سات کا عدد بہت ہی پراسرار ہے۔ سات سہیلیاں، سات ستارے، سات پھل، سات سر، سات سمندر، ہفتے کے سات روز اور خوش عقیدہ لوگ تو اس عدد کو ایک ہلکی سی لکیر لگا کر صلیب کی شکل بھی دے دیتے ہیں۔ وہی صلیب جو، ازلی سچ اور اس سچ کے لیے ہر اذیت برداشت کر کے امر ہو جانے کی علامت ہے۔
تو صاحبو! یہ سات کا ہندسہ، کیا عجیب ہندسہ ہے۔ اکثر کہانیوں میں مغرور شہزادیاں لفنگے شہزادوں کو سات سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے لیے دشت و صحرا میں بھٹکنے کو چھوڑ دیا کرتی تھیں۔
کیا ہی عجیب اتفاق ہے کہ یوسف رضا گیلانی صاحب کے بھی سات احباب ایسے نکلے جن کے ہاتھ مہر لگاتے ہوئے لرز گئے اور ووٹ ضائع ہو گئے۔ ایک اور الف لیلوی کہانی، نہ ہوئے خلیفہ ہارون الرشید، لکھوا کر کتب خانے میں محفوظ کراتے اور آنے والی نسلیں پڑھتیں اور سر دھنتیں۔
جو بھی ہوا ایک بات ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئی کہ نوشتہ دیوار خواہ کچھ بھی ہو، وہ بدنام زمانہ صفحہ جس پر کچھ لوگ اکٹھے ہیں، ابھی سلامت ہے اور دیمک اسے چاٹنے سے گریزاں ہے۔
اس الف لیلوی دور میں، جس میں ہم جی رہے ہیں جو نہ ہو جائے، کم ہے۔ ہم نے تو جغادری تجزیہ نگاروں کو بھی انگشت بدنداں دیکھا مگر مجھے اس انتخاب پر چنداں حیرت نہ ہوئی۔
جو انتظام بست و کشاد چل رہا ہے اس میں اس کے سوا اور کیا نتیجہ سامنے آ سکتا تھا؟ ظالم، بے انصاف اور بارسوخ اپوزیشن، ایک بار اگر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو گئی تو آپ کیا سمجھ بیٹھے تھے کہ اب یہ سلسلہ یوں ہی چلے گا؟
خیال خام تھا اور دن میں دیکھا جانے والا ایک خواب۔ یقیناً آپ سب اس خواب سے باہر آکے حقیقت کو دیکھ اور سمجھ رہے ہوں گے۔ حقیقت وہی ہے جو برسوں سے جاری ہے اور جاری رہے گی۔ سب لوگ ہر کام بھول کر ڈبے کے اندر مہر لگانے اور ڈبے کے باہر مہر لگانے کا قصہ سننے اور سمجھنے کو بیٹھے رہیں گے۔ داستان گو قصہ سناتا رہے گا، ہم قصہ سنتے رہیں گے اور وقت کسی جیب کترے کی طرح ہماری جیب کاٹ کے چلتا بنے گا۔
پرانے وقتوں کی کہانیوں میں جب کہیں جھول آ جاتا تھا اور لاکھ داستان طرازی کے باوجود کسی طرح چھپتا نہ تھا تو کسی غیر مرئی مخلوق کی مداخلت سے یہ جھول پر کر دیا جاتا تھا۔
جیسا کہ شہزادہ چاروں طرف سے آفات میں گھر چکا ہے اور موت سامنے کھڑی ہے، ایسے میں اچانک ایک قالین اسے اڑا کر لے جاتا تھا۔ یا پھر کوہ ندا کے عین دامن میں پہنچ کر نہتے شہزادے کو ایک سفید ریش بزرگ ملتے تھے جو اسے چند جادوئی تحفے دے کر خود پتلی گلی سے نکل لیتے تھے۔
ان مخلوقات کی ایسی دہشت طاری ہوتی تھی کہ قاری بے چارہ پوچھ ہی نہ پاتا تھا کہ آخر یہ سب اس لفنگے شہزادے کی مدد کیوں کر رہے ہیں جو فقط ایک شہزادی کے سوالات کے جواب ڈھونڈ رہا ہے۔ باقی ملک جائے اس کی بلا سے بھاڑ میں۔
نہ یہ سوال ہم کل کر پائے نہ آج ہی پوچھ سکتے ہیں۔ کہانی اتنی دلچسپ ہے کہ سانس روک کے سن رہے ہیں اگر ذرا بھی تاب ہوتی تو ایک سوال ضرور کرتے کہ کیا سارے ضائع شدہ ووٹ گیلانی صاحب کو ہی ملے تھے؟ سنجرانی صاحب کا ایک ووٹ بھی ضائع نہ ہوا؟ مگر ڈر یہ ہے کہ ڈانٹ نہ پڑ جائے۔ ’جنٹل مین! کہانی سنو، سوال مت کرو، سنجرانی جیتے یا گیلانی، تم کو کیا ملے گا؟‘
ملے گا تو واقعی کچھ نہیں ،اس لیے یہ سوال بھی باقی سوالات کے ساتھ طاق نسیاں پر رکھیے اور تماشا دیکھیے، بازیچہ اطفال ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