اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ حکومتی دباؤ کی وجہ سے اسلام ہوٹل میں اس اتحاد کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی قومی کانفرنس جاری رکھنے سے انکار کیا جارہا ہے لیکن ہم یہ کانفرنس منعقد کرکے رہیں گے۔ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اگر ہوٹل انتظامیہ انہیں ہوٹل کا ہال استعمال کرنے کی اجازت نہ دے تو یہ کانفرنس کہاں منعقد ہوگی؟
شاہد خاقان عباسی نے پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے علاوہ تحریک انصاف کے متعدد لیڈروں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور حکومت پر آئین سے گھبرانے اور ناجائز ہتھکنڈے اختیار کرنے کے الزامات عائد کیے۔ اسلام آباد ہوٹل میں منعقد ہونے والی کانفرنس اگرچہ تحریک تحفظ پاکستان کے بینر تلے منعقد ہو رہی ہے لیکن بتایا گیا ہے کہ کہ شاہد خاقان عباسی اور محمود خان اچکزئی اس کانفرنس کے میزبان ہیں۔ البتہ یہ واضح ہے کہ یہ دونوں تجربہ کا اور جہاں دیدہ لیڈر اس کانفرنس کے ذریعے جس سیاسی ایجنڈے کو سامنے لانے کے لیے اپنا کاندھا فراہم کررہے ہیں، وہ تحریک انصاف کا مقصد ہے۔ تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دو سیشن کے بعد 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر عدالتی کمیشن قائم کرنے کا یک طرفہ مطالبہ پورا نہ ہونے کا عذر بنا کر ان مذاکرات سے دستبرداری اختیار کرلی تھی۔ اس کے بعد عمران خان نے یکے بعد دیگرے آرمی چیف کے نام تین خطوط لکھ کر ان سے براہ راست مواصلت کی کوشش کی تھی لیکن انہیں اس میں بھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔
ملک کے موجودہ سیاسی ماحول میں شاہد خاقان عباسی اور محمود خان اچکزئی کا کردار دلچسپ اور ذاتی سیاسی ضرورتوں کا اسیر ہے۔ اگرچہ یہ دونوں لیڈر آئین کی سربلندی کی بلند بانگ باتیں کررہے ہیں لیکن تحریک انصاف کے لیڈروں کو اپنے دائیں بائیں کھڑے کرکے وہ واضح کررہے ہیں کہ اگر عمران خان اور تحریک انصاف کو اس مشکل وقت میں ان دونوں لیڈروں کا تعاون درکار ہے تو انہیں بھی اپنی سیاست چمکانے اور میڈیا میں توجہ حاصل کرنے کے لیے تحریک انصاف کے کاندھےکی ضرورت ہے۔ لہذا اس اتحاد کو ’باہمی ضرورت و مفادات کی انجمن ‘ تو کہا جاسکتا ہے لیکن ’ تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ سمجھنا مشکل ہے۔ کانفرنس کے انعقاد میں پیش آنے والی مشکلات کے حوالے سے منعقد کی جانے والی پریس کانفرنس میں بھی یہ واضح تھا کہ یہ دوسرے روز کی کانفرنس جاری رکھنے کے عزم سے زیادہ ایک ایسا موقع پیدا کرنے کی کوشش تھی جس میں میڈیا کو بلا کر حکومت پر نکتہ چینی کی جائے اور پرائم ٹائم میں کوریج حاصل کی جائے۔ یہ طریقہ بجائے خود کوئی ناجائز نہیں ہے لیکن اسے سیاسی ہتھکنڈا ہی کہا جائے گا، سیاسی مسائل کو سمجھنے اور ان کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کا طریقہ کہنا مشکل ہوگا۔
اول تو جس ہوٹل کی انتظامیہ نے شاہد خاقان عباسی کو اطلاع دی ہے کہ ان پر شدید دباؤ ڈالا گیا ہے۔ کروڑوں روپے جرمانہ کرنے اور مزید مشکلات کھڑی کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں تاکہ کانفرنس کے دوسرے روز کا سیشن منسوخ کرایا جاسکے، اس انتظامیہ نے اپنے طور پر پریس کو کوئی معلومات فراہم نہیں کی ہیں کہ کانفرنس منسوخ کی جارہی ہے یا ہوٹل انتظامیہ کیوں اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں رکاوٹ ڈالنا چاہتی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے جو وجوہات بتائی ہیں، وہ عین ممکن ہے درست ہوں لیکن جب تک ہوٹل انتظامیہ کا مؤقف سامنے نہ ہو، معاملات کی تصویر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس پریس کانفرنس میں شاہد خاقان عباسی نے اس بات پر زور دیا کہ انہوں نے دو روز کے لیے ہال بک کرایا تھا اس لیے وہ کانفرنس جاری رکھیں گے۔ انہوں نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ انہوں نے یا ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ نے ہوٹل کو کانفرنس ہال کا دو دن کا کرایہ ادا کردیا تھا لیکن اب ہوٹل حکومتی دباؤ کی وجہ سے اس معاہدے سے منحرف ہورہا ہے۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ ہوٹل انتظامیہ نے اپنی سروسز کا معاوضہ مانگا ہو اور ادائیگی نہ کرنے پر کانفرنس کے لیے ہال دینے سے معذرت کی ہو لیکن اس صورت حال کو سیاسی رنگ دے کر ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی جارہی ہو۔ یعنی کسی معاوضے کے بغیر ہوٹل کا استعمال اور پریس کانفرنس کے ذریعے سیاسی ہیجان پیدا کرنے کا مقصد۔
کسی بھی حکومت کے لیے کسی بھی سیاسی فریق کو سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے سے روکنا قابل قبول طریقہ نہیں ہے۔ موجودہ حکومت پر ہر طرح کا الزام عائد کیا جاسکتا ہے کیوں کہ حکومت نے خود بھی جمہوریت کی کوئی اعلیٰ روایت قائم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ لیکن یہ دیکھنا چاہئے کہ شاہد خاقان عباسی کے پرجوش الزامات کے باوجود حکومت کی طرف سے ان کی تردید کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اگرچہ یہ بھی غیر ذمہ دارانہ اور غیر جمہوری رویہ ہی لیکن دوسری طرف یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حکومت اس وقت کمزور اور شکست خوردہ اپوزیشن کو اتنی اہمیت بھی دینے پر آمادہ نہیں ہے کہ اس کے سنگین الزامات کا نوٹس لیا جائے۔ اس حوالے سے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ تحریک انصاف متعدد بار اسلام آباد کی طرف پرتشدد مارچ کی کوشش کرچکی ہے اور اس خواہش کو کبھی پوشیدہ بھی نہیں رکھا گیا کہ پی ٹی آئی کے لیڈر نظام حکومت کو معطل کرکے اپنے مطالبات منوانا یا سیاسی گیم کو اپنے حق میں پلٹنا چاہتے ہیں ۔ ایسے میں یہ ناقابل فہم ہوگا کہ شاہد خاقان عباسی کے بقول ایک بند ہال میں منعقد ہونے والی ایسی کانفرنس کو جاری رکھنے سے حکومت پریشان ہوگئی جہاں میڈیا بھی موجود نہیں تھا۔ شاہد خاقان عباسی کے اس الزام کو حجت و دلیل کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو یہ کمزور و ناقص لگتی ہے۔
’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کے بینر تلے شاہد خاقان عباسی اور محمود خان اچکزئی کی میزبانی میں منعقد ہونے والی قومی کانفرنس کے پہلے روز کے اجلاس کی کوئی رپورٹ یا تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ نہ ہی کسی میڈیا رپورٹ میں اس بارے میں خبر موجود ہے۔ حکومت پر بے شک یہ الزام لگایا جائے کہ وہ پابندیاں عائد کرتی ہے اور سکیورٹی کے نام پر اپوزیشن کو ہراساں کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن شاہد خاقان عباسی اور محمود خان اچکزئی یہ بھی واضح کریں کہ کیا وجہ ہے کہ اس قومی کانفرنس کی کوریج کے لیے میڈیا کو مدعو نہیں کیا گیا اور اسے بند کمرے کا اجلاس قرار دیا گیا جس میں سینکڑوں مندوب شریک تھے۔ آخر اس قومی کانفرنس میں ایسے کون سے خفیہ ایجنڈے پر غور کیا جارہا تھا کہ اس میں میڈیا کے شریک ہونے سے حساس معلومات عام ہوجانے کا اندیشہ تھا؟ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ’کانفرنس ملکی مسائل، قانون کی حکمرانی اور آئین کے حوالے سے ہے۔ آج ایک ایسی حکومت وجود میں ہےجو آئین کے نام سے گھبراتی ہے۔ جو ایک کانفرنس سے گھبراتی ہے۔ یہ کانفرنس بند کمرے میں تھی، چند سو افراد ایک آڈیٹوریم میں تھے‘۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ دروازے بند کرکے اور میڈیا کو باہر رکھ کر اپوزیشن اتحاد کون سی قومی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف تھا۔
