اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو مطلع کیا ہے کہ امریکی انتخابات کے بعد چار رکنی پاکستانی وفد امریکہ جاکر دہشت گردی کے الزام میں قید عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوشش کرے گا۔ اٹارنی جنرل کے مطابق اس دورے کا مقصد عافیہ صدیقی کی پاکستان منتقلی کے امکانات پر امریکی حکام سے بات چیت کے علاوہ ان کی صحت و بہبود کا جائزہ لینا بھی ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفد میں سینیٹر طلحہ محمود، سابق وزیر انوشے رحمان، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور ایک طبی ماہر شامل ہوگا۔ اس حوالے سے درخواست کی سماعت کرنے والے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ایڈووکیٹ زینب جنجوعہ کو فریقین کے درمیان رابطہ کاری کا فوکل پرسن مقرر کیا اور مقدمہ کی سماعت نومبر کے آخر تک ملتوی کردی گئی تاکہ حکومت کی سفارتی کوششوں کی تفصیل عدالت کے نوٹس میں لائی جاسکے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے 13 اکتوبر امریکی صدر جو بائیڈن کے نام لکھے گئے خط میں عافیہ صدیقی کی ذہنی و جسمانی حالت کا حوالہ دیتے ہوئے اپیل کی تھی کہ باون سالہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو معاف کرکے پاکستان بھیج دیا جائے۔ خط میں واضح کیا گیا تھا کہ متعدد پاکستانی افسروں نے عافیہ صدیقی سے قونصلر رابطہ کیا ہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ عافیہ صدیقی جیل میں خود کشی کرسکتی ہیں۔ اس پس منظر میں ایک پاکستانی شہری کی زندگی اور بہبود کے لیے میں آپ سے ان کی رہائی کی درخواست کرتا ہوں۔
کسی بھی انسان کی زندگی بچانے کی ذمہ داری نہ صرف حکومت بلکہ ہر انسان پر عائد ہوتی ہے تاہم متعدد پاکستانی حکومتوں نے گزشتہ پندرہ سال کے دوران ڈاکٹر عارفہ صدیقی کی امریکہ سے رہائی کے لیے جس سرگرمی کا مظاہرہ کیا ہے، ملکی تاریخ میں اس کی مثال تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ عافیہ صدیقی کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہو اور انہیں امریکہ میں ملنے والی سزا ، ان کی غلطیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو لیکن اس معاملہ میں پاکستانی حکومتوں کی کوششوں، عدالتوں کی دلچسپی اور عوامی سطح پر منظم کیے جانے والے احتجاج کی روشنی میں یہ سوال اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ کیا پاکستانی حکومت اور عدالتیں ہر پاکستانی شہری کی بہبود یا بیرون ملک کسی مشکل میں پھنسنے کی صورت میں اس کی مدد کے لیے اسی طرح سفارتی جد و جہد کرتی ہیں اور یوں ہی قومی وسائل صرف کیے جاتے ہیں؟
یہ اعداد و شمار تو نہ حکومت فراہم کرنے کی ضرورت محسوس کرے گی اور نہ ہی ملک میں کوئی عوامی تحریک یہ سوال اٹھاتی دکھائی دیتی ہے کہ کتنے پاکستانی شہری بے گناہ یا معمولی جرم کی بنا پر عرب ممالک یا دسرے ملکوں کی جیلوں میں بند ہیں۔ کیا ان سب قیدیوں کو بھی ویسی ہی قانونی و قونصلر امداد فراہم کی جاتی ہے جو گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران میں عافیہ صدیقی کو مہیا کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں اور پاکستان میں ان کے خاندان کو جو قانونی و مالی امداد فراہم کی گئی ہے، کیا کوئی عام پاکستانی شہری اس کا تصور کرسکتا ہے۔ کیا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، افریقہ و یورپی ممالک کی جیلوں میں قید پاکستانی شہریوں کے لیے بھی پاکستانی سفارت خانے یوں ہی بے چین و متحرک رہتے ہیں جو عافیہ صدیقی کے معاملہ میں دیکھنے میں آتا رہا ہے۔
محض جیلوں میں قید پاکستانی شہریوں پر ہی کیا منحصر ہے، کیا پاکستانی حکام نے کبھی کوئی ایسی ورکنگ فورس یا حکومتی کمیٹی بنانے پر بھی غور کیا جو انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں متعدد ایشیائی و یورپی ممالک میں انتہائی المناک زندگی گزارنے پر مجبور پاکستانی شہریوں کی صورت حال کا جائزہ لے سکے۔ کبھی کسی سیاست دان، فلاحی تنظیم یا سیاسی پارٹی نے ان لوگوں کے مصائب کا حساب لینے کی کوشش بھی ہے جو غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کی خواہش و کوشش میں یا تو بیماری و بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں یا کسی غیر محفوظ کشتی میں سفر کرتے ہوئے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں۔ متعدد معاملات میں تو ان مظلوموں کو مناسب شناخت کے بغیر ہی کسی ایسے ملک میں دفنا دیا جاتا ہے جہاں تک ان کے اہل خاندان کی کبھی رسائی نہیں ہوسکتی۔ یا انہیں کبھی معلوم ہی نہیں ہوپاتا کہ جائداد بیچ کر اور قرض لے کر آنکھوں میں سہانے خواب سجائے ان کا لاڈلا کس ملک میں کن حالات میں جان سے گیا۔ نہ کسی حکومتی ہرکارے نے خبر گیری کی اور نہ ہی ان کے انتظار میں بلکتی ماؤں یا بیویوں کو کوئی اطلاع دینے والا موجود ہے۔
