اس میں کوئی شک نہیں کہ لکھنؤ سے لے کر پاکستان کے ہر شہر میں جہاں جہاں مرثیے کی مجالس کا انعقاد ہوتا ہے ان سب کے پیشِ نظر میر انیس اور دبیر کی وہ مجالس ہوتی ہیں جہاں پر دونوں اپنے اپنے مرثیے پڑھا کرتے تھے۔ خاص طور پر لکھنؤ کی مجالس کو دیکھ کر آج بھی پوری دنیا میں اُردو بولنے والے جب ایامِ عزا میں مرثیے کی مجالس کا اہتمام کرتے ہیں تو ان مجالس میں پڑھے جانے والے مرثیے انیس و دبیر کے ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں اِن دونوں شعراء کرام کے مرثیوں کو پڑھ کر اُردو کے ہر اہم شاعر نے مرثیہ کہا خواہ اُس کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو۔ وہ امامِ عالی مقام کے حضور اپنی شاعری کے ذریعے حاضری ضرور لگواتا ہے۔ محرم الحرام اور صفرالمظفر میں ایسی مجالس کا اہتمام خصوصی انتظامات کر کے کیا جاتا ہے۔ ایسے میں جب کبھی مرثیے کی مجالس میں جانا ہو تو ذہن میں میر انیس اور دبیر کی مجالسِ عزا کا خاکہ سامنے آ جاتا ہے۔ مَیں اکثر ایسی مجالس میں میر انیس کو اپنے سامنے بیٹھا ہوا پاتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میر انیس اس دنیا سے نہیں گئے بلکہ وہ مرثیے کی ہر مجلس میں موجود ہوتے ہیں۔
میر انیس کو شعر گوئی اپنے والدِ محترم میر مستحسن خلیق اور دادا میر حسن اور پردادا میر ضاحک کے ذریعے عطا ہوئی۔ دادا امیر حسن نامور غزل گو کے علاوہ مثنوی سحرالبیان کے ذریعے ادب میں اپنی جگہ بنا چکے تھے۔ میر انیس میر خلیق کے بچوں میں سب سے بڑے تھے اسی لیے ان کے والد نے انیس کی تربیت مذہبی، ادبی، ثقافتی اور تہذیبی ماحول کے تحت کی تاکہ مستقبل میں انیس لکھنؤ کی علمی و ادبی محافل میں نام بنا سکیں۔ اس کے علاوہ انیس کو فنِ سپہ گری کی بھی تعلیم دلائی گئی۔ اس تعلیم کا مقصد انیس سے جنگ و جدل کرانا مقصود نہ تھا بلکہ ان کے والد میر خلیق آغاز سے ہی انہیں مرثیہ گو شاعر بنانا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے میر انیس کو غزلیں کہنے سے منع کر دیا تاکہ وہ اپنی پوری توجہ مرثیہ کی جانب کر سکیں۔ فنِ سپہ گری میں ماہر ہونے کے بعد انہوں نے وہی صلاحیت مرثیہ کہنے میں اس وقت استعمال کی جب میر انیس مرثیے میں جنگ کے مناظر قلمبند کرتے تھے۔ میر انیس کی پیدائش تو فیض آباد (بھارت) میں ہوئی لیکن ان کو اصل شہرت لکھنؤ میں مرثیے پڑھنے سے ملی۔ انیس سے پہلے لکھنؤ میں دبیر مرثیہ کہنے اور پڑھنے میں شہرت پا چکے تھے لیکن اس کے باوجود انہیں فیض آباد سے لکھنؤ آتے اور اہلِ لکھنؤ کو اپنے مرثیے کے ذریعے فتح کر کے چلے جاتے۔ آہستہ آہستہ لکھنؤ میں عاشقانِ انیس کی تعداد بڑھنے لگی جس کے بعد وہ مستقل فیض آباد سے لکھنؤ منتقل ہو گئے۔
