امام کعبہ اور سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور پاکستان تشریف لائے، پاکستان میں قیام کے دوران دونوں مہمانان گرامی قدر نے جمیعت علمائے اسلام کی صد سالہ تقریب میں شرکت کی،امام کعبہ نے پارلیمنٹ لاجز اور اسلام آباد کی فیصل مسجد میں نماز عصر اور مغرب ادا کی اور امامت کروائی،امام کعبہ لاہور بھی تشریف لائے ،جہاں انہوں نے جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ کا دورہ کیا پھر وہ بادشاہی مسجد پہنچے اور نماز مغرب ادا کی ،سعودی عرب سے آنے والے معزز مہمانان گرامی قدر میں ان کے اسمائے گرامی کا ایک جیسا ہونا قدر مشترک ہے، امام کعبہ کا نام الشیخ صالح بن ابراہیم اور سعودی وزیر مذہبی امور کا اسم گرامی صالح بن عبدالعزیز ہے۔ دونوں معزز مہمانوں کے نام کے ساتھ ان کے کام بھی صالح ہیں اور ملازمت کے جن مناصب پر فائز ہیں وہ بھی صالح امور کی انجام دہی ہے۔ امام کعبہ بھی لوگوں کو نیکی کی جانب آنے کی تلقین کرتے ہیں اور سعودی وزارت مذہبی امور بھی اچھے کاموں کی انجام دہی کی ذمہ داری نبھا رہی ہے، اللہ تعالی ان دونوں کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے اور انہیں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے اور پھیلانے کی ہمت و جرآت عطا فرمائے۔
امام کعبہ الشیخ صالح بن ابراہیم نے جمیعت علمائے اسلام کی صد سالہ تقریبات کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امت مسلمہ خصوصاً پاکستانی عوام کو ہدایت کی کہ” اسلام امن و محبت کا دین ہے،اور قران پاک اور اسوہ رسول کی پیروی کرتے ہوئے مسلمان فروعی اختلافات میں نہ پڑیں اور امت میں انتشار پیدا نہیں کرنا چاہیے ، “ امام کعبہ نے علمائے دین کو نصیحت کی کہ ” وہ امت محمدیہ میں اتحاد و اتفاق کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں“امام کعبہ نے یہ بھی فرمایا کہ انسانیت کی فلاح اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں پوشیدہ ہے۔ یوں تو امریکا سمیت بہت سے ممالک ایسے ہیں جو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے چلے آ رہے ہیں، اور ہم ان کے اس طرز عمل کا برا بھی نہیں مناتے۔ سعودی عرب کا شمار بھی قیام پاکستان کے بعد سے ہی ایسے ممالک میں ہوتا ہے۔ سعودی عرب کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ابتدا جماعت اسلامی کے بانی امیر حضرت مولانا ابوالااعلیٰ مودودی کو سنائی گئی سزائے موت کو ختم کرنے کی اپیل سے ہوئی، جسے ہم نے منظور کیا اور سزائے موت ختم کرکے مولانا مودودی کو رہائی عطا کی۔ 1977 کی قومی اتحاد کی بھٹو حکومت سے لڑائی میں بھی سعودی عرب کی جانب سے مداخلت کی گئی۔ سعودی عرب کے سفیر ریاض الخطیب نے قومی اتحاد اور بھٹو حکومت کو سمجھا بجھا کر حالات کو بگڑنے سے بچانے کی حتی الوسع کوشش کی، چونکہ قومی اتحاد کے اندر موجود عناصر جنہیں بیرونی اور اندرونی قوتوں کی اشیر باد حاصل تھی جو نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان کے حالات میں بہتری اور سدھار آئے، لہٰذا انہوں نے حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھنے دی۔
پاک سعودی تعلقات پردونوں ممالک میں حکومتوں کے تبدیلی کے اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں اور ہوتے ہیں، مثال کے طور پر پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی تو سعودی عرب کے فرماں روا شاہ فیصل مرحوم اور بھٹو صاحب کی سیاسی سوچ ایک تھی، شاہ فیصل مرحوم کے قتل کیے جانے اور بھٹو کی جگہ جنرل ضیاء کے برسراقتدار آنے پر دونوں کے تعلقات کی نوعیت یکساں بدل گئی، بھٹو صاحب اور شاہ فیصل مرحوم اسرائیل سے دو دو ہاتھ کرنے کے موڈ میں تھے اور اسے عالم اسلام کے لیے خطرہ ہی نہیں ناسور سمجھتے تھے، مگر جنرل ضیاءالحق اور سعودی عرب کے حکمران اسرائیل کے لیے نرم رویہ رکھتے تھے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سعودی عرب اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کر چکا ہے، اور پاکستان میں اس پر بحث جاری ہے۔ پاکستان میں حکومت کوئی بھی ہو ، جمہوری حکومت ہو چاہے فوجی حکومت برسراقتدار ہو، ہر حکومت کی آنکھوں کا تارا سعودی عرب کے حکمران ہوتے ہیں، کوئی حکومت بھی سعودی حکمرانوں کی خواہشات، آرزوﺅں اور تمناﺅں سے روگردانی یا چشم پوشی کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی،ایسا صرف مکہ و مدینہ سے ہمارے حکمرانوں کی والہانہ محبت اور لگاﺅ کے باعث ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ سعودی عرب ہمیں تیل مفت فراہم کرتا ہے، یا اپنے ہاں ہمارے پاکستانی قیدیوں سے دیگر قیدیوں کی نسبت نرمی کا برتاﺅ کرتا ہے،اور ناہی ایسا ہے کہ سعودی عرب پاکستانیوں کے لیے امریگیشن قوانین میں سہولت دے کر پاکستانیوں کو سعودی شہریت عطا کرتا ہے۔ اور یہ بھی نہیں کہ پاکستانی مرد وخواتین سعودی باشندوں سے رشتہ ازواج میں منسلک ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور صالح بن عبدالعزیز نے کہا کہ” دشمن سامنے آئے گا تو سعودی اتحاد اس کا مقابلہ کرے گا، مسلمانوں کی جانب سے میلی آنکھ دیکھنے والوں کی آنکھ نکال دی جائے گی ،سعودی عرب کے عوام پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی مرحلے پر پاکستان کو تنہا چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا“ سعودی وزیر مذہبی امور کے اس بیان اور امام کعبہ کے پارلیمنٹ ہاﺅس کے دورے سے یہی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں کہ ان دونوں معزز مہمانان گرامی قدر کے دورہ پاکستان کے دیگر مقاصد میں یہ بھی شامل ہے کہ ان بزرگوں کو جنرل راحیل شریف کی اسلامی اتحاد کی ذمہ داریاں سونپے جانے کی خبروں سے جو پاکستان میں تشویش اور بے چینی پائی گئی ہے اس کا تدارک کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ انہیں پاکستان کی لبرل اور شیعہ کمیونٹی کو مطمئن کرنا ہے کہ اسلامی اتحاد ایران مخالف نہیں ہے۔ امام کعبہ اور سعودی وزیر مذہبی امور کے فرمودات پر عمل کر کے یقیناً امت مسلمہ درپیش چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے، بشرط کہ اس پر امت مسلمہ کے تمام ممالک کے حکمران یکسوئی کے ساتھ عمل پیرا ہوں، ایسا نہیں چلے گا کہ یہ نصیحت چند ممالک کے لیے ہو اور باقی ممالک خود کو اس کے دائرہ کار سے باہر تصور کریں۔ خصوصاً سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور جناب صالح بن عبدالعزیز کو اس بات کی وضاخت کرنی چاہیے تھی کہ جس دشمن کے سامنے آنے پر اسلامی اتحاد اس کا مقابلہ کرے گا وہ دشمن کون ہے ؟ کیا جناب صالح بن عبدالعزیز کی نظر میں اسرائیل امت مسلمہ کا دشمن ہے یا نہیں ؟ کیا سعودی عرب کے یہ بزرگان دین امریکا اور اس کے اتحادیوں کو امت مسلمہ کا دشمن تسلیم کرتے ہیں؟جناب صالح بن عبدالعزیز اس بات کی بھی وضاخت فرمادیں کہ ان کا یہ کہنا کہ مسلمانوں کی طرف میلی نظر ڈالنے والے کی آنکھ نکال دیں گے“ کس کی جانب اشارہ ہے ؟ کیا اسرائیل مسلمانوں کی جانب محبت کی نظر سے دیکھتا ہے۔اور امریکا مسلمانوں کے لیے سوچتا ہے، کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ پالیسیاں اور اقدامات مسلمانوں کے حق میں ہیں؟
پاکستانی عوام کا متفقہ مطالبہ ہے کہ اسلامی اتحاد کی کمان سنبھالنے سے قبل جنرل راحیل شریف اور سعودی عرب کو اس دشمن کی نشاندہی کرنا چاہیے جس کے مقابلے کے لیے یہ اسلامی اتحاد معرض وجود میں لایا گیا ہے، ورنہ اس اتحاد اور جنرل راحیل کے لیے مسائل بڑھتے جائیں گے، سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور تو سعودی عرب حکومت کا حصہ ہیں اس لیے ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ شام پر امریکی کروز مزائل حملے کی مذمت کریں گے، بے معنی ہے، لیکن امام کعبہ کی طرف سے اس مسئلے پر کچھ نہ کہنا بڑی حیران کن بات ہے، کیونکہ قرآن مجید حق بات کہنے کی ہدایت کرتا ہے مصلحت پسندی سے کام لینے سے منع کرتا ہے۔ امام کعبہ کی نصیحت کہ ”علمائے دین امت کو اسوہ رسول اور قرآن کی پیروی کرنے کا درس دیں اور فرقہ پرستی سے اجتناب برتنے کی تلقین کریں، میرا خیال ہے سب سے پہلے امام کعبہ کو خود اس پر عمل کرنا ہوگا،اگر امام کعبہ شام پر امریکی کروز میزائل کی حمایت کرنے والوں اسرائیل، ترکی ،برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کو اسلام دوست سمجھتے ہیں تو پھر امت مسلمہ کا دشمن کون ہے؟ اس کی وضاحت ضروری ہے۔
فیس بک کمینٹ