پاکستانی حکومت کے پاس تو شاید اپنے ان شہریوں کے اعداد و شمار بھی موجود نہ ہوں جو مختلف یورپی ممالک میں یا تو امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی پر جیلوں میں بند ہیں یا پناہ گزین کیمپوں میں کسی قیدی ہی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بعض صورتوں میں ان کے پاس واپس جانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے، اگر وہ سفر کے اخراجات کا انتظام کرلیں تو ان کے پاس سفری کاغذات نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی سفارت خانہ انہیں یہ سہولت بہم پہنچانے پر آمادہ ہوتا ہے۔ کیا حکومت پاکستان نے کبھی کوشش کی ہے کہ ان لوگوں کی ’صحت و بہبود‘ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوئی کوشش بھی کی جائے۔ کیا کبھی کسی وزیر خارجہ نے اپنے سفارت خانوں سے یہ رپورٹ طلب کی ہے کہ وہاں محصور یا قید پاکستانی کس حال میں ہیں اور ان کی باعزت واپسی کے لیے کیا اقدام کیا جاسکتا ہے۔
یہی سوال ملکی میڈیا، سوشل میڈیا پر عافیہ صدیقی جیسی ’نظریاتی علامت‘ کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملانے اور بے سر و پا خبریں پھیلانے والوں اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے مسلسل پاکستانی قوم کو سیاسی و سماجی و جذباتی ہیجان میں مبتلا رکھنے والوں سے پوچھا جاسکتا ہے؟ ملکی عدالتوں کو بھی اس بارے میں جواب دہ بنایا جاسکتا ہے کہ ایک ’ہائی پروفائل‘ پاکستانی خاتون کے لیے تشویش کا اظہار کرنے اور سرکاری مصارف پر قانونی سہولت فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ، کیا انہیں کبھی دوسرے ہزاروں پاکستانیوں کا بھی خیال آتا ہے جو یکساں طور سے حکومت، سماج و نظام کے ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔ بلکہ ان مظلوموں پر توکسی دہشت گرد گروہ کی اعانت یا کسی امریکی شہری پر حملہ کرنے کا الزام بھی عائد نہیں ہوتا جس کا سامنا عافیہ صدیقی کررہی ہیں۔ تاہم فلاحی تنظیموں، میڈیا یا عدالتوں سے پہلے حکومت جواب دہ ہے کہ ایک بڑے اور سنگین مشکلات کا شکار پاکستانیوں کے گروہ کو نظر انداز کرکے کیوں ایک پاکستانی شہری کو انسانیت، قومی غیرت یا اسلام کی سربلندی سے وابستہ کرلیا گیا ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کو خاص طور سے اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب اس سال کے شروع میں اس عدالت کے 6 ججوں نے اپنے دائرہ اختیار میں مداخلت کرنے ، خاص مقدمات میں دھمکیاں دینے اور ایجنسیوں کی طرف سے اثر انداز ہونے کے بارے میں جوڈیشل کونسل کو تحریری شکایت کی تھی۔ پھر میڈیا اور سپریم کورٹ میں اس مراسلے کا چرچا رہا تھا۔ اب اسی عدالت کی ایک فاضل جج نے ایک غیر ملک میں سزا پانے والی اور پاکستان کے دائرہ اختیار سے دور ایک جیل میں قید کاٹنے والی ایک خاتون کے بارے میں مقدمہ کی سماعت کی اور اٹارنی جنرل کی اس یقین دہانی پر اطمینان کا اظہار کیا کہ چار رکنی سرکاری وفد امریکہ جاکر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوشش کرے گا۔ بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ حکم بھی جاری کیا کہ ایک وکیل رابطہ کار کے طور پر مقرر کیا جائے۔ ظاہر ہے اس وکیل کی فیس سرکاری خزانے سے ہی ادا ہوگی۔ مقدمہ کی سماعت کرنے والے فاضل جج کو ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ امریکی حکومت کے بارے میں اور امریکی عدالت کے فیصلہ پر کسی پاکستانی عدالت کو غور کرنے یا کوئی رائے دینے کا حق کیسے حاصل ہوجاتا ہے؟ کیا عدالت پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ کسی مقدمہ پر غور کرنے سے پہلے اپنے دائرہ اختیار اور قانونی حدود کا تعین کرے اور اسی کے مطابق مقدمہ خارج کرنے یا آگے بڑھانے کا فیصلہ کرے؟
