گزشتہ سے پیوستہ
اس نوع کی ایک اور وضعداری کی مثال یاد آرہی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل والد ماجد مولانا بہاالحق قاسمی مجلس احرار سے وابستہ تھے۔ ’زندگی‘ والے چودھری افضل حق مرحوم بھی مجلس احرار کے رہنماؤں میں سے تھے۔ ایک دفعہ چودھری صاحب مرحوم و مغفور کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں اشتراکیت کی حمایت کا پہلو نکلتا تھا۔ والد ماجد نے چودھری صاحب کے مضمون کی تردید میں ایک مضمون لکھا اور پھر ان دونوں بزرگوں کے درمیان اسلام اور اشتراکیت کے موضوع پر ایک زوردار بحث چھڑ گئی۔ یہ بحث اس زمانے کے معروف روزنامہ ’زم زم‘ میں شائع ہوتی تھی۔ یہ بحث اتنی اہم تھی کہ ملک کے تمام علمی حلقے اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ مگر آہستہ آہستہ اس بحث میں ذاتیات کا رنگ چھلکنے لگا اور یوں اس میں تلخی آتی چلی گئی۔ اس پر ’الفرقان‘ لکھنو کے ایڈیٹر اور ممتاز عالم دین مولانا منظور نعمانی نے درمیان میں پڑ کر یہ بحث بند کرا دی۔
قیام پاکستان کے بعد والد ماجد نے اپنے یہ مضامین اکٹھے کرکے ’اسلام اور اشتراکیت‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیئے اور اس کے دیباچے میں لکھا کہ یہ مضامین ایک مرحوم دوست کے کچھ مضامین کے جواب میں لکھے گئے تھے۔ میں نے والد ماجد سے کہا کہ آپ نے مرحوم دوست لکھنے کی بجائے چودھری افضل حق مرحوم کا نام کیوں نہیں لکھا؟ کہنے لگے کہ کتاب کا نام چونکہ ’اسلام اور اشتراکیت ہے‘ لہٰذا اس سے یہ شائبہ گزر گیا تھا کہ چودھری صاحب شاید اسلام کے مقابلے میں اشتراکیت کی حمایت کر رہے تھے جب کہ ایسا نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے مرحوم دوست کا نام لکھنا مناسب نہ سمجھا۔
والد ماجد کی تصنیف و تالیف کے حوالے سے یاد آیا کہ وہ جید عالم دین، سیاسی رہنما اور شعلہ بیان خطیب ہونے کے علاوہ صحافی بھی تھے۔ وہ ’ضیا السلام‘ کے نام سے پندرہ روزہ جریدہ نکالتے تھے جس کی 1939 کی فائل میرے پاس موجود ہے۔ اس کے مختلف شماروں میں مولانا اشرف علی تھانوی، پیر صاحب گولڑہ شریف ، مولانا قاری محمد طیب، چودھری افضل حق، مولانا سید نذیر الحق میرٹھی، مولانا عبدالماجد دریا بادی اور دوسرے مشاہیر نے جس طرح والد ماجد کی ان کاوشوں کو سراہا ہے جو انہوں نے دین حق کی ترویج کیلئے کیں۔ اس سے ان کی جولانی قلم کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ والد ماجد مولانا بہاالحق قاسمی انتہائی خوبصورت نثر لکھتے تھے اور ان کی تحریر میں طنز کی کاٹ اس کے سوا تھی۔ جب شاہ سعود نے صحابہ کرام کے مزاروں پر بلڈوزر پھروا دیئے تاکہ ان کی پوجا نہ ہو سکے تو والد ماجد نے اس اقدام کے خلاف ایک زبردست پمفلٹ لکھا اور کہا یہ توحید نہیں توحید کا ہیضہ ہے۔ والد مکرم زبان کی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے چنانچہ میرے کالم کی اشاعت پر مجھے اپنے پاس بلاتے اور زباں و بیان کے حوالے سے میری غلطیوں کی نشاندہی کرتے۔ اسی طرح ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے خبریں سنتے ہوئے غلط تلفظ پر سخت بدمزہ ہوتے۔ اس پر میں ہنستا اور کہتا ’ابا جی! آپ تو اس معاملےمیں ’اہل زبان‘ سے بھی زیادہ نازک مزاج ہیں‘۔ کہتے تم ٹھیک کہتے ہو لیکن انسان جو زبان لکھے یا بولے اسے اس زبان کی بددعا نہیں لینی چاہئے۔
