دنیا میں اس وقت ہر طرف افراتفری کا عالم ہے، ہر ملک میں بے گناہ لوگوں کو خون میں نہلایا جا رہا ہے، گویا امن نام کی شے دنیا سے ناپید ہو چکی ہے اور بڑی طاقتوں سمیت ہر ملک کی قیادت اس بات پر متفق دکھائی دیتی ہے کہ اقوام عالم کو امن کے دشمنوں سے پاک کرنا ہوگا، دہشت گرد چاہے کسی بھی ملک ،نسل ،رنگ اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں انہیں نیست و نابود کرنا ہوگا اور اس کے لیے جو بھی اقدامات درکار ہوں گے انہیں اٹھانا ہوگا۔نواسہ رسول معظم حضرت امام حسین ابن علی ابن ابی طالب نے آج سے چودہ سوسال قبل اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ مکہ میں دہشت گردی کے ذریعہ اپنے قتل کی سازش و کوشش کو ناکام بنایا، حج کو عمرہ میں تبدیل کرکے مکہ چھوڑ کر عراق کا سفر اختیار کیا،دہشت گردوں کے سرغنہ حاکم شام کی افواج نے امام عالی مقام کو کربلا کے مقام پر پڑاؤ دالنے پر مجبور کردیا ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کو دشت میں خاموشی سے قتل کرنے کی سازش کو بے نقاب کرنے کے لیے جو حکمت عملی اپنائی اس سے شامی و کوفیوں کی تمام دانائی،حکمت عملی ناکام ہوکر رہ گئی،اور حاکم شام جس کا خانوادہ اپنی لیاقت ،ذہانت اور سازشیں کرنے میں مہارت رکھتا تھا یہاں امام حسین ابن علی کی حکمت ، دانش، فہم و فراست اور دانائی کے آگے زیرو ثابت ہوئے۔مصباح الہدااور سفینہ نجات کے امیر اور امن کے علمبردار جگر گوشہ بتول اپنے قتل کے آخری لمحات میں بھی دشمن جو ان کے خون کا پیاسا تھا اسے ہدایت کرتے رہے، تاکہ اتمام حجت کے تمام تقاضے پورے ہوجائیں اور روز محشر یہ دشمنان دین اسلام رب العزت کی بارگاہ میں کسی قسم کا عذر پیش نہ کر سکیں،مگر ہم ان کے نام لیواء صبر کا دامن کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟ محرم الحرام کا چاند دکھائی دیتے ہی پوری دنیا میں صف عزا بچ جاتی ہیں، محمد عربی ﷺ کی امت اپنے غم ،دکھ کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف نبی مکرم ہادی اعظم ﷺ کے نواسے اور اولاد کا غم منانے لگ جاتی ہے۔اہل تشیع اپنے انتہائی پیاروں، جو ایام محرم سے قبل انتقال کرجاتے ہیں یا ایام محرم کے دوران اس فانی دنیا سے ابدی دنیا کی جانب کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں ان کی’’ پھوڑیاں‘‘ اٹھا لیتے ہیں، لوگوں سے افسوس وصول نہیں کرتے، اپنے ماں باپ ،بھائی بہنوں اور دیگر عزیز و اقارب کی رسومات ساتواں ،دسواں اور چالیسویں کا ختم امام عالی مقام کے چہلم کے بعد مناتے ہیں۔ امت محمدیہ خصوصا اہل تشیع امام عام مقام کے ساتھ حاکم شام یزید کے حکم پر روا رکھے گئے ظلم و جور کے خلاف احتجاجی ماتمی جلوس برپا کرنے، اور امام حسین ابن علی ابن ابی طالب اور ان کے رفقائے کار کے ساتھ کیے گئے مظالم سفاکی و بربریت سے دنیائے عالم کو آگاہ کرنے کے لیے مجالس عزا،نذر و نیاز پر اربوں ڈالر خرچ کردیتی ہے، چود سوسال کا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی غم حسین کا ترو تازہ ہونا اس کی وجہ خون نا حق کو چھپانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کا خدائی بندوبست ہے۔شام اور عراق میں صحابہ کرام کے مزارات کی بے حرمتی کرنے والوں کو حاکم شام کی روحانی نسل قرار دیاجا سکتا ہے،جو محض ان سے اس بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ انہوں نے کربلا میں حاکم شام کی بجائے امام حسین کا ساتھ دیا تھا۔آج حاکم شام کے ان خیر خواہوں سے وہ ممالک بھی نجات چاہتے ہیں جنہوں نے دولت اسلامیہ عراق و شام ( داعش) کی سرپرستی کرکے اسے دنیا میں متعارف کروایا اور انہیں کروڑوں ڈالر کے ہتھیار فراہم کیے۔میری ہمیشہ یہی دعا اور آرزو رہی ہے کہ خدا وند سوائے غم حسین کے کوئی غم نہ دکھائے، یہ دعا بھی میرا معمول کا حصہ رہی ہے کہ اے اللہ کربلا کی سرزمین پر آل رسول، جگر گوشہ بتول اولاد علی و نبیﷺ اور نبی زادیوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کرنے والوں اور ان کے پیروکاروں ( جنہوں نے آج بھی امت محمدیہ کا سکھ چین برباد کر رکھا ہے)کو جہنم کا ایندھن بنانا وطن عزیز کے امن کو برباد کرنے پر تلے ہوئے مٹھی بھر دہشت گردوں کو نیست و نابود کر دے۔دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی کوششوں کو اس وقت کامیابی حاصل سکتی ہے جب پوری دنیا کربلا کے پیغام کو سمجھ پائے گی اور اسے اپنا کر اس پر عمل پیرا ہوگی، اس لیے کہتا ہوں کہ دنیا کو دہشت گردی اور دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے اقوام عالم کو درس کربلا کو اپنانا ہوگا ورنہ۔۔۔ تاریک راہوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔یہی پیغام حسینی و پیغام کربلا ہے جسے اپنانے کی اشد ضروت ہے۔
فیس بک کمینٹ