1857ء کی جنگ میں انگریزوں نے جب لکھنؤ کو بھی تباہ و برباد کر دیا تو اس تباہی میں میر انیس کا گھر اور امام بارگاہ منہدم ہو گئے ۔ انیس کے بہت سے چاہنے والے رئیس موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے جس کے نتیجہ میں گھر میں فاقے ہونے لگے تو انہوں نے مرثیے پڑھنے کے لیے مختلف شہروں کی مجالس کا انتخاب کرنا پڑا۔ اہلِ لکھنؤ سے اتنے ناراض ہوئے کہ 12 سال تک لکھنؤ کی مجالس سے غیر حاضر رہے۔ اس کی توجیہ یہ بیان کرتے کہ لکھنؤ والوں کی بے قدری کی وجہ سے مجھے بیرونِ لکھنؤ جانا پڑا۔ ناراضگی کے اس دور میں کبھی کبھار اپنے عزیز و اقارب کی درخواست پر لکھنؤ میں مرثیہ پڑھ دیتے۔ ان مجالس میں اہلِ لکھنؤ کی اتنی بڑی تعداد موجود ہوتی کہ جب انیس ایک مصرع پڑھتے تو اسی مصرع کو میر مونس مجلس کے درمیان والے حصے میں کھڑے ہو کر پڑھتے تاکہ مجلس کے آخری حصے میں موجود لوگ بھی ان کا مرثیہ سن سکیں۔ انیس کا کلام پڑھنے کا انداز بھی خوبصورت ہوا کرتا تھا۔ منبر پر آتے ہی بوڑھے میر انیس جوان دکھائی دیتے۔
ایک مرتبہ کا تذکرہ ہے کہ میر انیس نواب تہور یار جنگ کے بلاوے پر حیدرآباد دکن گئے تو تیز بخار نے آن لیا۔ تقریباً ایک ہفتہ بستر علالت پر پڑے رہے۔ کچھ صحت بہتر ہوئی تو معلوم ہوا محرم الحرام کا چاند نظر آ گیا ہے۔ تہور یار جنگ نے میر انیس سے کہا اس وقت ہزاروں لوگ آپ سے مرثیہ سننے کے لیے امام باڑے میں موجود ہیں۔ تو میر انیس نے ہمت باندھی تو جیسے جیسے مرثیہ اپنے اختتام کو گیا تو میر انیس کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ کبھی بیمار ہی نہ تھے۔ جیسے ہی مجلس تمام ہوتی تو ہزاروں لوگ ان کے ہاتھوں کو چوم رہے تھے۔
انیس کے ایک شیدائی صغیر بلگرامی لکھتے ہیں ’’مَیں مرثیے میں دبیر کا مداح تھا۔ انیس نے مجھے کبھی متاثر نہ کیا تھا۔ ایک بار اتفاق سے میر انیس کی مجلس میں چلا گیا۔ ایک شعر میں انہوں نے پڑھا:
ساتوں جہنم آتشِ فرقت میں جلتے ہیں
شعلے تری تلاش میں باہر نکلتے ہیں
یہ شعر سنتے ہیں مجھے یوں لگا کہ جیسے میرے اردگرد شعلے ہیں اور مَیں ان میں گھرا ہوا ہوں۔ مَیں ان کا کلام سننے میں اتنا محو ہوا کہ مجھے آسے پاسے کا ہوش نہ رہا۔ جب مرثیہ ختم ہو گیا تو لوگوں کے رش کی وجہ سے مجھے جب دھکے پڑے تو علم ہوا مَیں کہاں ہوں اور کس عالم میں ہوں۔‘‘
میر انیس کے ایک شاگرد سیّد محمد جعفر کا کہنا تھا ’’میر انیس کی آواز میں جو دلکشی تھی وہ کسی انسان کا کیا ذکر، کسی خوش الحان پرند اور کسی باجے کی آواز میں بھی نہیں۔‘‘
