وزیر اعظم شہباز شریف نے جعفر ایکسپریس سانحہ کے دو روز بعد بالآخر کوئٹہ کا دورہ کیا، زخمیوں کی عیادت کی اور ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کے بعد پریس کانفرنس بھی منعقد کی۔ دہشت گردی کو مسترد کرنے اور پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ انہوں نے اس المناک سانحہ کے بعد قومی یک جہتی پر زور دیا اور کہا کہ تمام سیاسی قائدین کو عسکری قیادت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے موجودہ چیلنج کا مقابلہ کرنا چاہئے۔
اس تجویز کے بعد تاہم وزیر اعظم نے یہ وضاحت نہیں کی کہ وہ یہ مقصد کیسے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیا کوئی ایسی آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے گی جس میں تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی لیڈروں کو مدعو کیا جائے گا بلکہ اس کانفرنس کو حقیقی معنوں میں قومی یک جہتی اور کسی ایک نکتہ پر اتفاق رائے کی علامت بنانے کے لیے کیا حکومت عمران خان کو پیرول پر رہا کرکے اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دے گی؟ تاکہ حقیقی معنوں میں دہشت گردی، انتشار و فساد کے خلاف کوئی ایسا لائحہ عمل بنایا جاسکے جس پر سب لیڈر اور فوجی قیادت متفق ہو۔ البتہ وزیر اعظم نے اس اہم معاملہ پر چند جملے کہنے کے بعد زیادہ وقت دہشت گردوں کو صلواتیں سنانے اور فوجی قیادت کی توصیف میں صرف کیا۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہباز شریف جسے قومی اتحاد کہہ رہے ہیں، کیا وہ محض سیاسی چال ہے یا حکومت حقیقی معنوں میں کسی قومی اتفاق رائے کی طرف بڑھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
کوئٹہ سے پشاور جانے والی گاڑی پر حملہ اور اس کے مسافروں کو 36 گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھنے کا واقعہ پوری قوم کو جھجوڑنے کے لیے کافی تھا۔ اس کے بعد قومی اسمبلی میں اس بارے میں سرکاری بیان جمع کرایا جاسکتا تھا اور ان وجوہات پر روشنی ڈالی جاسکتی تھی جن کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہؤا ۔اور ایسے رہنما اصول بیان کیے جاتے جن کی بنیاد پر حکومت مستقبل میں ایسے کسی سانحہ کی روک تھام کا ارادہ رکھتی ہے۔ تاہم دیکھا جاسکتا ہے کہ وزیر داخلہ جو درحقیقت اس ساری صورت حال میں بنیادی ذمہ داری کے حامل تھے، اس موقع پر قومی اسمبلی میں تشریف ہی نہیں لائے۔ البتہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے اسے انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دیا ۔ اور حکومت کی نااہلی سے معنون کیا۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے تحریک انصاف کے بیانات کو بھارتی میڈیا سے مماثل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف اس معاملہ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ پوری دنیا اس موقع پر پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے لیکن صرف تحریک انصاف مخالفت کررہی ہے۔ یہ وقت ملک کے پچیس کروڑ لوگوں کی سلامتی اور حفاظت پر غور کرنے کا تقاضہ کرتا ہے لیکن تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اس وقوعہ کو پریشان کن طریقے سے پیش کررہا ہے۔
ایسے ماحول میں جب پارلیمنٹ میں اپوزیشن اور حکومتی نمائیندے ایک دوسرے کی نیک نیتی پر سوال اٹھارہے ہیں، وزیر اعظم نے تمام سیاسی لیڈروں اور عسکری قیادت کے درمیان ملاقات کا عندیہ دیا ہے۔ یا شاید یہ کسی نوعیت کی آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا ارادہ ہو جس میں دہشت گردی کے خلاف متفقہ فیصلہ کرنے پر اتفاق کیا جائے۔ اس معاملہ میں تاہم مزید تفصیلات سامنے نہیں آسکی ہیں ، اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر اعظم بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا کر سیاسی چال چلنے اور کوئی ایسا بیانیہ بنانے کی کوشش تو نہیں کررہے جس کے ذریعے اس سانحہ کو حکومت پر اعتماد بحال کرنے کا ذریعہ بنایا جاسکے۔ یہ شبہ اس لیے بھی پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی نمائیندے عام طور سے تحریک انصاف کے بارے میں کسی خوش گمانی کا مظاہرہ نہیں کرتے اور نہ ہی تحریک انصاف کسی ایسے معاملہ میں کوئی نرمی دکھانے یا قومی مقصد کی خاطر متوازن اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔
