پاکستان میں 10 اپریل 2017 کو پینتالیسویں ’’آئین کے دن‘‘ کے طور پر منایا گیا۔ ذرائع ابلاغ میں بھی اس کی گونج سنی گئی۔ اس دن کے تناظر میں ہونے والی تشہیر میں سب سے اہم بات دستور کے متعلق فنی اظہار تھا۔ پارلیمنٹ میں داخل ہونے والے مرکزی راستے کی دیوار پر نقش ونگار بنائے گئے ہیں۔ اس فنی عمل کو ’’گلیِ دستور‘‘ کا نام دیا گیا۔ گزشتہ برس میں اس تخلیقی منصوبے کی تکمیل ہوئی تھی، ویسے کیا ہی اچھا ہوتا اس کا نام ’’دستورگلی‘‘ ہوتا۔ بہرحال اس کے ذریعے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ایک مینوریل کے ذریعے متصور کیا گیا۔ سیاسی، جمہوری، آمرانہ ادوار کے تذکرے کے علاوہ پاکستان میں رونما ہونے والے کلیدی واقعات کو بالترتیب دکھایا گیا۔ منصوبے کی تکمیل میں نیشنل کالج آف آرٹس، راولپنڈی کے 3 اساتذہ 9 طلبا اور 3 ماہرین تعمیرات نے حصہ لیا۔ اس منصوبے کا بنیادی خیال، چیئرمین سینیٹ آف پاکستان میاں رضاربانی کا تھا۔ ان کی دلچسپی اور معاونت سے ہی یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس میں جن دیگر افراد کی اجتماعی کوششیں شامل ہیں، ان میں سینیٹ لیڈرشپ، سینیٹ سیکرٹریٹ، کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی، سمیت دیگر شامل ہیں۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ،فن کے تناظر میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ ’’ گلیِ دستور‘‘ کے نام سے پانچ حصوں میں تقسیم شدہ مینورل ہے، جس میں چار مارشل لاء کے ادوار ہیں۔ پاکستان کے دیگر کئی تاریخی واقعات اور معاملات کا بھی تصویری تذکرہ ہے، جیسا کہ بنگالی اور اردو زبان کا معاملہ، سقوط ڈھاکہ، بے نظیر اور نواز شریف کے جمہوری ادوار پر شب خون مارے جانے کی داستان، ضیاالحق کے مارشل لاء میں کوڑے کھانے والوں کا تذکرہ اور دیگر تاریخی حوالے شامل ہیں۔ مزاحمت کے تین شعرا حبیب جالب، احمد فراز اور جون ایلیا کی جدوجہد کو بھی اس فنی منظر نامے کاحصہ بنایا گیا ہے۔ یہ دیوار نہیں تاریخ کی ایک کھڑکی ہے، جس سے دوسری طرف کا منظر نامہ بہت صاف دکھائی دے رہا ہے، پاکستانی جامعات کے طلبا اور فنکاروں کو یہاں ضرور آنا چاہیے۔ اس تخلیقی منصوبے کی ایک نمایاں آرٹسٹ اور آرٹ ٹیچر ’’سوہینا‘‘ سے میری بات ہوئی۔ وہ آرٹ کے شعبے میں کئی برسوں سے تدریسی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ عملی فن سے بھی وابستہ ہیں۔ اس منصوبے میں انہوں نے اپنے دیگر ساتھیوں اور طلبا سمیت انتہائی محنت سے کام کیا تھا۔ وہ خود ایک اچھی آرٹسٹ تو ہیں ہی ،مگر ان کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ ان کے والد معروف شاعر جون ایلیا اور والدہ معروف کہانی نویس اور کالم نگار زاہدہ حنا ہیں، جن کی فنی خوبیاں سوہینا میں یکجا ہیں۔ سوہینا کے مطابق ’’اس منصوبے پر یوں تو پہلے سے کام کرنے کاسوچا جا رہا تھا، مگر کام آگے نہیں بڑھ رہا تھا،اسی دوران مجھ سمیت این سی اے، راولپنڈی کے دو ساتھی اساتذہ کواس کام کے متعلق ہونے والے اجلاس کا حصہ بنایا گیا، یوں ہم بھی اس منصوبے کی ٹیم میں شامل ہوئے۔ ہم نے دوبارہ سے اس منصوبے پر کام شروع کیا۔ 8 فٹ چوڑائی سے 81 فٹ کا ایک ڈیزائن طے ہوا۔ ہم نے اس کو ایکریلک پینٹ کے ساتھ مورل کو تخلیق کیا۔ ایک مہینے کی مدت اپنا کام ختم کیا۔ہم روز وہاں جاتے، اپنا کام کرتے، مجھ سمیت دیگر ساتھی اساتذہ اور طالب علموں نے پوری تندہی سے اس منصوبے کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ ہم نے دن رات اس تخلیقی منصوبے کی تکمیل میں صرف کیے۔ رضا ربانی نے اس منصوبے کی افتتاحی تقریب میں ہماری اس جانفشانی کاتذکرہ بھی کیا۔
پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کاپہلا مینورل تخلیق کیاگیاہے، جو عصری فن کا منہ بولتا نمونہ ہے۔ اس کی تکنیکی تفصیلات کی مختصر تفصیل بتائوں ،تو وہ کچھ یوں ہے کہ اس میں پرنٹ میکنگ سے متعلق ایچنگز ہیں، ڈیجیٹیل اورایچنگ پرنٹس ہیں۔ اکریلک پینٹس ہیں، پوری دیوار کے اوپر دستاویزات اور تصاویر پینٹ کی گئی ہیں، جن کے لیے ان تکنیک سے مدد لی گئی ہے۔ اس آرٹ کے فن پارے کے اندر ریلیفس ہیں، پانچ ریلیفس لگے ہیں، مثال کے طورپر سقوط ڈھاکہ کے تناظر میں ایک ریلیف میں دکھایا گیا ہے کہ دو ہاتھ رسی پکڑے ہوئے تھے، وہ رسی ٹوٹ گئی ہے، ہاتھ ایک دوسرے سے چھوٹ رہے ہیں۔ اس میں جن شعرا کی شاعری شامل کی گئی ہے، ان میں حبیب جالب، احمد فراز اور جون ایلیا شامل ہیں۔ ایک ریلیف میں آئین کی کتاب دکھائی گئی ہے، جس کو خواتین اور مردوں کے ہاتھوں میں اٹھائے، دکھایا گیا ہے۔ تاریخ کی حقیقی تاریخ کو یہاں متصور کیا گیا ہے، بالخصوص طلبا کے دیکھنے کی چیز ہے۔ اس کا ’’گلی دستور‘‘ کا ایک لوگوبھی بنایا گیا ہے، جو ہمارے ایک طالب علم نے بنایا، وہ لوگوبھی اس فن پارے کے ساتھ موجود ہے،مختلف طرح کے عناصر کے ذریعے بھی اس کو مزید پرکشش بنایا گیا ہے۔ اس دیوارپر تمام عنوانات انگریزی زبان میں لکھے گئے ہیں۔مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں پاکستان کے ایک قومی سطح کے تخلیقی منصوبے کا حصہ رہی۔‘‘
پاکستان میں قومی سطح پر فن کی اس حوصلہ افزائی کی روایت قابل ستائش ہے، اس طرح کے اقدامات ہوتے رہنا چاہیں، تا کہ ہمارے فنکار اپنے فن میں مزید جدت لاکر پاکستان کے روشن چہرے کو پینٹ کرسکیں۔ دستور گلی کا تخلیق ہونا اسی طرزِفکر کی ایک عملی شکل ہے، اس اجتماعی کوشش کے لیے تمام متعلقہ ادارے اور افراد مبارک باد کے مستحق ہیں ۔
پاکستان زندہ باد