والد ماجد کی ایک بات جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ ان کی طبیعت کا فطری انکسار تھا۔ اپنے نام کے ساتھ کبھی مولانا نہیں لکھا چنانچہ ان کی بیس کے قریب تصنیفات پر صرف پیرزادہ محمد بہاالحق قاسمی درج ہے۔ ہمارے خاندان میں گزشتہ ایک ہزار سال سے رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری ہے۔ مولانا کمال الدین سیالکوٹی متوفی (1017) ہمارے خاندان میں سے ہیں جن کے مشہور شاگردوں میں حضرت مجدد الف ثانی سرہندی، ملاعبدالحکیم سیالکوٹی اور نواب سعد اللہ خان وزیر، شاہ جہاں بادشاہ شامل ہیں۔ ان کے بعد بھی ہمارے خاندان کے بزرگوں کا فیض اس طرح رہا اور بیسیوں اولیا و صلحائے امت علم کے ان چشموں سے سیراب ہوتے رہے۔ والد ماجد چاہتے تو پیری مریدی کا سلسلہ شروع کر سکتے تھے مگر ہزاروں عقیدت مندوں کی خواہش کے باوجود آپ نے کسی کو بیعت نہیں کیا اور کہا کہ میں ننگ اسلاف ہوں اور یوں میں اس بھاری ذمہ داری کا اہل نہیں ہوں۔
طبیعت میں انکسار کا یہ عالم تھا کہ جب قومی تاریخ کا کوئی واقعہ بیان کرتے تو اس میں نمایاں کردار ادا کرنے کے باوجود خود کو اس میں نفی کر دیتے۔ ایک دن کہنے لگے کہ مولانا حسرت موہانی میں ایک تضاد بہت دلچسپ تھا۔ میں نے پوچھا وہ کیا۔ بولے ایک طرف تو مولانا سوشلزم کے زبردست حامی تھے اور دوسری طرف جیل میں بھی باقاعدگی سے گیارہویں کا ختم دیتے تھے۔ میں نے پوچھا آپ کو کیسے علم ہوا۔ کہنے لگے میں اتفاق سے جیل میں ان کے ساتھ رہ چکا ہوں۔ 1930 کی تحریک آزادی کشمیر میں والد ماجد نے نمایاں کردار ادا کیا۔ دو دفعہ جموں گئے اور جموں اسٹیشن سے باہر نکلے تو ایک سب انسپکٹر پولیس نے ان کو جموں میں داخلے پر پابندی کا نوٹس دکھا کر شہر میں جانے سے روک دیا۔ اور زبردستی ایک سرکاری گاڑی میں بٹھا کر انہیں سیالکوٹ پہنچا دیا۔ دوسری دفعہ مظفر آباد اور سرینگر گئے تاکہ شیخ عبداللہ، مولانا یوسف شاہ، میر واعظ کشمیری اور مظفر آباد کے لیڈر پیر حسام الدین مرحوم کو اپنے ہمراہ لاہور لائیں۔ تاکہ وہ کشمیر کے مسئلے پر احرار رہنماؤں سے تبادلہ خیال کریں۔ ان میں سے شیخ عبداللہ تو سرینگر میں موجود نہ تھے چنانچہ والد ماجد ان کے قائم مقام بخش غلام محمد، میر واعظ اور پیر حسام الدین کو کار میں لاہور لے آئے اور ان سے مذاکرات کئے۔
والد ماجد تحریک آزادی کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے اپنے حوالے سے صرف یہی کچھ بتاتے تھے۔ حالانکہ اس کی بنیاد پر عظمتوں کے کتنے ہی محل تعمیر کئے جاسکتے ہیں۔ وفات سے تین روز قبل اباجی نے مجھے اپنے پاس بلایا اور بیٹھ جانے کو کہا پھر کہنے لگے کہ بہو کو بھی بلاؤ۔ چنانچہ شہناز بھی میرے برابر میں آکر بیٹھ گئی۔ اس روز والد ماجد کی آواز میں بہت نقاہت تھی۔ کمزور سی آواز میں کہا میرے بچو! میں تمام عمر کوئی نیک کام نہ کرسکا۔ میری ساری زندگی گناہوں سے بھری ہوئی ہے۔ مگر اتنا ہے کہ میں نے گناہ کو گناہ سمجھ کر ہی کیا۔ میرے بچو! میں نے تم سے یہ کہنا ہے کہ تم سے اگر زندگی میں گناہ سرزد ہو تو اسے گناہ سمجھ کر ہی کرنا۔ اس گناہ کا جواز تلاش نہ کرنا۔ پھر کہنے لگے مجھے ایک بات اور بھی کہنا تھی مگر وہ میں بھول گیا ہوں اور اس کے تین دن بعد وہ گہری نیند سو گئے۔