جعفر ایکسپریس پر حملہ ناگہانی، افسوسناک اور حیر ت انگیز تھا۔ انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں کوئٹہ سے پشاور جانے والی ٹرین کو دھماکے سے روکا گیا۔ پھر بندوقوں کے زور پر مسافروں کوٹرین سے اتار کر خود کش بمبار حملہ آوروں کے ساتھ بٹھا دیا گیا تاکہ کوئی بھی بھاگنے کی کوشش نہ کرے۔ متعدد ذرائع اس بارے میں انٹیلی جنس کی ناکامی کے بارے میں سوال اٹھا رہے ہیں۔ یہی سوال بجا طور سے عمر ایوب نے بھی قومی اسمبلی میں اٹھایا ہے لیکن جیسے ڈاکٹر کے نشتر اور ڈاکو کے خنجر میں فرق ہوتا ہے، ویسے ہی قومی ہمدردی سے اٹھائے جانے والے سوال اور سیاسی مقاصد سے حکومت کو مطعون کرنے کے لیے الفاظ کے چناؤ میں بھی فرق ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے ہمدردوں کی طرف سے اس واقعہ کو ریاست پاکستان کی ناکامی سے محمول کرتے ہوئے حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اس تنقید کا براہ راست نشانہ سکیورٹی فورسز کو بنایا گیا ہےجن کے بارے میں تحریک انصاف کا خیال ہے کہ وہ موجود ہ حکومت کی سرپرست ہے اور تحریک انصاف کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
بلوچستان میں ٹرین پر ہونے والے حملہ اور مسافروں کو یرغمال بنانے کے لیے طویل منصوبہ بندی، مہارت اور تفصیلی خاکہ تیار کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ کام کسی اچانک سوچ کا نتیجہ نہیں ہوسکتا تھا۔ بلکہ دہشت گردوں نے بہت سوچ سمجھ کر اس کی پلاننگ کی اور اپنا بیانیہ عام کرنے کے لیے اس حملہ کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ بھارتی میڈیا نے اس بارے میں بھرپور طریقے سے ان کا ساتھ دیا۔ یہ خبریں سامنے آچکی ہیں کہ فوج کا آپریشن شروع ہونے سے پہلے جب تک دہشت گرد ٹرین اور مسافروں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھے، وہ نہ صرف افغانستان میں اپنے منصوبہ سازوں سے ہدایات لے رہے تھے بلکہ بھارتی میڈیا کو بھی وقوعہ سے براہ راست فوٹیج اور خبریں ارسال کی جارہی تھیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے پہلے ٹی وی انٹرویو میں اور اب ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ اس دوران بھارتی میڈیا جعلی تصاویر اور مصنوعی ذہانت سے تیار کیے ہوئے خاکوں و نقشوں کی مدد سے صورت حال کی یک طرفہ تصویر دکھانے میں مصروف رہا۔ اس واقعہ کو پاکستان کے ساتھ دشمنی نکالنے کے موقع کے طور پر استعمال کیا گیا۔ حالانکہ ایک ذمہ دار ہمسایہ کے طور پر نئی دہلی حکومت کو دہشت گردی کا شکار ہونے پر پاکستان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنا چاہئے تھا۔ بھارت عام طور سے پوری دنیا میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگانے اور خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ تاہم اس موقع پر جھوٹی خبریں پھیلا کر اور پاکستان میں معصوم مسافروں کو تشدد و دہشت کا نشانہ بنانے والوں کا پروپیگنڈا عام کرکے بھارتی حکومت و میڈیا نے واضح کیا ہے کہ اسے دہشت گردی سے زیادہ پاکستان کو نقصان پہنچانے اور کسی بھی طرح وطن عزیز میں انتشار پیدا کرنے سے غرض ہے ۔کیوں کہ اس سے اس کے سیاسی و اسٹریٹیجک مفادات پورے ہوتے ہیں۔
اسی حوالے سے اگر پاکستانی انٹیلی جنس نظام کی ناکامی پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے تو اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاک فوج نے انتہائی مہارت اور دلیری سے نہایت مختصر وقت میں سینکڑوں مسافروں کو رہاکرایا۔ ایک طرف دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا تو دوسری طرف یہ کوشش کی گئی کہ کسی مسافر اور عام شہری کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ پاک فوج اس مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہوئی ہے۔ یہ آپریشن دہشت گردی اور گوریلا جنگ جوئی کا مقابلہ کرنے کی تاریخ میں یادگار اور مثالی مہارت کے ثبوت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس کامیابی پر پاک فوج اور اس مشکل آپریشن میں شریک ہونے والے افسر اور جوان بلاشبہ پوری قوم کی تحسین کے حق دار ہیں۔ اس دہشت گردی کے بارے میں قبل از وقت معلومات فراہم نہ ہونے کا شبہ یا موجودہ حکومت کی سیاسی و منتخب حیثیت کے بارے میں سوالات، پاک فوج کی اس دلیری ، جان بازی اور کامیابی کو دھندلا نہیں سکتے۔ دوست و دشمن کو یکساں طور سے اس کا اعتراف کرنا چاہئے۔ پاک فوج نے بلاشبہ قوم کو یقین دلایا ہے کہ مشکل ترین حالات میں بھی وہ شہریوں کی حفاظت کا فرض ادا کرنے کے لیے تیار رہتی ہے۔
