محسوس نہیں کرتے، خود شاہ ولی اللہ افغان حملہ آوروں کو دعوتِ جہاد دینے پر کتنے نادم ہوئے اور بلھے شاہ نے کہا: در کھلا حشر عذاب دا، برا حال ہویا پنجاب دا۔ (جانے کیوں ہمارے میزائلوں کے نام ابدالی اور غوری کے ناموں پہ رکھے گئے؟) مغلیہ سلطنت کے عروج میں اور اکبر اعظم کے زمانے میں صلح کُل کا نقارہ بجتا تھا اور ایک ’’قومی ریاست‘‘ کی تشکیل کے دوسرے مرحلے کے عناصر تشکیل پا گئے تھے۔ جب دلی کی سلطنت کا زوال ہوا تو انگریزوں کے خلاف 1857 کی جنگِ آزادی لڑی گئی جس میں ہندو مسلم سب شامل تھے۔ اس کی خون آشام ناکامی پر برطانوی راج قائم ہوا۔ ہندوستان میں ڈنڈے اور جدیدیت کے زور پر ایک نوآبادیاتی ریاست قائم ہوئی۔ اینگلو سیکسن قوانین، عدالتی و پولیس نظام، سول سروس و انتظامیہ، افواج، ریلوے اور نظامِ مواصلات، جدید تعلیم و صحت کا نظام اور زمین کا بندوبست استمراری۔ انگریز آقا، باجگذار جاگیردار اور رجواڑے اور کالے صاحبوں کی مدد سے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی حکمت عملی کارفرما ہوئی۔ پھر جدوجہدِ آزادی کا آغاز ہوا۔ ایک طرف اودھ اور دہلی کی شاہیوں کے زوال پہ مسلم اقلیتی علاقوں میں احساسِ محرومی بڑھا اور وہاں سرسیّد احمد خاں اور اُن کے علی گڑھ کالج نے مسلم قومیت کے تصورات کو بڑھاوا دیا۔ دوسری طرف کانگرس بنی اور گاندھی جی مہاتما ہوئے اور محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے سفیرِ اعظم۔ ہندو مسلم اتحاد کا بڑا مظاہرہ لکھنؤ معاہدے کی صورت سامنے آیا جو بعد ازاں نہ چل سکا۔ مسلم لیگ کی بنیاد پہلے ہی ڈھاکہ میں پڑ چکی تھی۔ ایک بڑا واقعہ تحریکِ بحالیِ خلافتِ عثمانیہ اور ترک انڈیا کی تحریک سے ہوا۔ جہاں گاندھی جی نے اس کی حمایت کی وہاں جناح صاحب اس کے مخالف تھے۔ سیکولر جناح گاندھی جی کے مذہبی بھیس اور ہندو بیانیے کے بڑے شاکی تھے اور جاگیرداروں نوابوں کی انگریزوں کی وفادار مسلم لیگ سے نااُمید۔ یہی وقت تھا جب 1925 میں راشٹریہ سیوک سنگھ کی بنیاد رکھی گئی جو ہٹلر کی فسطائیت سے متاثر تھی لیکن جنگِ آزادی سے باہر رہی اور ایک ہندو قوم، ایک زبان اور رام راج یا ہندو راشٹرہ کی مالا جپتی تھی۔ کانگریس میں بھی ہندو تنگ نظر اور سیکولر رجحان شروع سے تھے جس کا اظہار گوکھلے اور تلک کے رجحانات میں ہوتا رہا۔
سبھاس چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی اگر کٹر انگریز مخالف تھی تو فسطائی جرمنی و جاپان کی اتحادی بھی جبکہ ڈاکٹر امبیدکر ذات پات کے مخالف سماج وادی رہنما تھے۔ جواہر لعل نہرو ایک سوشلسٹ اور سیکولر رہنما تھے، جبکہ جناح ایک لبرل سیکولر آئین پرست اور ملائیت و ہندتوا کے کٹر مخالف۔ تاآنکہ 1940 میں قراردادِ لاہور پاس ہو گئی جس میں مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل مقتدر زونز اور خودمختار اکائیوں پر اصرار کیا گیا اور مختلف مذہبی اکثریتوں کے علاقوں میں اقلیتوں کے مساوی حقوق کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا۔ ایک عجب تضاد جو اُبھر کر آیا وہ یہ تھا کہ نظریۂ پاکستان کا زور اقلیتی مسلم علاقوں میں رہا۔ جبکہ مسلم اکثریتی علاقوں میں اس کی پذیرائی نہ ہونے کے باوجود، پاکستان وجود میں آیا بھی تو ان مسلم اکثریتی علاقوں کی بنیاد پر جنہیں ہم آج وفاقی اکائیاں کہتے ہیں۔ 1946 میں قائداعظم نے تو کیبنٹ مشن پلان کے تحت ایک ڈھیلے وفاق اور خودمختار اکائیوں پہ صاد کر لیا تھا، لیکن کانگریس کی قیادت راضی نہ ہوئی اور پارٹیشن کا فیصلہ کر لیا گیا۔ پارٹیشن پلان پر کانگریس اور مسلم لیگ متفق ہو گئے، لیکن قائداعظم پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے خلاف آخری وقت تک لارڈ مائونٹ بیٹن سے بحث کرتے رہے۔ لیکن وقت گزر چکا تھا اور نہ صرف پنجاب اور بنگال بلکہ پورا ہندوستان فرقہ وارانہ فسادات کی نذر ہو گیا۔ یوں ہندوستان اور پاکستان کو ایک خون میں نہاتی ہوئی اور گہنائی ہوئی آزادی ملی، جس پہ فیض نے کہا تھا:
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