اٹارنی جنرل کی اطلاع کے مطابق جو وفد پاکستان سے امریکہ جائے گا، اس میں عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ بھی شامل ہوں گی۔ اول تو عدالت کو ہی یہ سوال اٹھانا چاہئے تھا کہ ایک ایسے معاملہ پر اتنے کثیر سرکاری وسائل صرف کرنے سے کیا حاصل ہوگا جس میں پاکستانی حکومت یا کوئی بھی ادارہ کسی بھی قسم کا کوئی اثر ورسوخ نہیں رکھتا۔ عدالت کی خاموشی یا مقبول رجحان کی طرفداری کو اگر مان بھی لیا جائے تو بھی حکومت پاکستانی عوام کو اس سوال کا جواب دینے کی پابند ہے کہ جن لوگوں کو عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکہ بھیجا جارہا ہے، انہیں کیسے اور کس قسم کے امریکی حکام تک دسترس حاصل ہوگی۔ ایک پاکستانی سینیٹر، ایک سابق وزیر اور امریکی نظام میں سزا یافتہ مجرمہ کی بہن کس حد تک امریکی حکومت یا عدالتی نظام پر اثر انداز ہونے اور مطلوبہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟ ان لوگوں کے پاس کون سی ایسی صلاحیت ہے جو وہ امریکہ سے عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن بنانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟
خاص طور ایک سرکاری وفد میں عافیہ صدیقی کی بہن کو شامل کرنے کا سوائے اس کے کیا مقصد ہوسکتا ہے کہ حکومت ایک خاص نوعیت کی مذہبی لابی کے آگے بے بس ہے اور اسی کے زیر اثر ایک انتہاپسند نظریات کا پرچار کرنے والی ایک خاتون کو اس سرکاری وفد میں شامل کیا گیا ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اس معاملے میں ایک فریق ہیں اور انہوں نے اپنی بہن کی رہائی کے لیے پاکستانی حکومت کو امریکی حکومت کے مدمقابل لانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اس معاملہ میں بعض حقائق چھپائے گئے اور بعض صورتوں میں معاملات کی غلط تصویر پیش کی گئی۔ ایسی شخصیت کیسے کسی معاملہ میں ایک معتبر اور غیر جانبدار فرد کے طور پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوسکتی ہے۔
عافیہ صدیقی کے خاندان کا امریکہ کے ساتھ تعلق اور رشتہ ڈاکٹر عافیہ کو سزا ملنے کے باوجود کمزور نہیں ہؤا۔ ان کے بھائی امریکہ ہی میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اس سے پہلے بھی امریکہ جاتی رہی ہیں اور اب ایک بار پھر سرکاری مصارف پر دورہ امریکہ پر روانہ ہوں گی۔ اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ عافیہ صدیقی کے معاملہ میں پاکستانی عوام کو جذباتی نعروں سے گمراہ کرکے درحقیقت ایک خاندان اپنے مشکل وقت میں پاکستان کا نام اور حکومت کے وسائل صرف کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا جبکہ دوسری طرف اس خاندان نے امریکہ سے اپنے تعلقات میں کوئی ’دراڑ‘ نہیں پڑنے دی۔ یہی وجہ ہے کہ فوزیہ صدیقی کسی روک ٹوک کے بغیر امریکہ آتی جاتی ہیں۔
عافیہ صدیقی کا پروفائل انہیں ایک عالمی شہرت یافتہ دہشت گرد بتاتاہے۔ امریکی و پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس اس بارے میں بے شمار معلومات موجود ہیں۔ امریکی عدالت سے انہیں دہشت گردی کے الزام میں سزا نہیں دلائی جاسکی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عافیہ صدیقی القاعدہ اور اس کے لیڈروں کے ساتھ رابطے میں نہیں تھیں یا ان کے لیے کام نہیں کرتی رہیں۔ پاکستانی حکومت ایسی مشکوک شہرت رکھنے والی خاتون کی وکیل بن کر پاکستان کی نیک نامی میں اضافہ کا سبب نہیں بن سکتی۔ پاکستانی عوام کی مذہب سے وابستگی کسی شک و شبہ سے بالا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اہل پاکستان اب تک دہشت گردوں کے ظلم کا شکار ہورہے ہیں اور عوام کی اکثریت کسی صورت عقیدے کے نام پر ہتھیار اٹھانے یا مسلح جد و جہد کی حمایت نہیں کرتی۔
پاکستان کو عافیہ صدیقی کی غیر مشروط حمایت سے پہلے دہشت گردی کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے۔ اور عوام کو عافیہ صدیقی کے حوالے سے محض ان کی بہن اور جماعت اسلامی کی فراہم کردہ معلومات کی بجائے ، حالات و واقعات کی وہ تصویر بھی دکھانی چاہئے جو امریکی حکومت بیان کرتی ہے۔ یا پھر سرکاری طور سے کوئی ایسی جائزہ رپورٹ شائع کرنا چاہئے جس سے ثابت ہوسکے کہ عافیہ صدیقی ایک مظلوم اور بے گناہ شخصیت ہیں اور ان کا کبھی دہشت گردی، جہادی کلچر یا انتہا پسند تنظیموں و افراد سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ ان شفاف معلومات کے بغیر پاکستانی خزانے کو اس خاتون کی رہائی کے لیے صرف کرنا عوام کے ساتھ دھوکہ اور ظلم کے مترادف ہوگا۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