سیاسی پارٹیوں کو بھی حکومت کی نااہلی پر سوال اٹھاتے ہوئے یہ دھیان میں رکھنا چاہئے کہ ان نوجوان افسروں اور جوانوں کے حوصلے اور جاں بازی کو فراموش نہ کریں جو جان ہتھیلی پر رکھ کر دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں اغوا کیے گئے سینکڑوں مسافروں کو بازیاب کرانے کے لیے پہنچے اور اس میں شاندار کامیابی حاصل کی ۔ کسی بھی سانحہ کے بعد جائز سوال اٹھانا اور ان کے جواب تلاش کرنا بے حد اہم ہوتا ہے۔ پاک فوج اور حکومت نے اگرچہ اس واقعہ کی ذمہ داری افغانستان اور بھارت پر عائد کی ہے لیکن دہشت گردی کا ایک پیچیدہ منصوبہ محض بیرون ملک تربیت یا مالی و عسکری مدد سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا ۔ بلکہ اس کی کامیابی کے لیے ملک کے اندر موجود دہشت گرد نیٹ ورک اور اس کے سہولت کاروں کا کردار بھی اہم ہوتا ہے۔ جعفر ایکسپریس کے سانحہ کے بعد اب اس نیٹ ورک کو توڑنا اور مستقبل میں ایسے کسی خطرناک حملہ کی روک تھام کے لیے کام کرنا اہم ہے۔ اسی لیے اس واقعہ کی وجوہات کے بارے میں اٹھائے گئے جائز سوالات کو ملک دشمنی قرار دینےکی بجائے، مبنی بر حقیقت نشاندہی سمجھنا چاہئے۔ اس حوالے سے اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہفتہ عشرہ پہلے پاکستانی فورسز نے امریکی انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر بلوچستان سے ہی ایک خطرناک دہشت گرد شریف اللہ کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ اس گرفتاری کے دس دن بعد جعفر ایکسپریس کا سانحہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا کسی دہشت گرد گروہ نے پاکستانی شہریوں اور فوج کو اس کی سزا دینے کی کوشش کی ہے؟ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر امریکی انٹیلی جنس اپنے فوجیوں کی ہلاکت میں ملوث ایک دہشت گرد کی نشاندہی کے لیے مؤثر طریقے سے سراغ رسانی کے ذرائع استعمال کرسکتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ یہی سہولت پاکستان میں ہونے والے ایک سنگین وقوعہ کے بارے میں قبل از وقت معلومات فراہم کرنے کے لیے فراہم نہیں کرپائی۔ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کے حوالے سے تعاون کرتے ہوئے ملک کے اندر سرگرم دہشت گرد گروہوں کے بارے میں نگرانی اور معلومات کے تبادلے کی یقین دہانی حاصل کرنی چاہئے۔
اس سانحہ کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے لیکن انہوں نے عورتوں و بچوں سمیت معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا ، اور سفاکی سے مسافروں کو گولیاں ماریں یا خود کش بمباروں کے ذریعے دہشت زدہ کرنے کی کوشش کی۔ اس رویہ نے بلوچ عوام میں بھی ان شدت پسند عناصر کی ساکھ کو شدید نقسان پہنچایا ہے۔ گو کہ بھارتی میڈیا یک طرفہ طور سے اس علیحدگی پسند گروہ کو ہیرو بناکر پیش کرتا رہا ہے لیکن بلوچستان کے پر امن عوام ضرور یہ سوال کررہے ہیں کہ ایسے انسان دشمن کیوں کر انسانی حقوق یا شہری آزادیوں کے علمبردار ہوسکتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ اس سانحہ کی وجہ سے بلوچ عوام میں ریاست پاکستان کے لیے ہمدردی اور اپنائیت کے جذبات میں اضافہ ہؤا ہے۔ اب مثبت حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے ان جذبات کو ریاست کے حق میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم ضرور سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے کام کریں لیکن انہیں اس بارے میں ٹھوس پالیسی بیان کرنی چاہئے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے لیے ضرور راہ ہموار کی جائے لیکن اسے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ قومی اتفاق رائے کے لئے اے پی سی اہم ضرور ہے لیکن حکومت اپنے طور پر اعتماد سازی کے متعدد اقدامات کرکے اہل بلوچستان کے دکھے دلوں کو جیتنے کاکام اپوزیشن کی تائید کے بغیر بھی شروع کرسکتی ہے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