پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد بتایا ہے کہ چھبیسویں ترمیم کامیابی سے منظور کرانے کے بعد اب دونوں پارٹیوں نے صوبوں کے حقوق اور دیگر پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے لیے 27 ویں آئینی ترمیم لانے پر غور کیا ہے۔ البتہ اس موقع پر موجود وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنااللہ نے واضح کیا ہے کہ اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
معاملہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن ایک ترمیم لانے کے بعد نئی آئینی ترمیم کا ذکر چھیڑ کر ملک میں مباحث کا غیر ضروری سلسلہ شروع کرنے کا اہتمام ضرور کیا گیا ہے۔ حکمران پارٹیوں کے اسی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہی کی وجہ سے ملک میں مواصلت کے شعبہ سے وابستہ عناصر بے سر و پا اور گمراہ کن خبریں گھڑتے ہیں اور عوام میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔ 26 ویں ترمیم کا مقصد عدلیہ میں اصلاحات متعارف کرانا تھا۔ اس کے تحت آئینی بنچ بنانے اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا طریقہ وضع کیا گیا ہے۔ اسی طرح چیف جسٹس کے عہدے کو تین سال کرنے کے علاوہ سپریم کورٹ کے سربراہ کی تقرری کا اختیار خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو سونپا گیا۔ اس اہتمام کے تحت ملک کے پہلے چیف جسٹس کا تقرر بھی ہوچکا ہے۔ ہفتہ کے روز صدر آصف زرادری نے جسٹس یحییٰ آفریدی سے عہدے کا حلف لیا اور انہوں نے باقاعدہ اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا۔
یوں 26 ویں ترمیم کے فعال ہونے کے بارے میں بہت سے شبہات دم توڑ چکے ہیں۔ تاہم ابھی تک آئینی بنچ کا تعین نہیں ہؤا جسے نئی ترمیم کے مطابق اب ملک میں آئینی معاملات کے حوالے سے معاملات پر غور کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اس بنچ کا انتخاب نو تشکیل شدہ جوڈیشل کمیشن کرے گا جس میں سیاسی نمائیندگی بھی ہوگی۔ اس بنچ کے فیصلے سپریم کورٹ سمیت کسی عدالت میں چیلنج بھی نہیں ہوسکیں گے۔ تاہم دیکھا جاسکتا ہے کہ ابھی تک اس بنچ کی تشکیل کا کام شروع نہیں ہؤا۔ چیف جسٹس کی تقرری کو خصوصی سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا تھا کیوں کہ آئینی ترمیم میں ہی واضح کردیا گیا تھا کہ پہلی بار چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے تین روز پہلے نئے چیف جسٹس کا فیصلہ کیا جائے گا جبکہ مستقبل میں اس مقصد کے لیے دو ہفتے رکھے گئے ہیں۔ یہ اہتمام کرنے کا مقصد یہی تھا کہ چیف جسٹس کے عہدے پر فائز قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائر ہورہے تھے اور حکومت نے پرانے قاعدے کے مطابق سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کو نیا چیف جسٹس بنانے کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا تھا۔ اس طرح نئی تشکیل کردہ 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کو فوری طور سے نئے چیف جسٹس کا فیصلہ کرنا تھا۔
کمیٹی نے تین سینئر ججوں کی فہرست میں سب سے جونئیر جج جسٹس یحییٰ آفریدی کو اس عہدے پر نامزد کیا۔ حالانکہ جسٹس منصور علی شاہ ہر لحاظ سے نیا چیف جسٹس بننے کے اہل تھے تاہم سیاسی طور سے انہیں ’ناپسندیدہ‘ جج سمجھا جانے لگا تھا۔ تحریک انصاف نے شدت سے جسٹس منصور علی شاہ کو آزاد عدلیہ کی علامت بنا کر پیش کیا تھا لیکن خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں شامل ہونے کے باوجود ، پارٹی نے اس اجلاس میں شریک ہونے اور اپنے ’پسندیدیدہ‘ امیدوار کے لیے دلائل دینے اور سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اب یہ اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ پیپلز پارٹی جسٹس منصور علی شاہ کو نیا چیف جسٹس بنانے پر آمادہ تھی تاہم اس نے تحریک انصاف کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوں تو مسلم لیگ (ن) کو بھی اس پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم تحریک انصاف نے پارلیمانی کا کمیٹی کا بھی اسی طرح بائیکاٹ کیا جیسے اس نے قومی اسمبلی و سینیٹ کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا تھا۔ یعنی ان کے چند ارکان نے مخالفانہ تقریریں کیں اور واک آؤٹ کردیا لیکن 26 ویں ترمیم مسترد کرنے کے لیے ووٹ نہیں دیے۔ ایسے طریقے کو کسی پارٹی کی نیم رضامندی کہا جاسکتا ہے۔
بعینہ تحریک انصاف نے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی درخواست پر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے اپنے ارکان کے نام تو فوری طور سے فراہم کردیے لیکن کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہونے سے انکار کردیا۔ گویا پارٹی نے پورے عمل کو تو درست مان لیا لیکن جسٹس منصور علی شاہ کے لیے سیاسی حمایت حاصل کرنے یا ان کا نام آئیندہ چیف جسٹس کے طور پر تجویز کرنے کے لیے وہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ لیکن اس طریقے کو موجودہ پارلیمنٹ پر عدم اعتماد اور حکومتی ہتھکنڈوں کو ناجائز قرار دینے کی سیاسی نعرے بازی کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔ البتہ عملی طور سے پارٹی جس جج کو چیف جسٹس بنانے کا دعویٰ کرتی تھی، اس کا نام تجویز کرنے کے لیے کمیٹی اجلاس میں شریک نہیں ہوئی۔ پی ٹی آئی کے دوہرے کردار کا مشاہدہ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے طرز عمل سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ 26 ویں ترمیم منظور ہونے کے بعد علی امین گنڈا پور نے خیبر پختون خوا اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے للکارا تھا کہ اگر سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس نہ بنایا گیا تو پارٹی اس طریقے کو منظور نہیں کرے گی۔ لیکن ہفتہ کو جب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اپنے عہدے کا حلف لے رہے تھے تو علی امین گنڈا پور مہمانوں کی پہلی قطار میں بیٹھے تھے۔
اس پارلیمانی و سیاسی صورت حال کا ذکر یوں اہم ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو اب یہ اندازہ کرنا چاہئے کہ ملک کے جمہوری سفر میں بار بار رکاوٹ آنے یا طاقت ور اداروں کی جانب سے مداخلت کے واقعات سیاسی لیڈروں و پارٹیوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے ہی پیش آتے رہے ہیں۔ فوج نے بھی سیاسی لیڈروں کی امداد و تعاون سے ہی بار بار طویل عرصہ تک ملک پر حکمرانی کی ہے اور اعلیٰ عدلیہ نے بھی عدلیہ بحالی تحریک کے بعد سیاسی پارٹیوں کی باہمی لڑائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہی سیاسی معاملات میں مداخلت کی، حکومتی کام میں رکاوٹ ڈالی ، پارلیمنٹ کے حق قانون سازی کو عدلیہ کی صوابدید سے مشروط کیا، اس کے علاوہ آئینی تشریح کے نام پر بار بار ایسے فیصلے دئے جنہیں نئے سرے سے آئین لکھنے کے مترادف کہا جاسکتا ہے۔ عدالتوں کو بھی اس خود سری کا موقع سیاسی لڑائی اور سیاسی لیڈروں کی طرف سے پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کے طریقوں کی وجہ سے ہی ملا تھا۔ 26 ویں ترمیم کے ذریعے اگرچہ اصلاح احوال کی کوشش کی گئی ہے لیکن اگر سیاسی مفاہمت کا ماحول پیدا کرنے اور ملکی جمہوری نظام پر اعتبار بحال کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات دیکھنے میں نہیں آئیں گے تو صرف ایک آئینی ترمیم سے پارلیمنٹ خود مختار یا حکومت طاقت ور نہیں ہوجائے گی۔
