کسی بھی شہر کی کہانی وہی سنا سکتا ہے جس کی اس شہر کے ساتھ وابستگی ہو اور جس نے شہر کی زبانی شہر کی کہانی خود بھی سنی ہو ۔ شہر اپنے دامن میں بہت سی کہانیاں لیے پھرتے ہیں ۔ یہ کہانیاں کئی طرح کی ہوتی ہیں ۔ شہر کے محسنوں کی ، شہر سے محبت کرنا والوں کی ، شہر کے معماروں کی اور شہر کے غداروں کی ۔ شہر خوشیاں بھی دیکھتے ہیں اور دکھ بھی جھیلتے ہیں ۔ یہ خوشبو بھرے لمحات کے عینی شاہد ہوتے ہیں اور آگ اور خون کی ہولیاں بھی ان کے سامنے ہی کھیلی جاتی ہیں ۔ شہر کی آپ بیتی شہریوں کی جیون کہانیوں کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ۔ یہ سب کچھ ہم نے اس لیے تحریر کیا کہ ڈاکٹر جواز جعفری کی طرح ہم خود بھی ایک ایسے شہر کے باسی ہیں جس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے اور جس شہر لاہور کی کہانی ؓبرادرم جواز جعفری نے نظم کی ہے اس کا ہمارے شہر ملتان کے ساتھ صدیوں پرانا تعلق ہے۔ ملتان جو کبھی راوی کنارے آباد تھا اور لاہور کو اس زمانے میں داتا صاحب نے ہی ’’ یکے از مضافاتِ ملتان ‘‘ کہا تھا ۔
’’ کہانی ایک شہر کی ‘‘ ڈاکٹر جواز جعفری کی نثری نظموں کا مجموعہ ہے ۔ اس کتاب نے مجھے اپنی گرفت میں لیا اور میں نے جب اس کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے ملتان کی طرح لاہور بھی ویسا ہی دکھائی دیا جیسا کہ جواز جعفری نے اپنی ان طویل نظموں میں بیان کیا ہے جواز جعفری بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں ، نظمیں بھی انہوں نے کہیں رثائی ادب میں ان کا منفرد مقام ہے۔ جواز جعفری کی یہ نظمیں ہماری اس لاہور سے ملاقات کراتی ہیں جو بہت شاداب اور بہت آباد تھا ۔ کہنے کو یہ نثری نظمیں ہیں در حقیقت یہ لاہور کی تاریخ ہے جو ایک شاعر نے بیان کی ہے۔ ایک ایسے شاعر نے جو زبان و بیان پر قدرت رکھتا ہے ۔ جس کے سامنے لفظ قطار اندر قطار موجود ہوتے ہیں کہ وہ انہیں سلیقے کے ساتھ استعمال کرے اور انہیں نئے معا نی عطا کرد ے یہ نظم لاہور کی تاریخ بھی ہے اور اس شہر کا نوحہ بھی ۔ آغاز وہ اپنے شہر پر سلام سے کرتے ہیں۔
سلام مغنی پر
جس نے مترنم لہروں سے الوہی نغمہ ترتیب دیا
سلام پیاسی سر زمین پر
دریا جس کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے
وہ پانی کے فراق میں
سوکھ کر کانٹا ہو رہی ہے
