صلاح الدین ہم سب کو منہ چڑاتا، پولیس حراست میں راہ ملک عدم ہوا۔ پیچھے رہ گئی پنجاب پولیس جس کے ہاتھ صلاح الدین، عامر مسیح اور جانے کتنے مظلوموں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ دستانے پہننے کا تکلف بھی نہیں مگر کوئی مائی کا لعل ان ہاتھوں سے ٹپکتے لہو پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ پنجاب پولیس کولونیل عہد کا تحفہ ہے۔ سنہ 1861 میں بننے والا یہ ادارہ دو ایک بار کچھ تبدیلیوں سے گزرا لیکن یہ تبدیلیاں انتظامی نوعیت کی تھیں۔
آٹھ نو برس پہلے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق پنجاب پولیس سب سے زیادہ کرپٹ سول ادارہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ سروے اگر دوبارہ کیا جائے تو بھی نتیجہ یہ ہی ہو گا۔ ’مک مکا‘ اور ’چائے پانی‘ دو ایسی اصلاحات ہیں جن کا معنی ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا اسے جلد ہی ’لگ پتا جاتا ہے۔‘
ہمارے ہاں ایک دعا دی جاتی تھی کہ خدا کبھی دشمن کو بھی تھانے کی تھڑی نہ چڑھائے۔ شریف انسان دور سے پولیس والے کو دیکھ کر راستہ بدل لیتا ہے۔ پراپرٹی ڈیلرز کو خاص طور پر کہا جاتا ہے کہ مکان کے لیے کرایہ دار کوئی پولیس والا نہ ہو۔ اکثر پولیس اہلکار اپنی تنخواہ سے کہیں زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ چند ہزار تنخواہ پانے والا پولیس والا جب کروڑوں کا مکان کھڑا کر لیتا ہے تو اس کے ماتھے پہ طغرہ لگواتا ہے ’ھذا من فضل ربی۔‘
اب ایسا ہے کہ اکثر لوگوں کے بابا جی کہہ گئے ہیں کہ جسے خدا عزت دے اس کی عزت کرو چنانچہ لوگ خاموش رہتے ہیں۔
پنجاب پولیس آزادی کے بعد کس طرح، سیاستدانوں اور بارسوخ لوگوں کا ذاتی غنڈہ بنی، نجی عقوبت خانے اور جیلیں کب اور کہاں وجود میں آئیں، پولیس مقابلے کی حرکیات کیا ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
پولیس کا طریقہ کار سب کو معلوم ہے۔ شکایت لے جانے والے کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اور ایف آئی آر درج نہ کرنا معمول کی بات ہے۔ ایف آئی آر اس لیے درج نہیں کی جاتی کہ اس طرح ان کے علاقے میں رجسٹرڈ جرائم کی شرح بڑھ جائے گی اور ان کی کارکردگی پر حرف آئے گا۔ چنانچہ جرائم کو ختم کرنے کی بجائے جرائم کا اندراج ہی نہیں کیا جاتا۔
شکایت کے اندراج کے بعد پولیس کا کام ملزم کو پکڑنا ہے۔ اس کام کے لیے بھی پنجاب پولیس کی اپنی خاص جوگاڑ ہے۔ ملزم مفرور ہو تو اس کے گھر والوں، جوان بہن یا بیوی یا بوڑھے ماں باپ کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ اب یہ کس کو اندازہ نہیں کہ ان بے گناہوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔
ملزم ہاتھ آ جائے تو اس کا جسمانی ریمانڈ لیا جاتا ہے تاکہ اس سے سچ اگلوایا جا سکے۔
بات یہاں آ کر بالکل بگڑ جاتی ہے۔ جسمانی ریمانڈ ہی وہ وقفہ ہے جس میں کئی لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ خود کو خاصا مہذب بھی کہتا ہے مگر یہ بات ہمیشہ ہی میری سمجھ سے بالاتر رہی کہ جو شخص مار کھا رہا ہے وہ تو ملزم ہے، جو اسے مارنے پر مامور ہے اس کا جرم کیا ہے؟