شاہد خاقان عباسی تحریک انصاف کی حکومت میں نیب کے مقدمات بھگت چکے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کو بھی اپنے بارے میں عمران خان کے ارشادات بھولے نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود یہ دونوں جہاں دیدہ لیڈر ایک ایسی اپوزیشن جماعت کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہیں جو نہ تو ملکی قانون کو مانتی ہے اور نہ ہی کسی ایسے انتخاب یا عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہے جس میں بہر صورت وہ کامیاب نہ ہو۔ تحریک انصاف کی مقبولیت، اس کی عوامی اپیل سے انکار ممکن نہیں ہے۔ نہ یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ کوئی حکومت کسی سیاسی پارٹی کو سرگرمیاں جاری رکھنے سے روکے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی لیڈر یا پارٹی کے جرائم کو صرف اس لیے نظر انداز کردیا جائے کیوں کہ یہ مقبول ہے ؟ کیا یہ اصول ملکی آئین کے عین مطابق نہیں ہے کہ کسی جرم کا فیصلہ عوامی مقبولیت کی بجائے شواہد کی بنیاد پر کیا جائے گا؟ کم از کم شاہد خاقان عباسی اور محمود خان اچکزئی کو تو اس پہلو کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔
یہ دونوں لیڈر تجربہ کار ہیں اور اپنی اپنی پارٹیوں کے سربراہ ہیں۔ ان سے توقع کی جاسکتی تھی کہ موجودہ بحران میں وہ ایک فریق کا ساتھ دینے کی بجائے کسی کامن گراؤنڈ کے لیے کام کرتے تاکہ حکومت اور تحریک انصاف سیاسی طور سے کسی پلیٹ فارم پر متفق ہوسکتے۔ یہ کام اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے اگر شاہد خاقان عباسی اور محمود خان اچکزئی وقتی جوش اور میڈیا میں رپورٹ ہونے کی ہوس پر قابو پاکر بعض اختلافی امور پر فریقین کے درمیان پل بنانے کی کوشش کرتے۔ البتہ اس کی بجائے انہوں نے تحریک انصاف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ وہ سمجھتے ہوں گے کہ تحریک انصاف ان کی سیاسی اہمیت کو مان رہی ہے ، حالانکہ سچ یہ ہے کہ تحریک انصاف ان دونوں لیڈروں کی نیک نامی کو اپنے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہورہی ہے۔
بہتر ہوتا کہ شاہد خاقان عباسی اور محمود خان اچکزئی حکومت کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو تحریک انصاف کے سجائے ہوئے اسٹیج سے مسترد کرنے کی بجائے اپنی اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی مزاحمت کا اعلان کرتے۔ اس کے ساتھ ہی وہ تحریک انصاف کے لیڈروں کو ان کی غلطیاں باور کراتے اور سیاسی مکالمہ کی ضرورت سے آگاہ کرتے۔ اس بارے میں خاص طور سے سانحہ9 مئی پر تحریک انصاف کے غلط رویہ کی نشاندہی کی جاتی اور پی ٹی آئی کے لیڈروں کو اس روز رونما ہونے والے افسوسناک واقعات کی مذمت پر آمادہ کرتے۔ اور دوسری طرف حکومت سے اس روز کے واقعات میں ملوث لوگوں کے لیے رعایت لینے کی کوشش کی جاتی۔ تاہم یہ دونوں لیڈر متوازن سیاسی رویہ اختیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ بلکہ ایک مقبول پارٹی اور لیڈر کی معاونت سے خود کو نمایاں کرنے کی کوشش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کے دو روزہ خفیہ اجلاس کو قومی کانفرنس قرار دیا ہے۔ لیکن وہ اس کانفرنس کے حوالے سے کوئی قومی مقصد سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ان دونوں بزرگ لیڈروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ کسی ایک پارٹی کا ترجمان بننا قومی مقصد نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے پورے ملک کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی اور محمود خان اچکزئی ، تحریک انصاف کی انگلی پکڑ کر میڈیا کی توجہ تو حاصل کررہے ہیں لیکن جس بحران سے بچا کر ملک کو آگے بڑھایا جاسکتا، وہ اس میں اضافہ کا سبب بھی بن رہے ہیں۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