بنارس میں ہونے والی ایک مجلس کے احوال میں مولوی سیّد باقر حسین جون پوری لکھتے ہیں ’’جب جناب میر صاحب منبر پر سے اترے تو آٹھ نو آدمی بے ہوش ہو چکے تھے۔‘‘
میر انیس اپنی مجالس میں بے ترتیبی اور بدنظمی ہرگز پسند نہ کرتے تھے۔ واقعاتِ انیس میں مہدی حسن احسن تحریر کرتے ہیں ’’ایک مرتبہ دورانِ مرثیہ خوانی شہر کے ایک رئیس مجلس میں تشریف لائے اور چاہا کہ کسی طرح پورے مجمع کو طے کرتے ہوئے منبر کے قریب ہو جائیں۔ میر صاحب نے جیسے ہی انہیں دیکھا تو وہیں سے کہا بس وہیں بیٹھ جاؤ ایک قدم نہ آگے بڑھانا۔ رئیسِ شہر نے اسی جگہ پر غوطہ مارا اور جوتیوں کے قریب آرام سے بیٹھ گئے۔‘‘
اسی طرح عظیم آباد کی ایک مجلس میں شیخ خیرات علی پنکھا ہلاتے ہلاتے ذرا جھک گئے۔ آپ نے منبر سے ڈانٹا مرثیہ سنتے ہو یا سوتے ہو۔ فکرِ بلیغ میں شاد عظیم آبادی لکھتے ہیں ’’لکھنؤ کے ایک چوک میں میر صاحب مجلس پڑھ رہے تھے کہ کسی ضرورت کے تحت بعض لوگ مجلس سے اٹھ گئے تو میر صاحب نے وہ منظر دیکھتے ہی مرثیہ روک دیا اور کہنے لگے لکھنؤ میں سخن فہمی اور قدر شناسی کا مادہ نہ رہا۔ ہر چند بہت اصرار کیا گیا مگر پھر مرثیہ نہ پڑھا اور منبر سے اتر آئے۔‘‘
ذخیرۂ ادب میں سوز خواں میر معصوم علی خاں بیان کرتے ہیں ’’لکھنؤ کی مجلس میں انیس پڑھ رہے تھے کہ نواب مرزا حیدر تشریف لائے اور منبر کے قریب آ کر براجمان ہوئے۔ دستور کے مطابق ان کا بھنڈی خانہ، آب دار خانہ اور دستِ بغچہ بھی آنا شروع ہوا۔ سامان کے آنے میں کچھ وقت لگا۔ میر صاحب خاموش ہو کر غصے سے بیٹھے رہے۔ اسی اثناء میں حاضرین میں سے کسی نے کہا جناب میر صاحب بسم اﷲ آپ مرثیہ شروع فرمائیں۔ انیس نے جھلا کر جواب دیا کیا شروع کروں آپ کا جہیز تو آئے۔‘‘
اپنے مرثیوں کے ذریعے سانحہ کربلا کے ہر زاویے کو میر انیس نے نئے خیال سے باندھا۔ وہ محمدؐ و آلِ محمدؐ کی نظر میں اس لیے پسندیدہ ہوں گے کہ میر انیس نے خانوادۂ رسولؐ کی جس طرح توصیف لکھی وہ ہمارے رثائی ادب کا ایک روشن باب ہے۔ یہی وجہ ہے جب آب حیات میں مولوی محمد حسین آزاد نے میر انیس کے بارے میں جب یہ لکھا تو مَیں یہ جان گیا اُردو ادب میں ان کا کتنا بڑا مقام ہے۔
’’میر انیس کے مرثیے کا انداز نیا۔ مقالہ نیا اور اس پر کیا منحصر ہے صبح کا عالم دیکھو تو سبحان اﷲ، رات کی رخصت، سیاہی کا پھٹنا، نور کا ظہور، آفتاب کا طلوع، مرغزار کی بہار، شام ہے تو شامِ غریباں کی اداسی۔ غرض جس حالت کو لیا اس کا سماں باندھ دیا۔ آمدِ مضامین کی بھی انتہا نہ رہی جن مرثیوں کے بند 40، 50 سے زیادہ نہ ہوتے وہ 50 سے گزر کر 200 سے بھی نکل گئے۔ میر صاحب مرحوم نے کم از کم 10 ہزار مرثیہ کہا ہو گا اور سلاموں کا کیا شمار ہے۔ رباعیاں تو ان کی باتیں ہیں۔‘‘
فیس بک کمینٹ