حکومت میں شامل پارٹیاں 26 ویں آئینی ترمیم پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے عدلیہ کی آزادی و شفافیت کے لیے اہم قرار دے رہی ہیں تو تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے اسے ملکی تاریخ کا تاریک دن قرار دیتے ہوئے عدلیہ کی خود مختاری پر حملہ کہاہے۔ تحریک انصاف کے حامی وکلا کے علاوہ سند ھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی عجلت میں منظور کی گئی اس آئینی ترمیم کو سیاہ باب قرار دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنانے سے انکار کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔
اگرچہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کیا نئے طریقہ کے مطابق 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو نظر انداز کرکے تیسرے نمبر پر موجود جسٹس یحیی آفریدی کو ملک کا آئیندہ چیف جسٹس مقرر کرنے کی سفارش کرے گی یا یہ افواہیں غلط ثابت ہوں گی۔ اور جسٹس منصور علی شاہ کو ہی چیف جسٹس بنا دیا جائے گا جو اس وقت سب سے سینئر جج ہیں۔ پرانے طریقے کے مطابق 26 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منصور علی شاہ ہی سپریم کورٹ کے نئے سربراہ بننے والے تھے لیکن آئینی ترمیم کے بعد اب یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ انہیں ’حکومت مخالف‘ سمجھتے ہوئے شاید اس عہدہ پر مقرر نہ ہونے دیا جائے۔ نئی آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کے عہدے کی میعاد تین سال مقرر کی گئی ہے۔ یعنی نیا چیف جسٹس اب تین سال تک اس عہدے پر فائز رہے گا۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے صدر مملکت آصف علی زرادری کے دستخط کے بعد قانون بننے والی 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے سینیٹ سے چار نامزد ممبران میں جمعیت علمائے اسلام ( ف ) کے کامران مرتضیٰ، پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک، مسلم لیگ ن کے اعظم نذیر تارڑ اور پی ٹی آئی کے بیرسٹر علی ظفر شامل ہیں۔ اسی طرح خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے قومی اسمبلی کے 8اراکین میں مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف، احسن اقبال اور شائستہ پرویز شامل کیے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف اور نوید قمر جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے بیرسٹر گوہر اور صاحبزادہ حامد رضا اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رعنا انصار کو خصوصی پارلیمانی پارٹی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس کمیٹی کو سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کو ملک کا نیا چیف جسٹس مقرر کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ کمیٹی کی سفارش پر وزیر اعظم، صدر کو نیا چیف جسٹس مقرر کرنے کے لیے نام بھیجیں گے اور اس کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے گا۔ حکومت نے چھبیسویں ترمیم منظور ہونے کے انتظار میں جسٹس منصور علی شاہ کی تقرری کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا تھا۔
یوں تو جسٹس منصور علی شاہ ایک متوازن جج اور اعلیٰ قانونی دماغ سمجھے جاتے ہیں لیکن قیاس یہی ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے انہیں اپنا ’پسندیدہ‘ قرار دینے کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے حکومت شاید ان کے بارے میں نرم گوشہ نہ رکھتی ہو۔ جسٹس منیب اختر کو ہمیشہ سے تحریک انصاف کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے بظاہر قرعہ فال جسٹس آفریدی کے نام نکلنے کا امکان ہے۔ تاہم اگر حکومت نے یہ انتہائی فیصلہ کیا تو اسے ملک میں شدید سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شاید وکلا تنظیمیں بھی اس حوالے سے احتجاج رجسٹر کرائیں اور احتجاج کا سلسلہ شروع کرنے کی کوششیں بھی ہوں۔ تحریک انصاف کے لیڈر اور سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر حامد خان نے پہلے ہی نئی ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے اس ترمیم کے خلاف مہم چلانے کا ا علان کیا ہے۔ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے بھی صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر جسٹس منصور علی شاہ کو نیا چیف جسٹس نہ بنایا گیا تو تحریک انصاف کسی دوسرے جج کو چیف جسٹس قبول نہیں کرے گی اور احتجاج کیا جائے گا۔
البتہ موجودہ حالات میں یہی دکھائی دیتا ہے کہ اس حوالے سے تحریک انصاف بدستور دوہری حکمت عملی پر کاربند ہے۔ اس نے 26 ویں آئینی ترمیم کو حتمی شکل دینے میں مکمل ’تعاون‘ کیا اور مولانا فضل الرحمان کے ذریعے اس ترمیم کی شکل و صورت تبدیل کرنے پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کی۔ لیکن آخری وقت میں اس کی حمایت میں ووٹ دینے سے گریز کیا۔ البتہ ووٹنگ کے بائیکاٹ کے حوالے سے یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ تحریک انصاف نے نئی آئینی ترمیم کی مخالفت میں بھی ووٹ نہیں دیے۔ اسی طرح ایک طرف پارٹی کے چئیرمین گوہر علی نئی ترمیم کو ’قابل قبول‘ قرار دے رہے تھے لیکن سیاسی ماحول اور دیگر شکایات کی وجہ سے اس ترمیم کے لیے ووٹ دینے سے معذرت بھی کررہے تھے۔ البتہ پارٹی کے متعدد دوسرے لیڈر اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ بتا رہے تھے۔ اس طرح یہ واضح نہیں ہوسکا کہ تحریک انصاف کا اصل مؤقف کیا ہے۔ کیا وہ اس آئینی ترمیم کے متن ہی کو غلط سمجھتی ہے یا صرف موجودہ حکومت یا پارلیمنٹ پر اعتراض کی وجہ سے ووٹ دینے سے انکار کیا گیا ہے۔
اسی حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی نے جب پارٹیوں سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی مقرر کرنے کے لیے نام مانگے تو چند گھنٹے کے اندر تحریک انصاف سمیت سب پارٹیوں نے نام فراہم کردیے اور شام تک نئی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا نوٹیفیکیشن بھی جاری ہوگیا ۔حالانکہ اگر تحریک انصاف اس عمل میں رکاوٹ بننا چاہتی تو وہ نام دینے میں ہی تاخیر کرسکتی تھی تاکہ آئینی تقاضے کے مطابق یہ کمیٹی نئے چیف جسٹس کا نام فائنل نہ کرسکے اور حکومت کے لیے ایک نئی مشکل کھڑی ہوجائے۔ کیوں کہ 26 ویں ترمیم کے مطابق اس کمیٹی کو چیف جسٹس کی ریٹائر منٹ سے تین دن پہلے نئے چیف جسٹس کا نام دینا ہوگا۔ اگرچہ یہ سہولت صرف اس بار کے لیے ہے اور آئیندہ نام تجویز کرنے کی مدت دو ہفتے ہوگی۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ بیرسٹر گوہر علی کی سربراہی میں تحریک انصاف حکومت کے لیے کسی ’پریشانی‘ کا باعث نہیں بننا چاہتی۔ تحریک انصاف کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ عمران خان جیل میں ہیں اور ان کی اولین ترجیح اپنی رہائی ہے۔ وہ پارٹی کی پوری قوت صرف اس ایک مقصد کے لیے صرف کرنے کی تاکید کرتے ہیں لیکن پارٹی قیادت ان کی خواہش پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہورہی۔ 26 ویں ترمیم کے لیے ووٹ نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عمران خان اور جیل کے باہر پارٹی قیادت میں اس بارے میں اتفاق رائے نہیں تھا۔
اس میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ عدلیہ کی اصلاح اور ججوں کی تقرری کے حوالے سے طریقہ کار میں تبدیلیاں ضروری تھیں۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ دنیا بھر میں پارلیمنٹ یا انتظامی سربراہ کو جج مقرر کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اس کی ضرورت بھی اسی لیے پیش آئی کہ پاکستانی عدلیہ نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران میں سیاسی و انتظامی معاملات میں غیر ضروری مداخلت کا طریقہ اختیا رکیا ہؤا تھا۔ ججوں میں قانونی تفہیم کی بجائے سیاسی وابستگی کی بنیاد پر فیصلے کرنے اور گروپ بنانے کا رجحان مضبوط ہو چکا تھا۔ اعلیٰ عدلیہ کسی بھی وقت کسی بھی حکومتی فیصلے کو مسترد کرنے کے علاوہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیتی۔ حتی کہ اپنی مرضی کے مطابق ملکی آئین کی تشریح کرکے سیاسی اہداف حاصل کیے گئے۔ کسی ملک میں یہ صورت حال تادیر برداشت نہیں کی جاسکتی۔ اگر نئی آئینی ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کی جوابدہی کا طریقہ وضع نہ ہوتا تو شاید پورا نظام ہی تباہ ہوجاتا۔