کسی پر تشدد کرنے کے بعد، تشدد کا مرتکب کیا وہی شخص رہ جاتا ہے جو اس واقعے سے پہلے تھا؟
پولیس محکمے میں جہاں ایک غیر رسمی کردار خبری کا ہے، وہیں پولیس مقابلے کے ماہر اور تشدد کے ماہرین بھی موجود ہیں۔
آج تک کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ایک ادارے کی سر پرستی میں کچھ انسانوں کو انسان سے حیوان کیوں بنا دیا جاتا ہے؟
ملزم سے سچ اگلوانے کا کیا کوئی مہذب طریقہ دریافت نہیں ہوا ہے؟ پولیس مقابلہ آج بھی سرکار کی سرپرستی میں کیوں چل رہا ہے؟ پولیس والوں کی نفسیاتی کیفیت کے بارے میں آخر کیوں کوئی فکر مند نہیں؟
کیا کوئی ادارہ پولیس والوں کی نفسیاتی جانچ کرتا ہے؟ جرم، قتل، قبر کشائی اور کئی بار مسخ شدہ لاشوں کو دریافت کرنے اور اسی طرح کے تکلیف دہ معاملات سے گزرنے کے بعد کیا پولیس والوں کو مستقل بنیادوں پر ذہنی مدد کی ضرورت نہیں؟
اگر پولیس کے ادارے میں ایسی کوئی سہولت اپنے اہلکاروں کے لیے موجود ہے تو مجھے اس کا علم نہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ وردی جس قدر با اختیار کرتی ہے اسی قدر ذمہ داری باوردی اداروں کی تشکیل کرنے والوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔
انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ طاقت بگاڑتی ہے اور بے پناہ طاقت بیڑہ غرق کر دیتی ہے۔ ممکن ہے میرا ترجمہ درست نہ ہو مگر پولیس کے معاملے میں ہمارا مجموعی تجربہ غلط نہیں ہے۔ مکمل طور پر نہ سہی مگر جزوی طور پہ پنجاب پولیس ذہنی الجھنوں کا شکار ہے۔
عدم تحفظ، بیورو کریسی کے معاملات، سیاسی اور برادری کا دباؤ، مجرموں کی الجھی ہوئی نفسیات سے پالا پڑنا، ان سب نے مل کر پولیس والوں کو قاتلوں اور غنڈوں کا ایک گروہ بنا دیا ہے جن سے سب پناہ مانگتے ہیں اور یہ ایک بے حد شرمناک بات ہے۔
چند ایک معطلیوں اور تبادلوں کی بجائے اس ادارے کو از سر نو تشکیل دیا جائے۔
وردی بدلنے اور عہدوں کے نام بدلنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ سب سے پہلے اس ادارے کو برادریوں اور سیاسی جماعتوں کے غنڈوں سے آزاد کرانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ان سب کا نفسیاتی علاج بھی ضروری ہے۔ کس قدر خوفناک بات ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں پولیس کا محکمہ ذہنی طور پر بیمار ہے۔
اگر یہ بیمار نہ ہوتے تو ایک بے چارے ذہنی مریض سے جس کے بازو پر اس کا نام پتہ تک لکھا ہوا تھا یہ سوال نہ کرتے کہ توں ایہہ اشارے کرنے کتھوں سیکھے؟ اور جب وہ جواب میں کہتا کہ اک گل پچھاں مارو گے تے نیئں، تسی مارنا کتھوں سکھیا؟ تو اس بات پر ٹیلی ویژن انٹرویو میں خفا نہ ہوتے کہ آپ نے دیکھا نہیں کہ وہ سوال در سوال کر رہا تھا؟
اب مزید کیا لکھوں؟ اس ایک سوال میں سارے محکمے کی نفسیاتی کیفیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ خدا ہم سب کو تھانے کی تھڑی چڑھنے سے محفوظ رکھے، آمین!
(بشکریہ:بی بی سی اردو)