ہمیں اس کتاب میں اس شہر کے لوگ چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان میں گلوکار ہیں، دستکار اور فنکار ہیں ، شاعر ہیں ، مصور اور موسیقار ہیں ۔ عام لوگوں کا ذکر ہے اس کتاب میں ۔ جواز جعفری نے اس کتاب کے ذریعے اس لاہور کو محفوظ کیا ہے جو ان کے خوابوں میں موجود ہے جو انہوں نے اپنے لڑکپن میں دیکھا، جو انہوں نے اپنے بچپن میں دیکھا ۔ اسی لاہور کی گلیوں میں اسی لاہور کی سڑکوں پر انہوں نے مختلف شخصیات کے ساتھ وقت گزارا ۔ یہاں کے چائے خانے آ باد دیکھے۔ یہاں کی سڑکوں کو بھی انہوں نے فلائی اوورز اور میٹروز کی زد میں آنے سے پہلے دیکھا تھا ۔ شہر کو انہوں نے اس انداز میں دیکھا اور محسوس کیا اور اسے تخلیقی سطح پر اپنی نظم کا حصہ بنایا کہ یہ شہر اور شاعر کی آپ بیتی بن گئی ۔ہمیں اس نظم میں راوی کے خشک ہونے کی کہانی ملتی ہے ۔ اس راوی کی جس کے پانی کو ہمارے وسیب کے ستلج کی طرح فروخت کر دیا گیا اور اب وہاں بھی ریت اڑتی ہے ۔
کتاب میں شامل راوی کا مرثیہ اس کتاب کی شان ہے ۔۔
راوی کو مرے آج چالیسواں دن ہے
میرے سامنے
دریا نہیں دریا کی گزرگاہ ہے
پسپا ہوتا ہوا دریا اپنے نقش و نگار کھو بیٹھا
گمشدہ دریا کی بنجر ریت میں شہر اگ آیا ہے
میرا دریا
اب خلد کے چہار باغ میں بہتا ہے
پانی کا آئینہ زنگ آلود ہے
میں ریت میں اپنا عکس ڈھونڈتا ہوں
پانی کے تعاقب میں جانے والی کشتیاں
واپسی کا رستہ بھول گئیں
ملاحوں کے گیت
لوری کے درجے سے گر گئے
دریا کے کناروں سے ہمارے پتوار چرا لیے گئے
شہر کے چوراہوں میں کھڑے لوگ
دریا کی موت پہ گریہ کرتے ہیں
میری مٹھی میں
اس جواں سال عورت کے آنسو ہیں
جس کے جسم کے زیر و بم لافانی پانیوں نے تخلیق کیے تھے
دریا اس کی کہانی کا محرم ہے
میں نے دریا سے عشق کیا
جب وہ میرے سنہری خوشوں کو بہا لے گیا
میں نے اس سے غیر مشروط محبت کی
جب وہ شہر کی گلیوں میں قدم آرائی کرتا تھا
میں نے دریا کی موت پہ گریہ کیا
اور اپنی جوان ہڈیوں سے
اس کے لیے تابوت بنایا
اپنی سانس کا آخری نوالہ خرچ کرنے سے پہلے
میں نے ایک اور زندگی کی تمنا کی
تاکہ جواں مرگ دریا کا مرٹیہ لکھ سکوں !
ڈاکٹر جواز جعفری کی اس کتاب پر اگر ایک جملے میں بات کرنا ہو تو صرف یہی کہنا کافی ہو گا کہ جواز جعفری نے مجھے نثری نظم کا جواز فراہم کر دیا ہے۔ اس سے پہلے میرے دوستوں میں برادرم قمر رضا شہزاد نثری نظم کہہ رہے ہیں ۔ نثری نظم کو مبارک احمد ، احمد ہمیش اور افضال احمد سید کے بعد اب ایسے بہت سے شعراء میسر آ گئے ہیں جن کا اردو غزل اور نظم کے مستند شعراء میں شمار ہوتا ہے ۔ ایسے میں جواز کی نثری نظموں کا یہ ساتواں مجموعہ بھی اس صنف کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے ۔ صرف اس صنف کے لیے ہی نہیں ہمارے ان شہروں کے لیے بھی جن میں ہم سانس لیتے ہیں اور جن کی خاک ہم اوڑھنا چاہتے ہیں
گرد ہے ، عشق کی گرمی ہے لحد ہے مجھ میں
اس لیے میں رضی ملتان میں آیا ہوا ہوں
فیس بک کمینٹ