جہاں تک ابا جی کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے وہ قابل تقلید بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ ابا جی ان دنوں احباب اور عزیز و اقارب کو پوسٹ کارڈ لکھا کرتے تھے۔ اب تو یہ سلسلہ بھی نہ ہونے کے برابر ہی رہ گیاہے۔ بہر حال ابا جی ڈاک کی ترسیل کے حوالے سے بہت وہمی تھے۔ اس حوالے سے کسی پر کم ہی اعتبار کرتےتھے۔ مجھے پوسٹ کارڈ دیتے کہ پوسٹ آفس کے لیٹر بکس ہی میں ڈالنا ہے۔ ادھر ادھر کے لیٹر بکس میں نہیں۔ پھر یہ ہدایت کہ جتنا ہاتھ باکس میں جا سکے وہ ضرور ڈالنا کہیں پوسٹ کارڈ ’رستے‘ ہی میں نہ رہ جائے۔ ایک دن ابا جی پوسٹ کارڈ ڈالنے کیلئے خود ڈاکخانے گئے اور اپنا پورا ہاتھ یا جتنا ممکن تھا بکس میں ڈال دیا۔ کارڈ تو یقیناً بکس کی تہہ تک پہنچ گیا ہوگا مگر اباجی کا ہاتھ اندر رہ گیا۔ ابا جی نے بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں نکلا۔ اتنے میں ابا جی کے بہت سے عقیدت مند اکٹھے ہوگئے اور ان کی مشترکہ جدوجہد سے ہاتھ باہر نکالنے میں کامیابی ممکن ہوئی۔
ابا جی کو دوسرے شہروں میں منعقد ہوئے دینی جلسوں میں جب جانا ہوتا، یہ میرے بچپن کی بات ہے، مجھے اپنے ساتھ بٹھاتے اور جب منبر پر خطاب کیلئےتشریف فرما ہوتے۔ اپنی خطابت سے ایک سماں سا باندھ دیتے، نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوتے اور مجھے انہی نعروں کے درمیان نیند آ جاتی۔ اور میں مسجد کی چٹائی پر بڑے سکون سے سویا رہتا۔ میری چھ بہنیں اور ہم دو بھائی تھے۔ میں چھوٹا تھا اور یوں مجھے بہت پیار ملتا تھا۔ چار پانچ سال کی عمر تک ابا جی مجھے خود نہلاتے تھے۔ ابا جی حقہ پیتے مگر حقہ نوشی کو مکروہ جانتے تھے۔ ان کا حقہ پانی بدل کر میں خود تازہ کرتا اور چلم میں کوئلے اور تمباکو کی متناسب مقدار ڈالتا۔ جیسا کہ میں نے بتایا ابا جی اس فعل کو مکروہ سمجھتے تھے چنانچہ کسی مہمان نے ڈرائنگ روم میں بھی بیٹھنا ہوتا تو پہلے سارا دھواں ’دھکے مار کر‘ باہر نکالا جاتا اس کے بعد مہمان ہمارے گھر میں قدم رکھ پاتا۔
ابا جی زبردست تیراک تھے جب ہم وزیر آباد میں تھے، ابا جی ایک دفعہ ہمیں دریائے چناب پر لے کر گئے۔ پہلے خود تیرتے تیرتے بہت دور نکل گئے، واپس آئے تو اتنی دیر میں دریا میں ڈالا ہوا تربوز ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ واضح رہے ہم پکنک پر آئے ہوئے تھےاور پکنک پر ایسی عیاشی تو کی جاتی ہے۔ ہم نے تربوز کی ٹھنڈی ٹھنڈی قاشیں مزے لے لے کر کھائیں اور خدا کا شکر ادا کیا۔ اس دفعہ ابا جی نے اکیلے دریا کی موجوں سے کھیلنے کی بجائے میری طرف اپنے ہاتھ بڑھائے اور میں ان کی چوڑی چکلی چھاتی سے لپٹ گیا۔ مگر انہو ں نے مجھے گود سے اٹھا کر اپنے کاندھوں پر بٹھایا اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا میں چھلانگ لگا دی اور تیرتے تیرتے ایک دفعہ پھر دور نکل گئے۔ مجھے بہت ڈربھی لگ رہا تھا مگر کچھ کچھ مزہ بھی آ رہا تھا ۔ شاید ڈر زیادہ لگ رہا تھا کہ واپس کنارے پر پہنچ کر میں نے ایک لمبا سانس لیا۔
ابا جی کی زندگی کو دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے، ان کے نقش پا پر چلنا شاید ممکن ہی نہیں۔ انہیں بہت معمولی مشاہرہ ملتا تھا اس میں جتنی برکت تھی، میں آج بھی سوچتا ہوں تو حیرت زدہ رہ جاتا ہوں۔ ظاہر ہے ہمیں عالیشان کپڑے پہننے کو نہیں ملتے تھے اور نہ ہی گھر میں وہ کھانے پکتے تھے جو عمومی طور پر ان دِنوں گھر میں پکائے جاتے تھے۔ ابا جی نے اس قلیل مشاہرے میں بیٹیوں کی شادی کی، صرف یہی نہیں انہیں اپنی بہن کی بیٹیوں اور ان کی اولاد سے بھی بہت پیار تھا۔ اسی طرح اپنی بیٹیوں کے حوالے سے بھی وہ مقدور بھر کچھ نہ کچھ کرتے تھے۔ کسی کو بیس، کسی کو پچیس روپے کا منی آرڈر کرتے۔ باقاعدگی سے ان کی طرف جاتے بلکہ میرے کئی بھانجے ہمارےگھر میں طویل عرصہ رہتے تھے۔ انہیں آج تک اپنے نانا کی بے پایاں محبتیں یاد ہیں۔ ابا جی نے اپنی شدید خواہش کو پس پشت ڈالتے ہوئے مجھے دینی مدرسے میں داخل کرنے کی بجائے کالج میں داخلے کی اجازت دے دی۔ تاہم گھر پر دینی تعلیم دیتے رہے۔ انہوں نے تین سپارے ترجمے اور تفسیر کے ساتھ مجھے پڑھائے اور میرے الٹے سیدھے سوالوں کا جواب دیتے رہے۔
مجھے سمجھ نہیں آتی میں اپنے والد کی زندگی کے کون سے پہلو پر بات کرو ں اور کسے چھوڑوں۔ میں بہت چھوٹا تھا جب میری دائیں ٹانگ کے نچلے حصے پر ایک پھوڑا نکل آیا۔ ایک مشہور جراح سے علاج کروایا تو ابا جی مجھے میوہسپتال لے گئے۔ اتنی بڑی شخصیت مجھے اپنے کاندھوں پر اٹھائے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں لے جاتے رہے۔ میری ٹانگ کا آپریشن ایک خدا ترس اور بہت ممتاز مقام کے حامل ڈاکٹر امیر الدین نے کیا۔ یہ پھوڑا کینسر ٹائپ کوئی چیز تھا۔ چنانچہ ٹانگ کی ہڈی تک کھرچ دی گئی اور ٹانگ میں ناصرف یہ خلا تاحال باقی ہے بلکہ انگلی سے ہلکاسا دبانے پر سخت تکلیف ہوتی ہے۔ جب بھی مجھے زخم کا یہ نشان نظر آتا ہے، ساتھ ہی میں دیکھتا ہوں کہ ابا جی نے مجھے اپنے کاندھوں پر اٹھایا ہوا ہے اور ہسپتال کے برآمدے میں لئے پھر رہے ہیں۔ میں جب کبھی کالج سے آتا اور ابا جی کو صحن میں چارپائی پر بیٹھا دیکھتا تو ان کے ساتھ لپٹ جاتا یا ان کے پاؤں دبانے لگتا۔ میری محبت کا یہ اظہار اللہ جانے کتنی خوشی ملتی ہوگی۔
اس حوالے سے ایک واقعہ میری یادداشت کا دائمی حصہ ہے۔ ابا جی جب گھر سے باہر جاتے تھے تو عموماً شام تک واپس آ جاتے تھے۔ ایک دن عشا کا وقت ہوگیا تو مجھے تشویش ہوئی میں نے تمام تھانوں میں فون کرکے پوچھا کہ کسی حادثے کے نتیجے میں اس حلیے کے شخص کو کسی ہسپتال تو نہیں پہنچایا، مگر بے سود۔ اس روز شدید بارش ہو رہی تھی میں نے اپنی بڑی بہن سعادت آپی کو فون کرنے کی کوشش کی کہ شاید ان کی طرف ہوں مگر شدید اور مسلسل بارش کی وجہ سے فون سروس معطل ہو چکی تھی۔ تب میں نے موٹر سائیکل نکالی اور میوہسپتال کے مردہ خانے میں پہنچ گیا۔ وہاں زمین پر کئی لاشیں پڑی تھیں، کچھ فریزر کے اندر تھیں اور کچھ کودیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا کیا ہوا تھا۔ میں نے ایک ایک لاش کو غور سے دیکھا اور پھر مایوس ہو کر گھر لوٹ آیا۔
مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، صبح کی اذان ہوئی تو ابا جی کھلے دروازے میں سے گھر میں داخل ہوئے۔ میں ان پر برس پڑا ، آپ کو اتنا خیال نہیں آیا کہ میں کتنا پریشان ہوں گا۔ میری گفتگو سن کر ابا جی کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ ابھری اور میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’مجھے آج پتہ چلا تم مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو‘۔ میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ ابا جی نے اپنے کاندھے پر دھرے رومال سے میرے آنسو پونچھے اور بتایا کہ بارش کی وجہ سے انہیں اپنی بیٹی کے پاس رکنا پڑگیا تھا، جونہی بارش ختم ہوئی میں آگیا۔ دیکھو تمہارے ساتھ کھڑا ہوں۔اس رات مجھے بہت تسلی کی نیند آئی، میں بہت دیر تک سویا۔ (جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)