پاکستان میں لاہور سمیت پنجاب کے بیشتر شہر شدید فضائی آلودگی اور سموگ کا شکار ہیں جس کے سبب ماہرین اور شہری یکساں طور سے اس آفت سے نجات حاصل کرنے کا کوئی راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ آج ہی آذربائیجان میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس بھی شروع ہوئی ہے جس میں دنیا میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور کاربن کے اخراج جیسے اہم معاملات پر غور کیا جائے گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اسلامی ملکوں کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے بعد اقوام متحدہ کی کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے باکو روانہ ہوئے ہیں جہاں وہ عالمی برادری کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے مثبت اقدامات کرنے کا مشورہ دیں گے۔ تاہم ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم ایک ایسے وقت ماحولیات کے بارے میں اقوام متحدہ کی کانفرنس میں شرکت کے لئے گیا ہے جب ان کا اپنا ملک حکومت کی عاقبت نااندیشی کے سبب شدید ماحولیاتی مشکلات کا شکار ہے۔ پنجاب میں اس وقت سموگ کے سبب معمولات زندگی شدید متاثر ہیں اور قیادت کی طرف سے چند عارضی اعلان کرنے اور بیان دینے سے ہی کام چلایا جارہا ہے۔ لاہور سمیت پنجاب کے متعدد شہروں میں ائیر کوالٹی کا معیار انتہائی کم ہے اور انڈکس کی درجہ بندی میں یہ ایک ہزار سے زیادہ تھا جو صحت مند معیار سے چار گنا زیادہ ہے
اسی صورت حال کے پیش نظر پاکستان میں عالمی ادارہ برائے اطفال کے نمائندے عبداللہ فادل نے بتایا ہے کہ پنجاب کے شدید متاثرہ اضلاع میں 5 سال سے کم عمر ایک کروڑ سے زائد بچوں کو فضائی آلودگی کے سبب شدید خطرہ لاحق ہے۔ اس لیے فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے فوری اور وسیع تر اقدامات کی ضرورت ہے۔ فضائی آلودگی کی ریکارڈ سطح سے پہلے بھی پاکستان میں 5سال سے کم عمر 12 فیصد بچوں کی اموات ہوا کے خراب معیار کی وجہ سے ہوتی تھیں۔ سموگ اور شدت سے بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کی وجہ سے ان اموات اور بچوں میں بیماریوں کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یونیسیف کے نمائندے کا کہنا ہے کہ بچوں کے پھیپڑے کمزور ہوتے ہیں اور ان کی قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔ ہوا میں موجود آلودہ ذرات بچوں کے پھیپڑوں اور دماغ کی نشونما پر بہت زیادہ اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ آلودہ فضا میں سانس لینے سے دماغی ٹشوز متاثر ہوسکتے ہیں۔
جس وقت وزیر اعظم شہباز شریف باکو میں عالمی موسمی تبدیلیوں پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے ہیں، اسی دوران میں پاکستان میں فضائی کوالٹی کے بارے میں ماہرین کے گروپ نے وزیر اعظم کے نام ایک خط میں تقاضہ کیا ہے کہ پنجاب میں بدترین ماحولیاتی صورت حال سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں ۔ صوبے کو اگرچہ گزشتہ ماہ سموگ کی وجہ سے ’آفت زدہ‘ قرار دیا گیا تھا لیکن اسکول بند کرنے اور کام کے اوقات میں تبدیلی کے علاوہ کوئی دیرپا حل یا مسئلہ سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ منصوبہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پنجاب میں اینٹوں کے بھٹے فوری طور سے بند کردیے جائیں تو فضائی آلودگی میں پندرہ فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ہیوی ٹریفک پر کنٹرول سے بھی خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ گروپ نے اپنے خط میں 12 نکات پر مشتمل ایکشن پلان کا خاکہ پیش کیا ہے جس پر عمل کرنے سے ماحولیاتی بہتری کا طویل المدت مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ البتہ ان تجاویز پر مرکزی و پنجاب حکومتوں کا رد عمل موجود نہیں ہے۔ عام طور سے یہ بات سامنے لائی جارہی ہے کہ سموگ کی صورت حال اور ماحولیات سے مجرمانہ غفلت برتنے کے نتائج دیکھتے ہوئے فوری اقدامات اور ایسے منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے جن سے سموگ اور فضائی آلودگی کے علاوہ ماحول خراب کرنے والے دیگر عوامل سے نمٹنے کا عہد کیا جائے۔ تاہم فی الوقت پاکستان میں سرکاری سطح پر ایسی کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آتی۔
طغیانی کی تباہ کاری ہو یا موسمی تبدیلی کے سبب سموگ و فضائی آلودگی کے مسائل ہوں ، پاکستانی حکام ان کا بوجھ عالمی عوامل پر ڈالتے ہوئے دنیا کے امیر ممالک سے ذمہ داری پوری کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ کاربن کا اخراج اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے مسائل ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے جس پر اقوام متحدہ اور ماحولیات کی بہتری کے لیے کام کرنے والی بیشتر تنظیمیں سال ہا سال سے سرگرم رہی ہیں۔ اس حوالے سے اس بات پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ دنیا کے ہر شہری اور ہر حکومت کو ماحولیات کے بارے میں اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ یہ اقدامات پلاسٹک بیگ کا استعمال ترک کرنے سے لے کر گھریلو و صنعتی کچرے کو کسی ماحول دوست طریقے سے ضائع کرنے یا کارآمد بنانے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ماحولیات کی بہتری سے متعلق بہت سے اقدامات کا آغاز شہریوں کو بہتر معلومات بہم پہنچا کر اور ماحولیاتی آلودگی کو اسکولوں کے نصاب کا حصہ بنا کر کیا جاسکتا ہے۔
دنیا بھر میں نوجوان نسل کے لوگ ماحولیات کے لیے جد و جہد کرتے ہیں اور اپنی حکومتوں کو ماحول دشمن پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے غریب اور ماحولیاتی آلودگی کا شدت سے نشانہ بننے والے ممالک میں البتہ حکام دوسروں کی طرف دیکھنے اور اپنی مدد آپ کی بجائے بیرونی امداد پر انحصار کرنے پر زور دیتے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب کی شدت، بارشوں میں اضافہ اور ان کی تباہ کاری یا سموگ کی وجہ سے فضائی آلودگی کے مسائل کسی حد تک عوام کی ماحولیاتی مسائل کے بارے میں عدم واقفیت کی وجہ سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک ماحولیات کو تدریس کا اہم حصہ بنا چکے ہیں لیکن پاکستان میں اس موضوع کو بھی سیاسی و انتظامی چپقلش یا الزام تراشی کا موضوع بنا لیا گیا ہے۔ اس سال سموگ نے جیسے پنجاب میں زندگی کو معطل کیا ہے، اس سے حکام اور شہریوں کو یکساں طور سے سبق سیکھنا چاہئے ۔ حالات کی بہتری کے لیے وہ فیصلے ضرور کرنے چاہئیں جن پر کسی بڑی سرمایہ کاری کے بغیر عمل درآمد ہوسکتا ہے۔ تاہم ایسا کرنے کے لیے آگاہی اور مسائل کی نوعیت کے بارے میں معلومات عام کرنا ضروری ہوگا۔
اقوام متحدہ اسی عالمی آگاہی کے لیے ہر سال موسمی کانفرنس منعقد کرتی ہے۔ اس سال اقوام متحدہ کی کلائمیٹ کانفرنس( سی او پی) آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو میں شروع ہوئی ہے۔ یہ کانفرنس 11 سے 22 نومبر تک جاری رہے گی۔ اس دوران میں دو سو کے لگ بھگ ملکوں، عالمی تنظیموں اور گروہوں سے تعلق رکھنے والے 51 ہزار افراد کانفرنس کے مختلف اجلاسوں سے خطاب کریں گے۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں کمی، موسمی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے اقدامات اور ترقی پزیر ممالک میں موسمی تبدیلی کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے سرمایہ کی فراہمی کے موضوعات شامل ہیں۔ اس بات پر وسیع اصولی اتفاق رائے موجود ہے کہ دنیا میں ماحولیات کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے امیر و ترقی یافتہ ممالک کو ایک مالی فنڈ فراہم کرنا چاہئے جو ماحولیات کے لیے غریب ممالک کی مالی مدد کرے۔ سال رواں کی سی او پی کانفرنس میں بھی اس فنڈ کے لیے رقوم فراہم کرنے کا معاملہ سب سے سر فہرست ہوگا۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس وقت ماحولیاتی بہتری کے لیے 500 سے 1000 ارب ڈالر سرمایے کی ضرورت ہے۔ تاکہ بے وسیلہ اور غریب ممالک کو موسمی تبدیلیوں کے چیلنج سے نمٹنے میں مدد دی جاسکے اور ان موسمی تبدیلیوں کے سامنے بند باندھا جاسکے جو دنیا بھر میں طوفان اور تباہ کاری کا باعث بن رہی ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ امیر صنعتی ممالک یہ فنڈ فراہم کریں گے۔ ایک تو ان ممالک نے صنعتی ترقی کے دوران کاربن کے اخراج سے دنیا کے درجہ حرارت کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ متعدد غریب ممالک کا اس ماحولیاتی خرابی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن وہ بھی موسمی تبدیلیوں کے اثرات سے یکساں طور سے متاثر ہورہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان غریب ممالک کو ماحول دوست منصوبے بنانے کے لیے مالی وسائل فراہم نہ کیے گئے تو موسمی تبدیلی سے آنے والی تباہی سب کو یکساں طور سے نقصان پہنچائے گی۔
باکو کانفرنس شروع ہونے سے پہلے یہ متنبہ کیا گیا ہے کہ 2024 انسانی زندگی میں گرم ترین سال ثابت ہوگا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس صدی کے دوران دنیا کے درجہ حرارت میں تین سنٹی گریڈ سے زائد اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس تباہ کن اضافے کو روکنے کے لیے فطرت کی حفاظت اور انسانی بے اعتدالیوں میں کمی کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ تاہم دیکھا جاتا ہے کہ بڑی بڑی باتیں کرنے کے باوجود کوئی ملک بھی وسائل فراہم کرنے اور ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔ اگرچہ عالمی برادری اس حوالے سے جد و جہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی ماحولیات کی بہتری کے لیے ایک منفی اشارہ سمجھی جارہی ہے۔ نو منتخب امریکی صدر درجہ حرارت میں اضافہ کے نظریہ کو درست نہیں مانتے اور اسے دھوکہ قرار دیتے ہیں۔ اس حوالے سے پیرس معاہدہ کے تحت دنیاکے تمام ممالک ایک منصوبے پر متفق ہوئے تھے لیکن ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں بھی اس معاہدہ سے علیحدگی اختیار کی تھی ۔ دوبارہ صدر بننے کے بعد بھی وہ ایسا ہی ارادہ رکھتے ہیں۔ حالانکہ امریکہ دنیا میں کاربن اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
اندیشہ ہے کہ ٹرمپ کے دور صدارت میں ایک تو امریکہ عالمی ماحولیاتی کوششوں کے لیے فنڈ میں حصہ ڈالنے پر تیار نہیں ہوگا اور دوسری طرف اپنے ملک میں بھی ماحول دوست منصوبوں پر وسائل صرف نہیں کرے گا۔ ایسی پالیسی کا موسمی تبدیلی کی صورت حال پر سنگین اثر مرتب ہوسکتا ہے۔ باکو کانفرنس میں اس حوالے سے خاص طور سے غور و خوض کیا جائے گا۔ تاہم کانفرنس شروع ہونے سے پہلے ہی یہ نوٹ کرلیا گیا ہے کہ متعدد مغربی ممالک کے سربراہان نے اس اہم عالمی کانفرنس میں شرکت سے گریز کیا ہے۔ حالانکہ ماحولیات میں رونما ہونے والے تبدیلیوں کو دنیا اور انسانوں کے لیے سب سے بڑا اندیشہ مانا جارہا ہے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