اسی لیے ترمیم کی ضرورت اور اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرتا لیکن جس طریقے سے یہ ترمیم تیار کرکے اس پر بات چیت مکمل کی گئی، وہ ضرور مشکوک ہے۔ خاص طور سے ایک چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے پہلے اور نیا چیف جسٹس مقرر ہونے سے پہلے اس ترمیم کا اہتمام کرنا ، واضح طور سے عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش سمجھی جائے گی۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی اگر اب سینئر ترین جج منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنانے کی سفارش نہیں کرتی تو بداعتمادی اور بدمزگی میں اضافہ ہوگا۔ حکومت کو یقینی بنانا چاہئے کہ تما م تر تحفظات کے باوجود جسٹس منصور علی شاہ کو ہی اگلا چیف جسٹس بنایا جائے تاکہ ایک طرف غیر ضروری تنقید کا راستہ مسدود ہو اور دوسری طرف یہ واضح ہو کہ حکومت عدلیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتی۔ یوں بھی آئینی معاملات کے لیے مخصوص بنچ بنانے کا فیصلہ ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے سیاسی مداخلت کے اختیارات محدود ہوجائیں گے۔ لیکن دیکھنا ہوگا کہ اس مرحلے پر حکومت ہوشمندی سے کام لیتی ہے یا جارحیت کا مظاہرہ کرکے ملک میں سیاسی تقسیم کو شدید کیا جاتا ہے۔
اس دوران قانون دانوں کے عالمی کمیشن (آئی سی جے)نے بھی پاکستان میں منظور کی جانے والی 26 ویں ترمیم کو عدلیہ کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔ کمیشن کے سیکرٹری جنرل سانتیاگو کینٹن کا کہنا ہے کہ اس ترمیم سے ججوں کی تقرری میں غیرمعمولی سیاسی مداخلت کا آغاز ہوگا۔ آئی سی جے نے ترمیم کو منظور کرانے کے لئے عجلت پر بھی حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ ’عوامی اہمیت کی اتنی اہم آئینی ترمیم کو جلدی میں منظور کیا گیا اور اس موضوع پر عوامی رائے لینے اور مباحثہ کرانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی‘۔ تنظیم نےجوڈیشل کمیشن کی نئی ساخت پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اس طریقے سے کمیشن میں جوڈیشل نمائیندگی محدود کی گئی ہے۔ کمیشن کو آئینی بنچ بنانے کا اختیار دینے سے خاص معاملات میں مرضی کے بنچ بنانے کی راہ ہموار ہوگی۔ تاہم کمیشن نے اپنے بیان میں یہ اعتراف کیا ہے کہ شاید پاکستان کے موجودہ عدالتی نظام میں تبدیلیوں کی ضرورت تھی تاکہ عدالتوں کی کارکردگی بہتر بنائی جاسکتی اور ان کا احتساب ممکن ہوتا۔ اسی طرح ججوں کی تقرریوں کا طریقہ بھی شفاف بنانے کی ضرورت تھی تاکہ وسیع تر بنیاد پر جج عدلیہ میں شامل کیے جاسکتے۔ البتہ عدالتی تقرریوں کے معاملہ کو انتظامیہ کے کنٹرول میں دینے سے عدلیہ کی خود مختاری اور قانون کی عمل داری کے اصول متاثر ہوں گے۔
عالمی کمیشن کی تنقید بھی درحقیقت حکومت کی بدحواسی اور طریقہ کار کے حوالے سے ہی ہے۔ البتہ پارلیمانی کمیٹی کو چیف جسٹس مقرر کرنے کا اختیار دینے یا جوڈیشل کمیشن میں سیاسی نمائیندگی کے حوالے سے کمیشن کے شبہات بے بنیاد ہیں۔ کیوں کہ ایک تو دنیا بھر میں سیاسی قیادت ہی اعلیٰ عدالتوں کے جج مقرر کرتی ہے البتہ ججوں سے مشورہ ضرور کیا جاتا ہے۔ دوسرے جج مقرر ہونے کے بعد ہر شخص کو خود یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ اس عہدے کا اہل ہے اور غیر جانبداری سے قانون کے مطابق کام کرسکتا ہے۔ اگر پاکستان کے جج اس مقصد میں ناکام ہوتے رہے ہیں تو اس کا سارا بوجھ نظام پر ڈالنا مناسب نہیں ہوگا۔ اعلیٰ عدلیہ نے کئی دہائیوں کے دوران سیاسی طاقت کے سامنے سر جھکانے کا طریقہ اختیار کرکے ہی درحقیقت ملکی سیاست دانوں کو 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