آئین میں ترمیم ایک اہم قانونی اقدام ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم تو یہی ہے کہ پارلیمنٹ کی سب سیاسی پارٹیاں اس عمل میں شریک ہوں تاکہ آئین میں صرف وہی امور شامل کیے جائیں جو متفقہ طور پر عوام کے مفاد اور ملککی نظام کو مؤثر جمہوری انتظام بنانے کے لیے ضروری ہوں۔ البتہ اس مقصد کے لیے گروہی سیاسی ہتھکنڈے استعمال کرنے کی بجائے سیاسی پارٹیوں کو باہمی مواصلت کا بہتر طریقہ استوار کرنا چاہئے۔ بداعتمادی کی موجودہ فضا میں تو ضروری ہوگا کہ کوئی بھی اہم معاملہ سے سب سے پہلے پارلیمنٹ کے فلور پر پیش کیا جائے اور اسی پلیٹ فارم پر اشتراک و تعاون کا کوئی طریقہ تلاش کرنے کی کوششیں ہوں۔ 1973 کے آئین کی منظوری کے لیے ذوالفقار علی بھٹو نے چھوٹی بڑی سب پارٹیوں کو راضی کرنے کے لیے شدید جد و جہد کی تھی۔ بدقسمتی سے آئینی ترامیم کے حوالے سے اکثر اوقات یہ اہتمام نہیں ہوسکا۔
26 ویں ترمیم منظور ہونے سے پہلے حکومت نے رازداری کا جو رویہ اختیار کیا تھا، اسی کی وجہ سے شبہات پیدا ہوئے اور میڈیا پر بے سروپا باتیں پھیلانے والوں کو عوام میں بدگمانی پیدا کرنے کا موقع ملا۔ معاملہ کو خفیہ رکھنے اور آئینی ترمیم کی منظور ی کے لیے ایک خاص چیف جسٹس کی موجودگی ہی کو ضروری سمجھنے کا طرزعمل سیاسی طور سے ناجائز اور عملی طور سے مشکلات کا سبب بنا۔ کسی بھی قانون سازی کو کسی ایک چیف جسٹس کی موجودگی سے مشروط کرنا اصولی طور سے غلط طریقہ ہے ۔ اس سے سیاست دانوں کی کمزوری کا اندازہ ہوتا ہے اور سبک دوش ہونے والے چیف جسٹس کے بارے میں شبہات پھیلانے کا موقع فراہم ہؤا ہے۔ حالانکہ اگر ایک مزید چیف جسٹس پرانے طریقے کے مطابق عہدہ سنبھال لیتا تو اس سے پارلیمنٹ کا اختیار کمزور نہیں ہونا چاہئے تھا۔ جمیعت علمائے اسلام (ف) کو حکومت کی غلط حکمت عملی ہی کی وجہ سے درجن بھر نشستوں کے باوجود تمام بڑی پارٹیوں سے زیادہ اہمیت حاصل رہی اور آئینی ترمیم کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان بادشاہ گر بنے رہے۔ حالانکہ جیسا کہ بعد میں رونما ہونے والے حالات و واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف بالواسطہ طور سے چھبیسویں ترمیم کی حمایت کررہی تھی ۔ اگر وہ یہ کام براہ راست حکمران جماعتوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے کرتی تو شاید کچھ مراعات بھی حاصل کرلیتی اور ایک چھوٹی سی پارٹی کو بھی اپنے حق نمائیندگی سے زیادہ اہمیت حاصل نہ ہوپاتی۔ تاہم اس غلطی کا آغاز بلاشبہ حکومت کی طرف ترمیم کے حوالے سے اخفائے راز کے ناروا طریقے سے ہؤا۔
حکومت اور بلاول بھٹو زرداری کو ان غلطیوں کو دہرانے کی بجائے، ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ملک میں نئی ترمیم لانے کی ضرورت ہے تو ان پہلوؤں اور تجاویز کی نشاندہی کی جائے اور سب سے پہلے اس پر پارلیمنٹ کی سب سے بڑی پارٹی کے ساتھ مشاورت کی جائے۔ دو لیڈروں کی ملاقات کے بعد ستائیسویں ترمیم کے حوالے سے متضاد بیانات دینے کی بجائے بہتر ہوگا کہ ان معاملات پر پارلیمنٹ میں گفتگو ہو اور رازداری کی بجائے صاف طور سے مسائل اور ان کے حل کی نشاندہی کرتے ہوئے، تجاویز تیار کرنے کی دعوت دی جائے۔
آئینی ترمیم کے لیے درست حکمت عملی اختیار کرنے کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ قانون سازی یاآئینی ترامیم عوام کا براہ راست مسئلہ نہیں ہے۔ حکمران جماعتوں کو پبلک پلیٹ فارم پر ذمہ داری سے ان امور پر بات کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہئے، جن کا تعلق عوام کے روزمرہ مسائل و مشکلات سے ہے۔ عوامی ضرورتوں کی بجائے آئینی موشگافیوں پر ہونے والے مباحث و تضادات سیاست دانوں کے بارے میں بدگمانیاں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